مقالہ جات

امام خمینی ؒ کی برسی کے موقع پر بوڑھے استعمار کے میڈیا کا غلیظ پروپگنڈا ناکام

بوڑھے استعمار برطانیہ کا سگِ خبیث بی بی سی عادت سے مجبور ایک مرتبہ پھر امام خمینی (رہ) کی برسی پر آپ کی شخصیت کشی کی کوشش کر رہا ہے اور ایک گمراہ کن کہانی نشر کی ہے تاکہ عوام کو دھوکہ دیا جا سکے. بی بی سی لکھتا ہے:

’’ امام خمینی نے امریکہ کو 27 جنوری کو ایک خط لکھا کہ اور یہ تجویز دی تھی کہ اگر صدر کارٹر فوج پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے ان کے اقتدار پر قبضے کو ہموار بنا دیں تو وہ قوم کو پرسکون کر دیں گے۔ استحکام قائم ہو سکتا ہے، ایران میں امریکی مفادات اور شہریوں کو تحفظ ملے گا۔‘‘

اس خبر کا کوئی آزادانہ ثبوت نہیں ہے۔ کوئی گواہ نہیں ہے، کوئی مستبد ذریعہ نہیں ہے۔ بس وہ کہیں اور ہم ایمان لے آئیں والی بات ہے۔ اس طرح کے جعلی دعوے تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔

دراصل بی بی سی ثابت کرنا چاھتا ہیں کہ امام اپنے نظریات میں معاذ اللہ صداقت نہیں رکھتے تھے اور سیاسی فائدے کیلئے طاغوتوں اور ظالموں خصوصاً شیطانِ بزرگ سے تعلقات میں قباحت نہیں سمجھتے تھے۔ یہ کہ مرگ بر امریکہ کا نعرہ محض عوام فریبی کیلئے تھا اور یہ برائی کا اڈہ بی بی سی یہ ثابت کرنا چاھتا ہے کہ امام معاذ اللہ ، اللہ کی مدد سے نہیں بلکہ امریکہ کی مدد سے انقلاب لائے کیونکہ امریکہ نے فوج کو مارشل لاء سے روکا۔

اسے کہتے ہیں تاریخ اور حقائق کے منہ پر تھوکنا۔ مضمون کا لبِ لباب یہی ہے کہ امام خمینی کو امریکہ کی مدد کی ضرورت تھی اور وہ شاہ کو ہٹانے کیلئے امریکہ کو استعمال کرنا چاھتے تھے۔ شخصیت کشی کی اس بچگانہ کوشش ظاہر کرتی ہے کہ بی بی سی ، برطانیہ اور امریکہ امام خمینی اور اسلامِ نابِ محمدی کے اسلامی دنیا میں پھیلتے ہوئے اثرر و رسوخ سے خوفزدہ ہے اور اسے کم کرنے کیلئے امام کی شخصیت کشی کرنا چاھتے ہیں۔
اگر بی بی سی کے اس دعوے میں صداقت ہے کہ امام خمینی امریکہ سے کوئی ساز باز کرنا چاھتے تھے، ان کے دعوے میں صداقت نہیں تھی، وہ اپنے نظریات میں سچے نہیں تھے یا کہ وہ خدا کی مدد سے نہیں بلکہ امریکہ کی مدد سے انقلاب لائے ہیں تو پھر یہ ساز باز تو اس وقت زیادہ آسان تھی جب امام ایران کے حاکم بن گئے تھے، اس وقت انہیں کون روک سکتا تھا؟

لیکن ہم نے دیکھا کہ انقلابِ اسلامی کے بعد امام نے امریکہ سے کوئی تعلق نہیں رکھا اور اس کی انہیں بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑی لیکن امام اپنے موقف پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح قائم رہے۔ جب انقلابی طلبہ نے امریکی سفارت خانے کے عملے کو یرغمال بنایا تو امام نے انہیں شاباش دی اور کہا تم نے صحیح جگہ پر قبضہ کیا ہے، یہ جاسوسی کا اڈہ ہے۔

ایران نے 444 دنوں تک امریکی سفارت کاروں کو یرغمال بنائے رکھا اور ان کو بازیاب کروانے کیلئے امریکہ نے ایک خفیہ فوجی آپریشن بھی کیا لیکن خدا کی قدرت سے اس کے سارے جہاز دشت کویر میں طوفان کی زد میں آ کر آپس میں ٹکرا گئے جس کے بعد امریکی صدر نے ٹی وی پر آکر اس ناکام آپریشن کی ذمہ داری قبول کی۔ کیا امام کو اس وقت امریکہ کی ضرورت نہیں تھی جب ایران پر سخت ترین اقتصادی پابندیاں تھیں اور معیشیت کا پہیہ جام تھا؟ اگر امام امریکہ سے ساز باز کرنا چاھتے تو کیا اس وقت نہیں کر سکتے تھے اور کتنے مفادات حاصل کر سکتے تھے۔

اسی طرح جب مغرب اور امریکہ کے تعاون سے صدام نے ایران پر جنگ تھونپ دی جو دس سال جاری رہی تو اس دوران بھی امام چاھتے تو امریکہ سے تعاون بڑھا کر جنگ کا حل نکال سکتے تھے لیکن ایران نے دس سال تک دفاع کیا، کیمیائی ہتھیار برداشت کئے، 10 لاکھ جوان شہید ہوئے، کیا امام اس وقت امریکہ سے تعلقات نہیں قائم کر سکتے تھے اور جنگ ٹال نہیں سکتے تھے؟

امام خمینی ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اصل ایران نہیں، اصل اسلام ہے۔ جب امام خمینی نے پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود سلمان رشدی ملعون کے قتل کا فتویٰ دیا تو ایران کی کچھ سرکردہ شخصیات نے بی بی سی کی طرح امام کو ’سمجھانے‘ کی کوشش کی کہ ایسا نہ کریں ہمیں خطرہ ہے۔ امام نے کہا کیا خظرہ ہے، کہا ہم پر اقتصادی پابندیاں لگیں گی ،ہمارا بائیکاٹ ہو جائے گا، ہم پر فوجی کاروائی ہو جائے گی۔ امام سنتے رہے، فرمایا اور کیا ہو گا۔ کہا ہو سکتا ہے ایران ہی ختم ہو جائے۔ وہاں امام نے تاریخی جملے کہے کہ ہمیں ایران نہیں، اسلام چاھئے۔ ہمیں ایران بھی اسلام کیلئے چاھئے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں فقیہِ دین ہوتے ہوئے رسول اللہ(ص) کی توہین پر خاموشی اختیار کر لوں، پھر میں کیسا دین دار اور فقیہ ہوں جب میں رسول اللہ(ص) کی توہین پر خاموش رہوں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امام نے پوری جرات سے ملعون رشدی کے قتل کا فتویٰ جاری کیا اور اس کے بعد ایران پر اقتصادی شکنجے بڑھا دئے گیے۔ کیا امام اس وقت ایرانی یا شخصی مفادات کیلئے امریکہ سے مدد نہیں لے سکتے تھے؟ کیا اس وقت امریکہ سے ساز باز نہیں کر سکتے تھے؟
تاریخ کے مطالعے سے بھی بی بی سی کا جھوٹ اور پروپیگنڈہ بے نقاب ہو جاتا ہے۔ بوڑھے استعمار اور شیطانِ بزرگ کی خواہش ہے کہ کسی طرح اسلامِ نابِ محمدی، اسلامِ انقلابی اور اسلامِ رسول اللہ(ص) کے پھیلاو کو روکیں جو طاغوتوں، استعماروں اور ظالموں سے مبارزے کا درس دیتا ہے اور ان سے ساز باز سے روکتا ہے۔ امام خمینی یہی فرماتے تھے کہ افسوس ابھی تک بہت سی مسلم اقوام اسلامِ نابِ محمدی اور امریکی اسلام میں فرق نہیں جان سکیں۔ امام خمینی (رہ) کی شخصیت کشی کی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی امام کی شخصیت اور نظریات کو تحریف کا نشانہ بنایا گیا ہے اور آپ کی شخصیت کے اصلی پہلو یعنی انقلاب اور ایمان باللہ کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سے پہلے جو بھی الٰہی تحریک کا پرچم دار اٹھا ہے، شیاطین نے ان کے ساتھ یہی کیا ہے۔ انبیا کی کردار کشی کی گئی اور اب انبیا کے جانشینوں کی کردار کشی جاری ہے لیکن ’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘۔

امام خمینی کی ذات اور افکار امتِ اسلامیہ کی نجات کا ذریعہ ہیں۔ علامہ اقبال کی طرح آپ نے بھی امتوں کے مسائل کا حل خودی کے حصول میں تجویز کیا۔ امام نے اس کا نام ہویت رکھا اور اقبال نے خودی یعنی اپنی اصل شخصیت اور پہچان کی طرف لوٹنا، امتِ رسول اللہ(ص) بننا۔ امام خمینی عصرِ حاضر میں حق پرستی کا روشن آفتاب ہیں اور سورج کا انکار کرنے والے اپنا ہی مذاق بنواتے ہیں۔
اسلامی انقلاب کا اثر و رسوخ روکنے کیلئے پہلے یہ حربہ اختیار کیا گیا کہ اسے شیعہ انقلاب یا ایرانی انقلاب کے نام سے متعارف کروایا جائے اور اس طرح اہل سنت کو خوفزدہ کیا جائے کہ شیعہ ہر چیز پر قبضہ کر لیں گے، شیعہ مشرقِ وسطیٰ پر قبضہ کر لیں گے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ حربہ کامیاب نہ رہا اور انقلاب کے نورانی اثرات پھیلتے رہے۔ لوگوں نے اس کی اصل اسلامی ماہیت کو سمجھا جو کسی فرقہ کے خلاف نہیں بلکہ شیطانی طاقتوں کے خلاف ہے۔ اگر اسلامی انقلاب ایک شیعہ انقلاب یا ایرانی انقلاب تھا جو ایران فلسطین کے سنیوں کی مدد کیوں کرتا ہے؟ اس وقت ایران کے علاوہ کوئی اسلامی ملک ایسا نہیں جو فلسطینی بھائیوں کی مالی و جنگی امداد کر رہا ہو تاکہ وہ زندگی بسر کر سکیں اور اپنا دفاع بھی کر سکیں۔
ا
یران فوبیا  و شیعہ فوبیا کی کوشش ایک عرصے سے جاری ہے، اب امام کی ذات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کوشش ہے کہ عوام کا امام پر اعتماد ختم کیا جائے۔ نتیجہ اس کے برعکس ہی ہوگا لیکن اس کیلئے بیداری اور شعور کی ضرورت ہے۔

امریکہ کی مدد سے جو انقلاب آتے ہیں ان کا حشر مصر کے انقلاب جیسا ہوتا ہے۔ وہاں کے اسلام پسندوں نے امریکہ پر اعتماد کیا اور منہ کی کھائی۔ جو انقلاب اللہ کی مدد سے آتے ہیں وہ 37 سال بعد بھی مضبوطی سے قائم رہتے ہیں اور امریکہ کی بھر پور دشمنی کے باوجود مضبوط تر ہوتے جاتے ہیں، امام نے پہلے ہی امریکہ کو کہا تھا، ’’امریکہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘‘ ۔ تاریخ نے امام کے اس جملے کی صداقت کو ثابت کیا۔ امریکی انقلاب اور اسلامی انقلاب کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے۔ چمکتا ہوا سورج سب کو نظر آتا ہے لیکن صرف ایک مخلوق کو نہیں آتا جسے چمگادڑ کہتے ہیں۔

فيض فطرت نے تجھے ديدہ شاہيں بخشا
جس ميں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہ خفاش

متعلقہ مضامین

Back to top button