مقالہ جات

کیا طالبان داعش کو شکست دے سکتے ہیں؟

داعش اپنے گروہ کو عراق اور شام کے علاوہ بھی توسیع دے رہا ہے، اور ان علاقوں کے مقامی گروہوں کو قائل کرنے، اکسانے اور ان کی حوصلہ افزائی کر نے کیساتھ ساتھ انہیں ابوبکر بغدادی سے وفادار رہنے کا حلف اٹھانے پر مجبور کر رہا ہے۔ نائیجیریا میں مختلف گروہ جسیے بوکو حرام، لیبیا اور جنوب مشرقی ایشیا بھی اب داعش سے وابستہ ہیں۔ ان حالات میں ان گروہوں میں سے ایک طاقتور ترین نام نہاد اسلامی گروہ جس نے نہ صرف داعش کے ساتھ شمولیت سے انکار کر دیا بلکہ ان کی مخالفت بھی کی، وہ پاکستانی اورافغانی طالبان کا گروہ ہے۔ یہ گروہ یقینی طور پر داعش (آئی ایس آئی) کو توڑ دے گا۔ اسی مضمون میں آگے چل کر اس موقف پر دلیلیں پیش کی جائیں گی۔
داعش نے افغانستان اور پاکستان میں ٢٦ جنوری ٢٠١٥ء میں اپنے وجود کا اعلان کیا، جب طالبان کی جانب سے ان کے ایک مسترد شدہ کمانڈر نے ابوبکر البغدادی کی بیعت کی۔ داعش کی نظر میں اس علاقے کو صوبہ خراسان کہا جاتا ہے۔ لفظ "خراسان” بہت قدیم اور ایرانی کلمہ ہے، کہ جو ان دنوں افغانستان، پاکستان اور ایران کے بعض حصوں پر اطلاق ہوتا ہے۔ طالبان کے زیادہ تر درمیانے درجے کے کمانڈروں اور وہ کمانڈر کہ جن کا طالبان کے سربراہ ملا عمر سے اختلاف تھا، نے داعش میں شمولیت اختیار کی ہے۔ تاہم طالبان اس خطرے سے نمٹ لیں گے۔ اسی ضمن میں پہلی دلیل یہ کہ اگر طالبان اور داعش میں موازنہ کیا جائے تو طالبان کو افغانستان میں موجود داعش کی نسبت بہت سے معاملات میں برتری حاصل ہے۔ غیر ملکی جنگجو بہت کم افغانستان کا سفر کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ مقامی افغانیوں کے ذریعے اس طرح کے اقدام اٹھانا مذموم ہے، اسی طرح ابھی تک زیادہ لوگ داعش سے منسلک نہیں ہوئے کیونکہ طالبان نے القاعدہ کی مدد سے اپنے مختلف دھڑوں کو متحد رکھا ہوا ہے۔
دوسری دلیل یہ کہ طالبان کا اسلامک ویژن داعش کی نسبت بہتر ہے۔ اگرچہ طالبان بھی انتہا پسند سنی گروہ ہے لیکن جنوبی ایشیا کے دیوبندی، داعش کے وہابی وسلفی سنیوں کی نسبت کم انتہا پسند ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے طالبان نے ابوبکر البغدادی کی خلافت کے ٦٠ صفحات پر مشتمل کتابچے کو رد کر دیا ہے، اس موضوع پر انہیں القاعدہ کی حمایت بھی حاصل ہے، اور اس کے بدلے میں ملا عمر اور اس کے جانشین ملا اختر منصور کو امیرالمومنین کا لقب ملا ہے، یہ وہی لقب ہے جو خلیفہ کے معنی دیتا ہے اور یہ وہی روش ہے کہ جسے اسامہ بن لادن نے ملا عمر کی باقاعدہ بیعت کر کے نہ صرف شروع کیا بلکہ اسے جاری رکھا۔ تیسری اور اہم ترین دلیل یہ کہ طالبان کی نہ صرف اپنے قبائلی ثقافتی نظام میں گہری جڑیں ہیں، بلکہ ہندوکش کے پشتون قبیلے کے ساتھ اتحاد بھی ہے۔ لہذٰا اس کام نے داعش کے جہانی وجود کے نظریئے کومزید مشکل میں ڈال دیا ہے، کیونکہ طالبان جیسے نیشنلسٹ گروہ سے مقابلہ مشکل ہے۔ طالبان علاقائی لحاظ سے داعش کی سرگرمیوں کو وسعت کو محدود سمجھتے ہیں، اور وہ خود شام میں میں جنگ کے پیچھے نہیں ہیں۔حال ہی میں طالبان نے داعش کے نام ایک خط لکھا ہے، جس میں انہیں خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں اپنی سرگرمیوں سے باز رہے۔ گذشتہ چند ماہ میں طالبان اور داعش کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جن میں غالبا زیادہ تر طالبان کو برتری حاصل رہی۔
اسی سلسلے میں چوتھی دلیل یہ کہ طالبان کو معلوم ہو گیا ہے کہ اسے اپنے حمایتیوں کو بڑھانے اور بالخصوص افغانی شیعہ اقلیت کی حمایت حاصل کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھانے ہونگے۔ اگرچہ طالبان نے اپنے دور حکومت میں شیعوں کو بہت آزار و اذیت سے دوچار کیا، اور بہ استثناءان کا قتل عام کیا، لیکن داعش کی طرح ان کی نسل کشی کا قصد نہیں کیا۔ لہذا اسی دلیل کی بنا پر افغانستان کے ہزارہ شیعہ داعش کے ساتھ جنگ میں طالبان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے شیعہ جو طالبان کے دشمن ہیں۔ جیسے ایران بھی داعش کے ساتھ مقابلے میں طالبان کے ساتھ ہم فکر ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ایران بھی داعش مخالف گروہوں کو اکھٹا کرے کے لئے تیار ہے۔ پانچویں دلیل یہ کہ پاکستان، جس نے ہمیشہ طالبان کی حمایت کی ہے، ہرگز نہیں چاہے گا کہ اس کے اتحادی کو شکست ہو اور اس کی بجائے داعش جیسا دشمن گروہ آ جائے۔ پاکستان کا داعش پر کوئی کنٹرول نہیں، اور نہ ان میں کوئی نفوذ ہے، لہذا اس دلیل کی بنا پر اگر داعش طالبان کی جگہ لے لے تو پاکستان، افغانستان میں اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ہو جائے گا۔ ان تمام دلائل کی بنا پر افغانستان میں ان دو نام نہاد اسلامی گروہوں کے درمیان جنگ میں، طالبان داعش کو توڑ کے رکھ دیں گے، اور یہ وہ واحد گروہ ہو گا جو افغان حکومت سے مقابلہ کرے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button