پاکستان

فرقہ وارانہ دہشتگردی میں ملوث 5 تکفیری دہشتگردوں کو فوجی عدالت سے پھانسی کا حکم

راولپنڈی: پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے واقعات میں 5 مجرموں کی سزائے موت پر عملدر آمد کی منظور دے دی جبکہ ایک مجرم کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سزائے موت پانے والوں میں صابر شاہ، محمد عثمان، اسد علی، طاہر اور فتح خان شامل ہیں۔

اعلامیے کے مطابق محمد صابر عرف اکرام اللہ نے لاہور کے وکیل سید ارشد علی کو قتل کیا تھا، صابر نے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا، جس پر اس کو موت کی سزاء سنائی گئی۔

سزائے موت کے دوسرے مجرم حافظ محمد عثمان عرف عباس عرف اسد کا تعلق کالعدم تنظیم سے ہے جبکہ اس پر کوئٹہ میں فرقہ وارانہ قتل اور پولیس پر حملے کا جرم ثابت ہوا جبکہ اس نے مخصوص فرقے کے صنعت کاروں سید طالب آغا اور سید جواد آغا سمیت دیگر کے قتل کا اعتراف بھی کیا۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے اسد علی کو 5 الزامات میں جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی گئی، اسد علی پر کراچی میں 2013 میں ڈی ایس پی کمال منگن اور اے ایس آئی اکبر حسین کو ہلاک کرنے کا جرم ثابت ہوا جبکہ اسد نے خود بھی اعتراف جرم کیا۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے طاہر شاہ جہاں کو بنوں جیل پر حملے میں ملوث ہونے، جیل سے ملزمان کے فرار میں مدد اور پاک فوج کے سپاہی کو ہلاک کرنے کے جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی گئی، طاہر نے عدالت میں جرم کا اعتراف بھی کیا تھا۔

فتح خان ولد مکرم خان نے 11 خاصہ دار، 2 فوجی افسران ، 22 اہلکاروں کی حملوں میں ہلاکت، ایک بچے کے قتل اور ایک شخص کو ذبح کرنے کا اعتراف کیا جس پر اس کو سزائے موت دی گئی جبکہ مکرم کو 8 الزامات ثابت ہونے پر سزاء سنائی گئی۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے قاری امین شاہ کو خیبر ایجنسی میں لڑکیوں کے اسکول پر حملے، دہشت گردوں کی مالی امداد، بارودی مود رکھنے اور دھماکا کرنے کے 4 الزامات میں عمر قید کی سزاء سنائی گئی۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں کو برقرار رکھنے کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے ملزمان کو اپیل کا حق حاصل ہوگا۔

فیصلے کے مطابق 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں 11 ججوں نے فیصلہ دیا جبکہ 6 نے مخالفت کی، یوں اکثریت کی رائے پر فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ سنایا گیا۔

پارلیمنٹ نے گزشتہ سال پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد خصوصی عدالتیں قائم کرنے کے لیے 21ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ 1952 منظور کیا تھا۔

بعدازاں، رواں سال 16 اپریل کو فوجی عدالتوں کی جانب سے 6 دہشت گردوں کو دی جانے والی پھانسیوں کو معطل کرتے ہوئے عدالت نے سپریم کورٹ بار کونسل کی وکیل عاصمہ جہانگیر کی دائر درخواست پر حکم امتناعی جاری کر دیا تھا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button