مقالہ جات

ثوابِ دارین

میں نے خواب دیکھا کہ میں انچولی امام بارگاہ کراچی میں کھڑا ہوں، میرے سامنے ایک شهید شیعہ نوجوان کی میت رکھی ہے، جو چہرے سے ایسا تاثر دے رہا تھا جیسے اسے کسی نے سلگتی آگ پر سے اٹھا کر پھولوں کی سیج پر سلا دیا ہو، وہ مطمئن و مسرور ہے لیکن کونے میں کھڑا اس کا باپ اور اس کے بھائی شہید کے غم سے نڈہال ہیں اور دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں۔ میرے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں، کراچی یونیورسٹی میں کبھی کلاس میں، کبھی باہر میرے موبائل میں جونہی شیعہ کلنگ والوں کا میسج آتا ہے کہ فلاں شیعہ جوان، فلاں شیعہ ڈاکٹر، فلاں شیعہ انجینیئر، فلاں شیعہ طالبعلم، فلاں شیعہ عالم دین فلاں شیعہ۔۔۔ کو شہید کر دیا گیا، تو میں انچولی امام بارگاہ پہنچ جاتا ہوں، تاکہ جنازہ میں شریک ہوکر "ثواب دارین” حاصل کرسکوں، آخر یونیورسٹی اور انچولی کا فاصلہ ہی کتنا ہے بائک پر 5 منٹ بس! اس "ثواب دارین” حاصل کرنے کے بعد شہید اگر با استطاعت ہے تو اس کے سوئم یا چہلم میں ہمارے بڑے بڑے مذھبی رہنماؤں کا خطاب سن کر "ثواب دارین” حاصل کرنے کا موقعہ بھی میں کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

ایک دن بعد حسب دستور اعلان ہوا کہ سوئم کی مجلس میں دونوں شیعہ تنظیمیں مشترکہ طور پر شرکت کریں گی اور ان کے رہنماء مجلس پڑھیں گے، شہید کے درجات بلند ہوں گے اور شرکاء کو "ثواب دارین” حاصل ہوگا، لھٰذا میں بھی پہنچ گیا۔ بہت بڑا مجمع تھا، پہلے انقلابی نظمیں پڑھنے والے آئے، ان کی نظموں کا مدعا یہ تھا کہ ہم مرنے سے نہیں ڈرتے۔ اس کے بعد تنظیموں سے وابستہ علماء خطاب کو آئے، ان میں سے ایک نے بڑی جوشیلی تقریر کی اور اس وقت مجمع لبیک یاحسین کے نعروں سے گونج اٹھا۔ جب انہوں نے فرمایا "شہادت ہماری میراث ہے، یہ جاہل ہیں، ہمیں مارتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ اس سے ہماری تعداد کم ہوجائے گی، نہیں یہ ان کی بھول ہے، دنیا میں حلال جانور روز مارا جاتا ہے حرام بہت کم مرتا ہے، لیکن پھر بھی دنیا میں حرام جانور کی تعداد کم ہے، حلال کی تعداد دن دگنی رات چوگنی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم شیعہ حلال جانور کی مثل ہیں اور وہ حرام۔۔۔”

پھر دوسری تنظیم کے ایک بڑے عالم دین آئے۔ انہوں نے تو اور بھی زیادہ جوشیلی تقریر کی اور فرمایا” سن لو ہم لاشے اٹھانے کے عادی ہیں، امویوں نے ہمیں مارا، عباسیوں نے ہمیں مارا، امراء نے ہمیں مارا، بادشاہوں نے ہمیں مارا، افغانی، ترک نژاد سلطانون نے ہمیں مارا، آج کے ڈکٹیٹروں نے ہمیں مارا، ریاستی اداروں نے ہمیں مارا۔۔۔ لیکن سن لو تم تھک جاؤ گے ہم نہیں! ہمارے جوان علی اکبر (ع) کی طرح مارے جائیں گے! ہمارے بوڑھے حبیب ابن مظاہر کی طرح مارے جائیں گے! ہمارے بچے علی اصغر (ع) کی طرح مارے جائیں گے! بہنوں کے بھائی عباس علمدار کی طرح مارے جائیں گے! ہمارا افتخار ہے یہ۔۔۔” مجمعے میں ایک بار پھر فلک شگاف نعرے لگنے لگے لبیک یاحسین، لبیک یاحسین۔۔۔!

یہ سن کر میں نیند سے بیدار ہوا، میری آنکھ کھلی، خواب کے عکس میری آنکھوں سے سامنے ایک فلم کی مانند چلنے لگے، وہ جوان کی لاش، اسکا والد، بھائی، علماء کی تقاریر، پھر میں نے خواب کا حقیقت کے ساتھ موازنہ کیا، مجھے حقیقت بھی یہی نظر آئی۔ تب میں نے سوچا کیا شہادت ہماری میراث ہے کا مطلب یہ ہے کہ ہم مرتے رہیں؟ روز جنازے اٹھاتے رہیں؟ کیا امام حسین (ع) کی قربانی کا مقصد یہی تھا کہ مرتے رہو؟ روز لاشے دفن کرکے گھر آجاؤ؟؟؟ ہمارے علماء کو کربلا بہت یاد ہے، شہادتیں بھی یاد ہیں، لاشے پامال ہونا، پیاس، کمسن کے گلے میں تین منہ والا تیر پیوست ہونا بھی یاد ہے، مگر صرف مرنا یاد ہے مارنا یاد نہیں! ہمیں حسین (ع) کو لگنے والی ضربوں کی تعداد یاد ہے، حسین (ع) کے ہاتھوں سے کتنے یزیدی واصل جہنم ہوئے یاد نہیں!، زینب (س) یاد ہیں لیکن صرف چادر چھننے کی حد تک! ان کی طرف سے دیئے گئے کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دینے والے خطبوں میں مقاومت کا درس یاد نہیں! ہمیں کربلا کے بعد امویوں کا محبان اہلبیت (ع) کے گلے کاٹنے کا کارنامہ یاد ہے، مختار کی طرف سے امویوں کے گلے کاٹنا یاد نہیں!

کربلا سے ہم نے صرف مرنا لیا ہے، جبکہ کربلا میں مارنا پہلے تھا مرنا بعد میں! صرف پیاسے حسین (ع) کی جنگ دیکھو تو جہاد کی محیرالعقول اور عدیم النظیر مثال ہے کہ ایک ناتوان اور پیاسہ کس طرح لڑ رہا ہے، علی اکبر (ع) کیا (نعوذباللہ) بزدلانہ طریقے سے مارے گئے تھے؟ جاکر لہوف ابن طاؤس میں پڑھیئے لکھا هے "و قاتل اعظم القتال” علی اکبر (ع) نے عظیم کشتار کی، جنگ کی، ایک ایک کربلائی بپھرے ہوئے شیر کی مانند سوئے مقتل گیا اور دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجا کر شہادت کو پہنچا۔ عبداللہ بن حسن (ع)، صحت روایت سے قطع نظر دیکھیئے، جب اس کمسن نے دیکھا کہ حسین (ع) پر فوج مخالف کا ایک سپاہی تلوار تان رہا ہے تو دوڑ کر اس کے آگے آیا فرمایا خبردار اے نامرد میرے چچا پر وار کرتا ہے! کمسن کا ہاتھ کٹا۔۔۔ جون (ع) نے کتنے لاشے گرائے، کس جوش سے حرز پڑھتے ہوئے گئے یاد نہیں! اس ماں کا کیا کہ جس نے اپنے شہید بیٹے کی کٹی گردن دشمن کی طرف پھینک کر کہا کہ لو اسے اپنے پاس رکھو، ہم جو چیز راہ خدا میں دے دیں اسے واپس نہیں لیا کرتے! کربلا کا یہ پہلو کیا آپ کی نظروں سے نہیں گذرا؟ کربلا صرف گلے کٹوانے کا نام ہوتا تو بزدلی کی کہانی ہوتی کربلا نہیں ہوتی! کربلا شروع سے آخر تک جنگ و مقاومت و شجاعت و قتال و۔۔۔ کی کہانی ہے آپ نے کربلا کا اختتام لے لیا اور رونے لگے…

نہیں نہیں! ایسا ہرگز نہیں کہ میں نے اس مسئلے کا حل یہی نکالا ہے کہ لڑو اور مرجاؤ، نہیں جناب آپ کے ہوتے ہوئے میں کون ہوتا ہوں قوم کو حل دینے والا، لیکن معذرت سے کہوں گا کہ آپ ماشاءاللہ شہادت پر بڑی اچھی اور جوشیلی مجلس نما تقاریر کرتے ہیں، مگر ان تقاریر سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔۔۔ قوم کی نظریں آپ پر ٹکی ہوئی ہیں۔ قوم کی مائیں آپ سے امید رکھتی ہیں کہ اس روز روز کے جوان جنازے اٹھانے سے قوم کو کب نجات ملے گی، کیا اس کا کوئی اور حل بھی ہے یا آپ کی تقاریر کے مطابق مرتے ہی رہیں؟؟؟ یہ کون سی کربلا ہے جو دنیا کے باقی شیعوں نے نہیں لے رکھی، صرف پاکستانیوں نے لے رکھی ہے کہ شہادت ہماری میراث ہے، لہذا مرتے رہو۔۔۔۔؟

شام والے مر رہے ہیں لیکن مار بھی رہے ہیں۔ یمن والے قتل ہو بھی رہیں ہیں قتل کر بھی رہے ہیں، لبنان والے ہمیشہ دشمن سے لڑتے ہوئے شہادت کو پہنچے، عراق والے لڑے، 1920ء میں انقلاب لائے اب بھی لڑ رهے ہیں۔ ایرانی لڑے انقلاب لائے، سب میدان جنگ میں لڑ کر شہید ہو رہے ہیں اور ہم۔۔۔۔ کیوں ہے ایسا؟ اس کا حل دیجیئے خدا را "ثواب دارین” کے سوئم اور چہلم ہم بہت کرچکے شہیدوں کے لئے آنکھیں رو رو کر خشک ہوگئیں۔ شیعہ نسل کشی کا حل کیا ہے؟ کوئی لائحہ عمل دیں، کوئی حل بتائیں۔۔۔ کربلا کے مصائب تو ہماری نانی اماں بھی سناتی ہیں، کتابوں اور نوحوں میں بھی سن لیتے ہیں، آپ قوم کی نیا پار لگانے کے دعویدار ہیں، آپ کی ذمہ داری الگ ہے۔ آپ سے امید ہے کہ قوم کو اس مسئلے کا حل بتا کر "ثواب دارین”حاصل کریں گے۔
تحریر: محمد زکی حیدری

متعلقہ مضامین

Back to top button