سعودی عرب داعش سے کم نہیں: برطانوی جریدہ
وین” نے بدھ کے دن انگریزی جریدے انڈیپینڈینٹ میں ایک مضمون میں لکھا : رائف بدوی کو سعودی عرب میں انٹرنیٹ میں ایک سایٹ ایجاد کرنے اور اس کے ذریعے آزادی خواہانہ افکار کی ترویج کرنے کے جرم میں تین سال سے قید میں رکھا گیا ہے ۔ لیکن سعودی عرب چاہے کچھ بھی کرے برطانیہ اس ملک کا مقابلہ کرنے سے ڈرتا ہے ۔
بدوی کو دس سال قید دس لاکھ سعودی ریال بطور تاوان اور ایک ہزار کوڑے مارے جانے کی سزا دی گئی ہے ۔
ایڈیپینڈینٹ نے یاد دلایا : برطانیہ کے وزیر امور خارجہ نے مجلس اعیان میں دعوی کیا : ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے مواقع پر سعودی عرب کے اقدامات کو ملک کے پورے عوام کی حمایت حاصل ہوتی ہے ۔ (حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے سعودی عرب میں عوام کی رائے کی کوئی قیمت نہیں ہے)۔
اس مضمون کے لکھنے والے نے برطانیہ کے وزیر خارجہ کے اظہارات کی مذمت کی اور کہا : میں نے وزارت خارجہ سے یہ سوال پوچھا کہ اس نے یہ جواب کہاں سے دیا ہے لیکن اب تک مجھے اس کا کوئی جواب نہیں ملا ہے ۔کیا یہ بات سچ ہے ؟ کیا سعودی عرب کے لوگ انتہا پسند اور سیڈازم کے ماننے والے ہیں اور ایک ویبلاگ لکھنے والے کو کوڑے لگنے سے ان کو خوشی ہو گی ؟
وین نے مزید کہا : سعودی عرب کا کوئی بھی شہری چاہے وہ رائف کو کوڑے مارے جانے کا سخت مخالف بھی کیوں نہ ہو وہ اس کے خلاف اپنی مخالفت کا اعلان کرنے کی جرائت نہیں کر سکتا ۔
وین نے تاکید کی : رائف بدوی کے وکیل کو گذشتہ جون کے مہینے میں سعودی عرب کی عدلیہ پر تنقید کرنے کے جرم میں ۱۵ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے ۔
اس برطانوی روز نامہ نگار نے اظہار کیا : اس وکیل پر ایک الزام عمومی افکار کو بھڑکانا ہے اب ہمیں یہ پوچھنا چاہیے کہ عدالت اس نتیجے پر کیسے پہنچی ہے ۔ شاید وزیر خارجہ نے اپنے تجربات کی روشنی میں اس سلسلے میں ان کی مدد کی ہے ۔ اس حکم کی ایک اور وجہ حکومتی اداروں کے خلاف دشمنی ایجاد کرنا ہے ۔یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب سعود ی عرب خود بھی پوری دنیا کو اپنا دشمن بنا سکتا ہے اور اسے اس کام کے لیے کسی کی ضرورت نہیں ہے ۔
انڈیپینڈینٹ نے فرانس نیوز ایجینسی کے حوالے سے تاکید کی ہے کہ سال ۲۰۱۵ کے آغاز سے اب تک سعودی عرب میں ایک سو افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے کہ یہ تعداد گذشتہ سال کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے ۔
وین نے تاکید کی : ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سعودی عرب داعش کے مقابلے میں خود کو نمایاں کر رہا ہے اور بتانا چاہتا ہے کہ اس دہشت گرد گروہ کی طرح وہ ہر کام کر سکتا ہے ۔
وین نے مزید کہا : کیوں برطانیہ کا وزیر خارجہ یہ نہیں کہتا کہ داعش والے جو موت کی سزائیں دے رہے ہیں وہ اس گروہ کے اکثر افراد کی موافقت سے دے رہے ہیں ۔ البتہ ممکن ہے ایک دن وہ ایسا کہیں ۔
برطانیہ کے اس روز نامہ نگار نے کہا : بہت برا ہو گا کہ برطانیہ ایک دن داعش کو سرکاری طور پر تسلیم کرے گا ،اور ہم ان کو ہتھیار فروخت کرکے سرمایہ حاصل کرنا چاہیں گے ،لیکن اس کے بعد اس گروہ کی طرف سےگردنیں کاٹے جانے کی مذمت کریں گے ۔
انہوں نے آخر میں لکھا ہے کہ : یہ کام سعودی عرب کے ساتھ سرکاری تال میل سے زیادہ برا نہیں ہے سعودی عرب صرف ایک وحشی نظام ہے اور شدت کے ساتھ اس بات پر مصمم ہے کہ وہابیت کے شدت پسندانہ وحشی افکار کو اپنی سرحد سے باہر رائج کرے اور اس سلسلے میں اس ملک کا نظام داعش کی مانند ہے