پاکستان

پاکستان میں ایک تکفیری ٹولہ پیدا ہوا جس کا کام شیعؤں کی تکفیر کرنا تھا یہ تحریک جھنگ سے شروع ہوئی علامہ امین شہیدی

مجلس وحدت المسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نے کہا ہے کہ اگر کوئی فرقہ پاکستان کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے تو یہ ممکن نہیں، مختلف فرقوں کی نمائندہ جماعتیں پاکستان کی ترقی کیلئے اپنی شناخت کے ساتھ کام کرتی ہیں تو اس شناخت پر پابندی نہیں لگنی چاہئیں، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کسی دوسرے فقہ پر اپنی فقہ مسلط کرنے کیلئے نہیں بلکہ فقہ جعفریہ کے ماننے والوں کو ان کی فقہ کے مطابق عمل کی اجازت دلوانے کیلئے چلی، کسی بھی قیمت پر مولانا محمد احمد لدھیانوی کے ساتھ بیٹھنے پر تیار نہیں۔وہ جیو کے مقبول پروگرام ”نیا پاکستان“ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں وزیر مملکت برائے پانی و بجلی چوہدری عابد شیرعلی اور پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر مولا بخش چانڈیوسے بھی بات کی گئی۔عابد شیرعلی نے کہا کہ حکومت کی خواہش ہے سینیٹ کے الیکشن پر سوالیہ نشان نہ لگے۔مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ سے سب سے زیادہ خطرہ تحریک انصاف کو ہے اس لئے وہ فوری طورپر آئینی ترمیم چاہتے ہیں۔علامہ محمد امین شہیدی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ پاکستان کسی فرقہ نہیں اسلام کے نام پر وجود میں آیا، تمام مسالک کے مشترکہ عقائد و نظریات کی بنیاد پر ہی پاکستان کو قائم رکھا جاسکتا ہے، اگر کوئی فرقہ یہ چاہے کہ پاکستان اس کے کنٹرول میں آجائے تو یہ ممکن نہیں، فرقہ یا مسلکی حاکمیت کی بنیاد پر سیاست نہیں چل سکتی، گزشتہ تیس سالوں کے واقعات سے ہمیں سبق سیکھنا چا ہئے ،ایک فرقہ کے تسلط اور باقی فرقوں کو معاشرے سے نکالنے کی کوئی تحریک دین کی روح اور تشکیل پاکستان کی بنیادوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موجود تمام فرقے مسلمہ حقیقت ہیں، جمعیت علمائے اسلام دیو بند یت کی نمائندہ جماعت ہے جبکہ جمعیت علمائے پاکستان بر یلو یو ں کی نمائندگی کرتی ہے اسی طرح اہلحدیث اور شیعوں کی بھی نمائندہ جماعتیں ہیں، مختلف فرقوں کی نمائندہ جماعتیں پا کستا ن کی ترقی اور دین کی افادیت عوام تک پہنچانے کیلئے اپنی شناخت کے ساتھ کام کرتی ہیں تو اس شناخت پر پابندی نہیں لگنی چاہئے، اپنی شناخت قائم رکھنے کیلئے دوسروں کی شناخت مٹانے کی کسی مذموم حرکت کی اجازت نہیں دینی چاہئے ورنہ خانہ جنگی شروع ہوجائے گی۔ محمد امین شہیدی کا کہنا تھا کہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اہل تشیع کے حقوق کے حصول کیلئے چلی، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کسی دوسرے فقہ پر اپنی فقہ مسلط کرنے کیلئے نہیں بلکہ فقہ جعفریہ کے ماننے والوں کو ان کی فقہ کے مطابق عمل کی اجازت دلوانے کیلئے چلی، اگر اس طرح کی کسی تحریک کے ذریعے اپنی فکر دوسروں پر مسلط کی جائے، کسی کی حق تلفی کی جائے تو اس طرح کی کسی بھی تحریک کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے، لیکن اگر کوئی اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے اس طرح کی تحریک چلاتا ہے تو اس کی اجازت ہونی چاہئے ، پاکستان میں بغیر طاقت اور بغیر دباؤ کے کسی کو حق نہیں ملتا ، لہٰذا اپنے حق کے حصول کیلئے میدان میں کھڑا ہونا چاہئے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ ریاست اور اٹھارہ کروڑ عوام پر اپنا فقہ مسلط کریں،اگر فتوؤں کی بنیاد پر کسی کو کافر قرار دیا جاتا ہے تو پھر تو تمام فرقوں کے لوگوں نے ایک دوسرے کو کافر قرار دیا ہوا ہے۔ محمد امین شہیدی نے کہا کہ عالمی طاقتوں نے پوری دنیا میں ایرانی انقلاب کا راستہ روکنے کی کوشش کی، اس کے نتیجے میں پاکستان میں ایک تکفیری ٹولہ پیدا ہوا جس کا کام شیعؤں کی تکفیر کرنا تھا یہ تحریک جھنگ سے شروع ہوئی اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں پھیلائی گئی، اس کے نتیجے میں ہزاروں گھر اجڑ گئے اور بڑی بڑی شخصیات ماری گئیں، اس صورتحال میں مختلف گروپس پیدا ہوئے اور جن لوگوں کے رشتہ داروں کومارا گیا ، انہوں نے انتقامی کارروائیاں بھی کیں۔ علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ ریاست کے قانون کے مقابلے میں کوئی اپنی اجارہ داری قائم نہیں کرسکتا، ریاست کے قانون کے مطابق کوئی مجرم ہے تو اسے مجرم ہی کہا جائے گا، لیکن ریاست کے قانون کی روشنی میں اگر کوئی شخص مجرم ہے تو اس شخص نے جن لوگوں کو مارا ہے وہ بھی مجرم ہے اس لئے کہ وہ لوگ ہزا ر و ں لوگوں کے قاتل ہیں، اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے کسی ایسے شخص کی مغفرت کی دعا کی جاسکتی ہے، ریاست اگر کسی مجرم کو خود نہ روکے تو عوام اسے روکنے کیلئے میدان میںآ نے پر مجبور ہوجاتی ہے، کوئٹہ میں جو قتل ہوئے اسے روکنا ریاست کی ذمہ داری تھی،ریاست کی رِٹ قائم ہونا چاہئے، اگر ریاست کی رِٹ قائم نہیں ہوتی اور عوام اسلحہ ہاتھ میں لے لیتی ہے یا اس طرح کی زبان استعمال کرتی ہے تو اس میں قصور ریاست کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اکیسویں ترمیم کے بعد بھی لوگوں نے تکفیری نعرے لگائے، معاشرے میں فساد پھیلایا، دوسروں کی دلآزاری کی، اب وزیر داخلہ ، وزیراعظم ،فوج اور ریاست کہاں ہے۔علامہ امین شہیدی کا کہنا تھاکہ کسی بھی قیمت پر مولانا محمد احمد لدھیانوی کے ساتھ بیٹھنے پر تیار نہیں۔وزیر مملکت برائے پانی و بجلی چوہدری عابد شیرعلی نے کہا کہ حکومت کی خواہش ہے سینیٹ کے الیکشن پر سوالیہ نشان نہ لگے، پیپلز پارٹی کا جب اپنا مفاد ہوتا ہے تو راتوں رات آئینی ترمیم ہوجاتی ہے، ہاتھ اٹھا کر ووٹ دینے سے کوئی انہونی نہیں ہوجائے گی، اگر دل میں کھوٹ نہیں تو ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے آئینی ترمیم پر اعتراض کیوں کیا جارہا ہے، سیاسی جماعتوں میں اتفاق ہوجائے تو سینیٹ انتخابات سے پہلے آئینی ترمیم ہوسکتی ہے، حکومت کے پاس جیوڈیشل کمیشن بنانے کا اختیار نہیں، تحریک انصاف کو سینیٹ انتخابات میں اپنے ممبران اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل ہونے کا خطرہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ سب سے زیادہ ہارس ٹریڈنگ خیبرپختونخوا اور فاٹا میں ہوتی ہے، ہارس ٹریڈنگ سے سب سے زیادہ خطرہ تحریک انصاف کو ہے اس لئے وہ فوری طورپر آئینی ترمیم چاہتے ہیں، پیپلز پارٹی آئینی ترمیم پر راضی ہے لیکن اس کے طریقہ کار کو دیکھنا ہوگا، اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ نے جب کہا کہ ہاتھ اٹھا کر ووٹ نہیں دیے جاسکتے تو لوگوں نے کہا یہ بھاگنے کی بات ہے لیکن آج سب کہہ رہے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہارس ٹریڈنگ کی روک تھام کیلئے آئینی ترمیم میں سنجیدہ نہیں ہے، حکومت ہر معاملہ میں دیر کردیتی ہے، حکومت کو کچھ دن پہلے آئینی ترمیم کی بات کرنی چاہئے تھی،مسلم لیگ ن نے پنجاب اسمبلی میں کوئی ایک لوٹا نہیں بلکہ لوٹوں کی دکان خریدی، مسلم لیگ ن اگر دھاندلی کے اتنا ہی خلاف ہے تو جیوڈیشل کمیشن کیوں نہیں بناتی۔مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ سیاست میں بدعتوں کا خاتمہ ہونا چاہئے، عمران خان ہارس ٹریڈنگ ختم کرنا چاہتے ہیں تو آئینی ترمیم پاس کروانے کیلئے اسمبلیوں میں آئیں، تحریک انصاف گلگت بلتستان، کشمیر ، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے تو انہیں اسمبلی میں آنے میں کیا مسئلہ ہے،سیاسی جماعتوں کی اپنے لوگوں پر گرفت مضبوط ہو تو سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کا الزام نہیں لگ سکتا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button