مقالہ جات

صرف ٹارگٹڈ فوجی آپریشن ہی مسئلے کا واحد حل

پاکستان میں گذشتہ کئی سالوں سے جاری مذہبی انتہا پسندی اور دہشتگردی کی وجہ سے ہزاروں انسانی جانوں کا ضیاع ہو چکا ہے۔ ملکی سطح پر جس طرح ان عناصر کو چند ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے پناہ دیکر پرؤان چڑھایا گیا، اسکا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ دیر ہی سہی مگر بالآخر ریاست کی جانب سے ان عناصر کو پاکستان کی بقاء کیلئے مہلک قرار دینا ایک مثبت سوچ کی عکاسی کرتی ہے لیکن ایک وائرس کو ختم کرکے دوسرے وائرس کو چھوڑ دینا، مستقبل میں اس خطرے کو اپنی جانب دوبارہ دعوت دینے کے مترادف ہے۔ وزیرستان کو دہشتگردوں سے مکمل صاف کرنے کا عزم لئے فوجی جوان دہشتگردوں کیخلاف ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کاروائی میں مصروف عمل ہے۔ اس ضمن میں کسی بھی قسم کی ناکامی یا کوتاہی نہ صرف ان فوجی جوانوں، بلکہ پوری قوم کو مایوسی کی کیفیت سے دوچار کرسکتی ہے۔ ایک جانب فوج تو پوری طرح سے اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہیں، لیکن بدقسمتی سے سول قیادت اپنے ہر فیصلے میں کنفیوژن کا شکار ہیں۔ وزیرستان میں آپریشن شروع کرنے اور دہشتگردوں کا صفایہ کرنے کیلئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب نے ایک مرتبہ بھی قوم سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اعتماد میں لینا تک گوارہ نہ کیا لیکن جب بات انتخابی دھاندلی اور اپنی کرسی بچانے کی آئی تو فوراً احتجاجی دھرنوں کو روکنے کیلئے پی ٹی وی کا رخ کرتے ہوئے قوم سے خطاب کرنے کو ترجیح دی۔

دریں اثناء فوجی قیادت کیجانب سے دہشتگردوں کے مرکزی نیٹ ورک کو وزیرستان میں مکمل تباہ کرنے کا دعوی کیا گیا، لیکن بعدازاں مختلف شہروں میں بدامنی کے چند واقعات سے ایک مرتبہ پھر فوجی کاروائی کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان آن پڑا ہے۔ جن میں سے نیوی ڈاک یارڈ پر حملہ، پشاور میں فوجی افسر پر خودکش حملے سمیت عام عوام پر ہونے والے دیگر واقعات باعث تشویش ہیں۔ کراچی میں معروف شیعہ اکابرین پر حملے بھی اسی طرح بدستور جاری ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بھی گذشتہ چند عرصے کے بعد عید کی رات کو ایک مرتبہ پھر دہشتگردانہ کاروائی ہوئی۔ خودکش حملہ آور نے بچوں اور خواتین سمیت دیگر افراد کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ بازار میں عید کی خریداریوں میں مصروف تھے۔ دھماکے کے بعد ایک مرتبہ پھر حکومتی رہنماؤں کی جانب سے واقعے کیخلاف مذمتی بیانات آنا شروع ہوئے، لیکن بدقسمتی سے کوئی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں۔ اطلاعات کے مطابق بلوچستان کی صوبائی حکومت کو کئی مراسلے وفاق کی جانب سے موصول ہو چکے ہیں کہ وہ دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے کیلئے کسی بھی قسم کی کاروائی کرسکتے ہیں لیکن صوبائی حکومت بھی ان کیخلاف کاروائی کرنے میں تذبذب کا شکار ہے۔ میڈیا کے سامنے حکومت اور انتطامیہ کے عہدیداران اس بات کا کریڈٹ تو لیتے ہیں کہ انہوں نے شیعہ آبادی والے علاقوں ہزارہ ٹاؤن اور علمدارروڈ کے اردگرد سیکورٹی چیک پوسٹیں لگا دی ہیں۔ لیکن پورے شہر اور صوبائی سطح پر انکے محفوظ ٹھکانوں اور ٹریننگ کیمپس کیخلاف کاروائی کی بات کوئی نہیں کرتا۔
شیعہ ہزارہ قوم کو کوئٹہ جیسے چھوٹے شہر میں سکیورٹی کے نام پر صرف انہی دو علاقوں میں محصور کیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب اتنی سکیورٹی ہونے کے باوجود ہر بار دہشتگردوں کا علاقے میں گھس کر نہایت آسانی سے کامیاب کاروائی کرنا، خود ان سکیورٹی اداروں کی ساکھ اور کارکردگی پر سوالات اُٹھاتی ہیں۔ شیعہ ہزارہ قوم کے افراد بازار، دفاتر، یونیورسٹیز اور شہر کے کسی بھی دوسرے علاقے میں ضروری کام کیلئے جانے تک خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ نااہل حکومت کیجانب سے اپنے اقتدار کو طول دینے اور نام نہاد سکیورٹی کے نام پر میڈیا کے سامنے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ درحقیقت اس مظلوم قوم کو مزید ذہنی کوفت میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ اگر کوئٹہ شہر میں پاک فوج کی زیرنگرانی ٹارگٹڈ کاروائی کی جائے تو نہ علمدارروڈ اور نہ ہی ہزارہ ٹاؤن کے اردگرد سکیورٹی حصار بنانے کی ضرورت ہوگی لیکن ان دہشتگردوں کے خوف میں مبتلا جعلی حکمران قطعی ان اقدامات کو اُٹھانے کیلئے تیار نہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button