پاکستان

صوابی اور پشاور میںہمارے ساتھیوں کو مارا جاتا رہا تو ہم حملے کرتے رہیں گے، تحریک طالبان کی دھمکی

ttp56(انصار عباسی) تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے جنگ بندی کیلئے صرف دو مطالبات پیش کیے ہیں جن میں غیر جنگجو معصوم خواتین، بچوں اور ضعیف افراد (جن کی اکثریت کا تعلق سوات سے ہے اور وہ سیکورٹی ایجنسیوں کی حراست میں ہیں) کی رہائی اور جنوبی وزیرستان سے فوج (ایف سی نہیں) کا انخلاء شامل ہے تاکہ طالبان حکومت اور فوجی حکام کے ساتھ براہِ راست وہیں مذاکرات کر سکیں۔ کراچی میں 13؍ کمانڈوز کی ہلاکت کے حالیہ واقعہ سے امن مذاکرات کو سخت دھچکا لگا ہے کیونکہ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں یہ اطلاعات آئی ہیں کہ طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر صوابی اور پشاور میں تنظیم کے کارکنوں کو مارا جاتا رہا تو مزید حملے کیے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق تحریک طالبان کے مطالبات وزیراعظم نواز شریف کو پہنچا دیئے گئے ہیں۔ طالبان ان پر تو بھروسہ کرتے ہیں لیکن فوجی اسٹیبلشمنٹ پر نہیں۔ تحریک طالبان پاکستان سمجھتی ہے کہ مذاکرات کے ذریعےقیام امن کی ان کی کوشش میں وزیراعظم نواز شریف کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کا مکمل تعاون حاصل نہیں ہے۔ اس کی بجائے کچھ ایسے تحفظات ہیں، جو سرکاری ارکان اور طالبان کمیٹی کو بھی لاحق ہیں، کہ فوج ملٹری آپریشن شروع کرنے کیلئے تیار ہے۔ مختلف ذرائع سے ہونے والی پس پردہ بات چیت سے معلوم ہوا ہے کہ حکومتی مطالبات اور جنگ بندی کے حوالے سے سرکاری شرائط پر تحریک طالبان پاکستان کا رد عمل قابل غور ہے۔ اس خبر کے شروع میں بتائی جانے والی طالبان کی شرائط دراصل اعتماد کے فروغ کیلئے ایک کوشش ہے جن کے متعلق طالبان کا کہنا ہے کہ ان شرائط پر عمل طالبان کے تمام گروپوں سے جنگ بندی کرانے کیلئے ضروری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگرچہ طالبان وزیراعظم پر بھروسہ کرتے ہیں لیکن آرمی چیف پر نہیں۔ طالبان چاہتے ہیں کہ فوجی اور سرکاری حکام کے ساتھ جنوبی وزیرستان میں براہِ راست مذاکرات کیے جائیں اور اس کیلئے وہ چاہتے ہیں کہ صرف فوج قبائلی علاقوں سے نکل جائے۔ تحریک طالبان کو ایف سی یا پھر جنوبی وزیرستان میں پولیٹیکل انتظامیہ کی جانب سے تشکیل دیئے جانے والے نظام پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس بات کے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کہ زیر حراست غیر جنگجو خواتین، بچوں اور بوڑھے افراد کی تعداد کتنی ہے جن کے خلاف کوئی ایف آئی آر نہیں ہے، کوئی الزام نہیں ہے، کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق سوات سے ہے اور یہ فوج ؍ پولیس ؍ ایجنسیوں کی حراست میں ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان چاہتی ہے کہ حکومت انہیں رہا کرے۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے کسی قصور وار طالبان یا مجرمانہ سرگرمی میں ملوث طالبان کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا۔ حکومت کی طرف کشمکش کی صورتحال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے ان مطالبات کا جواب دینے کیلئے فوج اور حکومت متحد نظر نہیں آتے تاکہ جنگ بندی حاصل ہوسکے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، فوجی قیادت کو تو سابق ارکان پارلیمنٹ اور مذہبی شخصیات پر مشتمل دو رکنی طالبان کمیٹی کے ارکان سے بھی ملاقات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ حکومت کیلئے حیرانی کی بات یہ تھی کہ طالبان نے حکومتی کمیٹی کی پانچ شرائط پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ شرائط میں یہ باتیں شامل تھیں: مذاکرات آئین کے دائرہ کار میں ہوں گے اور مذاکرات میں توجہ پورے پاکستان نہیں بلکہ تنازع کا شکار علاقوں پر مرکوز رکھی جائے گی۔ ٹی ٹی پی نے حکومت تک یہ پیغام پہنچایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مذاکراتی عمل قرآن و سنت کی روشنی میں ہوں جس کی ضمانت آئین پاکستان میں بھی دی گئی ہے۔ اسی دوران کچھ صحافیوں کے ساتھ رابطے میں رہنے والے ٹی ٹی پی کے ارکان کا اصرار ہے کہ وزیراعظم اگرچہ مذاکرات کیلئے سنجیدہ ہیں لیکن اہم فیصلے کرنے کا اختیار ان کے پاس نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فوج آپریشن کیلئے تیار ہے اور کسی بھی وقت شروع ہوسکتا ہے۔ تاہم، بد قسمتی سے کراچی میں پولیس پر ہونے والے خودکش حملے، جس کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی، نے ملٹری آپریشن کے مطالبات میں ایک مرتبہ پھر تیزی پیدا کردی ہے اور مذاکرات کی حامی طاقتوں کو کمزور کیا ہے ان میں وزیراعظم بھی شامل ہیں۔ لیکن جواب طلب اہم سوال یہ ہے کہ حکومت ایسے بے کردار طالبان کو کچلنے کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں۔ حکومت میں اعلیٰ حکام کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ فوجی آپریشن سے طالبان متحد ہوجائیں گے، جن میں اچھے طالبان بھی شامل ہیں، جس سے ملک کے بڑےشہروں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ ہوجائے گا۔ فوج، سیکورٹی فورسز، پولیس حتیٰ کہ انتہائی محفوظ سمجھے جانے والے جی ایچ کیو پر بھی ہونے والے حملے نے ملک کی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی اور صلاحیت کو پہلے ہی بے نقاب کردیا ہے۔ ایسی صورتحال میں، مذاکرات ہی موزوں راستہ ہیں لیکن حکومت اور دونوں فریقین کی کمیٹیوں کی رائے ہے کہ دیگر عناصر کے ساتھ میڈیا میں بیٹھے کچھ لوگ بھی ایسا ماحول بنا رہے ہیں جس سے فوجی آپریشن کی رائے ہموار کی جا رہی ہے۔ ٹی ٹی پی ترجمان کے حالیہ انٹرویو، جو کہ درحقیقت ناقابل قبول تھا اور اس وقت اس سے گریز کرنا چاہئے تھا، سے ایسی شہ سرخیاں بنیں جن سے یہ تاثر ملا کہ اگر طالبان ملا عمر کو امیر المومنین بنانا چاہتے ہیں تو ملا فضل اللہ پاکستان کے امیر ہوں گے۔ لیکن جس جگہ یہ انٹرویو شایع ہوا ہے اس میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ترجمان کو ایسا تبصرہ کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اگرچہ ٹی ٹی پی نے اب انٹرویو کے کچھ حصوں کی تردید کردی ہے، لیکن یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ طالبان ترجمان سے کیا پوچھا گیا تھا اور انہوں نے کیا جواب دیا۔ متعلقہ سوال اور ان کے جواب یہاں پیش کیے جا رہے ہیں: ’’سوال: اگر شریعہ نافذ ہوگئی تو امیر کون ہوگا؟ جواب: ہم شریعت کیلئے لڑ رہے ہیں اور ایسے افراد ذہن میں رکھے ہوئے ہیں جو خلافت قائم کرسکیں اور بطور خلیفہ نظام چلا سکیں۔ ہم ملا عمر کو امیر المومنین سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں، ملا فضل اللہ ہماری قیادت کر رہے ہیں اور ان میں پاکستانی قوم کی قیادت کی صلاحیت ہے۔ ‘‘ جمعرات کو شاہد اللہ شاہد نے فضل اللہ کے متعلق ایسا کچھ کہنے سے انکار کیا۔ اسی دوران یہ معلوم ہوا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو حال ہی میں سرکاری کمیٹی کے ایک رکن کی جانب سے بتایا گیا کہ شمالی وزیرستان میں ہونے والے ایک حالیہ فضائی حملے میں 70 ’’دہشت گرد‘‘ مارے گئے جن میں معصوم افراد اور خواتین شامل تھیں۔ ٹی ٹی پی کی شمالی وزیرستان میں مذاکرات کرنے کی خواہش پر سرکاری کمیٹی کے ایک ذریعے نے کہا کہ ماضی میں جب سوات طالبان کے کچھ رہنما بشمول مسلم خان کو مذاکرات کیلئے بلایا گیا تھا تو انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا حالانکہ وہ صرف پیغام رساں کا کام کر رہے تھے ۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں وہ لوگ کس طرح ہم پر بھروسہ کر سکتے ہیں کہ وہ مذاکرات کیلئے اسلام آباد یا پشاور آئیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button