پاکستان

شامی باغیوں کی ٹریننگ میں پاکستان کا رول؟

golaبرطانوی اخبار گارجین لکھتا ہے کہ سعودی عرب شامی صدر بشارالاسد کو شکست دینے کے لیے باغیوں کی نئی فورس کی تربیت اور اسلحے کی فراہمی پر لاکھوں ڈالرز خرچ کررہا ہے، یہی وجہ ہے کہ طاقتور جہادی تنظیموں پلڑا تیزی سے بھاری ہوتا جارہا ہے۔

اخبار کے مطابق مغربی، عرب اور شامی ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی کوششیں اپنی شدت کے ساتھ جیش الاسلام (اسلام کی فوج یا جے اے آئی) پر مرکوز ہیں، یہ ستمبر کے اواخر میں 43 شامی گروپس کے اتحاد کی صورت میں وجود میں آیا تھا۔ جیش الاسلام شامی باغیوں کے بکھرے ہوئے پس منظر میں ایک نئے اہم کھلاڑی کے طور پر مشہور ہورہا ہے۔

گارڈین لکھتا ہے کہ ایک غیر مصدقہ رپورٹ کے مطابق جیش الاسلام کی تربیت پاکستان کی مدد سے کی جائے گی، اور اس کی قوت پانچ ہزار جنگجوؤں سے بڑھ کر پچاس ہزار تک پہنچ جائے گی۔

اسی طرح ڈان اخبار کے رپورٹر مسعود حیدر فارن پالیسی میگزین کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صدر بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے حوالے سے اوبامہ انتظامیہ کی کوششوں پر سے اعتماد ختم ہونے کے بعد سعودی عرب نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کی مدد سے باغیوں کی تربیت کے ذریعے اہم کوشش شروع کی جائے گی۔

فارن پالیسی میگزین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا کردار اب تک نسبتاً محدود ہے، اگرچہ سعودی اندازِ فکر کی معلومات رکھنے والے دیگر ذرائع کہتے ہیں کہ پاکستان کو باغیوں کے دو بریگیڈ یا لگ بھگ پانچ سے دس ہزار جنگجوؤں کو تربیت کی ذمہ داری دینے کے منصوبے پر تاحال بحث جاری ہے۔

کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کے فیلو یزید سیاغ نے پہلی مرتبہ پاکستانی انسٹرکٹر کے استعمال کا حوالہ دیا، انہوں نے تحریر کیا کہ سعودی حکمران اندازاً چالیس ہزار سے پچاس ہزار سپاہیوں پر مشتمل شامی باغیوں کی فوج تیار کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔

سعودی عرب کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ”یہی ایک راستہ ہے، جب انہیں ایک بااعتماد مسلح فوج کے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا، تب ہی بشارالاسد اقتدار چھوڑنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوسکیں گے۔“

فارن پالیسی میگزین کا کہنا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کے اہلکار نے اس سعودی ٹریننگ پروگرام پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

گارڈین لکھتا ہے کہ سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ شہزادہ بندر بن سلطان بھی امریکا پر زور ڈال رہے ہیں کہ وہ جیش الاسلام کو اینٹی ایئر کرافٹ اور اینٹی ٹینک میزائل فراہم کرنے میں اپنے اعتراضات ختم کردے۔ اردن بھی مسلسل زور دے رہا ہے کہ اس کی سرحدوں کو ہمسایہ ملک شام میں سپلائی روٹ کے طور پر استعمال کی اجازت دی جائے۔

سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ بدلے میں ریاض سلیم ادریس کی قیادت میں امریکی اور مغربی حمایت یافتہ سپریم ملٹری کونسل اور شامی اپوزیشن اتحاد کو تسلیم کرنے کے لیے جیش الاسلام پر زور ڈالے گا۔

سعودی عرب کی مدد سے چلنے والے گلف ریسرچ سینٹر کے ایک تجزیہ نگار مصطفےٰ العینی کا کہنا ہے کہ ”شام میں دو جنگیں جاری ہیں۔ ایک شامی حکومت کے خلاف اور ایک القاعدہ کے خلاف۔ سعودی عرب دونوں سے لڑ رہا ہے۔“

متعلقہ مضامین

Back to top button