پاکستان

ظہور امام مہدی (عج) کیلئے شرائط فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے، آیت اللہ ابوالفضل بہاؤالدینی

agha bahaodeniحسینی ینگ آرگنائزیشن کراچی کے زیرانتظام معرفت امام زمانہ حضرت امام مہدی (عج) سیمینار کا انعقاد بھوجانی ہال سولجر بازار کراچی میں کیا گیا۔ سیمینار سے رہبر مسلمین جہان حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے پاکستان میں نمائندے آیت اللہ سید ابوالفضل بہاؤالدینی نے خطاب کیا۔ آیت اللہ سید ابوالفضل بہاؤالدینی کے مترجم کے فرائض سید مبشر زیدی نے انجام دیئے۔ سیمینار میں خواتین و حضرات کثیر تعداد میں شریک تھے۔ سیمینار کا اختتام دعائے سلامتی امام زمانہ (عج) سے کیا گیا۔ اس سے قبل حسینی ینگ آرگنائزیشن کراچی کے ترجمان اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی جانب سے صوبائی اسمبلی سندھ کے حلقہ پی ایس 117 سے عام انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار شاکر علی راؤ جانی نے ابتدائیہ کلمات پیش کئے اور معرفت امام زمانہ حضرت امام مہدی (عج) کے سلسلے کے گذشتہ سیمینار کا خلاصہ پیش کیا۔

معرفت امام زمانہ حضرت امام مہدی (عج) سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے آیت اللہ سید ابوالفضل بہاؤالدینی نے کہا کہ ظہور امام زمانہ (عج) کے حوالے سے شرائط اور علائم الگ الگ موضوعات ہیں۔ ہمیں ان دونوں موضوعات کو ملانا نہیں چاہیئے۔ ان دونوں کا ایک بنیادی فرق یہ کہ علامتوں کے مکمل ہونے سے ظہور امام زمانہ (عج) کا ہونا حتمی اور یقینی نہیں ہے جبکہ شرائط اگر میسر آ جائیں تو ظہور امام زمانہ (عج) کا ہونا حتمی اور یقینی ہے۔ ظہور امام زمانہ (عج) کے چار ارکان ہیں اور اگر یہ چار ارکان قائم ہو جائیں تو ظہور امام زمانہ (عج) یقینی طور پر ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان چار ارکان میں پہلا رکن کتاب یا آئین ہے جو کہ قرآن کریم کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ دوسرا رکن امام یا ہادی ہیں جو کہ موجود ہیں پردہ غیبت میں۔ کتاب و امام کے ساتھ جو تیسرا رکن ہے وہ ہیں جانثار و باوفا اصحاب۔ چوتھا رکن مقبولیت جہانی ہے۔ یعنی چوتھی چیز ہمارے نظرئیے کی عالمی سطح پر لوگوں میں پذیرائی و مقبولیت ہے۔ یہ چار ارکان پورے ہو جائیں تو ظہور یقینی طور پر ہو جائے گا مگر علامات کے پورا ہونے سے ظہور کے یقینی ہونے کا تعلق نہیں ہے۔
آیت اللہ سید ابوالفضل بہاؤالدینی نے کہا کہ یہ جو علامتیں اور نشانیاں ہیں یہ فقط اس بات کی جانب تو رہنمائی کر سکتی ہیں کہ ہم ظہور کے نزدیک آ رہے ہیں، ظہور نزدیک ہے مگر خود ظہور کے ہونے کا سبب نہیں بن سکتیں۔ علامات جتنی بھی بیان کی گئی ہیں وہ سب ظہور کی نشاندہی کے حوالے سے ہیں خود ظہور کے حتمی و یقینی ہونے سے تعلق نہیں ہے۔ لیکن جب شرائط پوری ہو جائیں تو ظہور کا ہونا حتمی و یقینی ہو جاتا ہے۔ علامات ظہور کی تقسیم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ علامات و نشانیوں کی پہلی تقسیم ہوتی ہے عادی اور غیر عادی۔ کچھ نشانیاں عادی ہوتی ہیں اور کچھ غیر عادی یا خصوصی نشانیاں یعنی ایسی نشانیاں جن کے ساتھ معجزہ کی شباہت پائی جاتی ہو یا ایسی نشانیاں کہ جو انسانی قدرت سے باہر ہوں۔ مثلاَ ہم زمین کا ایک مقام پر دھنس جانا سنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے دوسری تقسیم حتمی علامات اور غیر حتمی علامات ہیں۔ روایات کے مطابق حتمی علامات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ معتبر روایات کے مطابق ظہور سے پہلے حتمی علامات پانچ ہیں۔ پہلی علامت سید یمنی کا یمن میں خروج کرنا ہے۔ دوسرا سفیانی کا خروج ہے۔ تیسری صدائے آسمانی یا ندائے آسمانی۔ یعنی آسمان سے ایک صدا یا ندا بلند ہو گی کہ جو امام زمانہ (عج) کے ظہور کی خبر دے گی تمام عالم کو۔ چوتھی حتمی علامت نفس ذکیہ کا قتل ہے۔ یعنی ایمان کی اعلیٰ ترین منازل پر فائز ایک شخص ہے کہ جس کا نفس پاک، مطہر اور تزکیہ شدہ ہے۔ اس نفس ذکیہ کو اس مسجد الحرام میں کہ جہاں کسی کو مارنا حرام ہے، وہاں کے اس وقت کے حکمرانوں کے ہاتھوں قتل کیا جائے گا۔ پانچویں حتمی علامت زمین کا ایک مقام پر دھنس جانا ہے۔ اس مقام کو بیداء کہا گیا ہے جو کہ مکہ و مدینہ کے درمیان میں واقع ہے امام زمانہ (عج) کے ظہور سے پہلے دھنس جائے گا۔

علامات ظہور کی تقسیم کے حوالے سے سید ابوالفضل بہاؤالدینی کا مزید کہنا تھا کہ علامات کی تیسری تقسیم کو ہم علامات قریب و علامات بعید۔ علامات نزدیک یعنی ایسی علامات جو زمانہ ظہور سے نزدیک کی علامات ہیں اور علامات بعید یعنی جو ظہور سے دور کی علامات ہیں۔ اس کے علاوہ روایات میں علامات طبیعی و غیر طبیعی دونوں کا ذکر ہے۔ روایات میں علامتوں کے طور پر سیاسی ماحول کے تبدیل ہونے یا سیاسی فضاء میں تبدیلی کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کی تبدیلی کے ذکر کو روایات میں بیان کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے دجال کے حوالے سے بہت سنا ہے، دجال کا لفظ دجل سے نکلا ہے یعنی جھوٹا شخص، جو مکار ہو، دھوکے باز ہو۔ روایات اہلسنت میں ان کو بیان کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ درحقیقیت دجال کی بحث مسیحی عیسائی کتب میں ملتی ہیں۔ انجیل کے اندر دجال کی بحث کا زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔ دیگر عیسائی کتب میں دجال کی بحث کا بہت زیادہ ذکر کیا گیا ہے۔ لہٰذا دجال کی اصل بحث کی ابتداء مسیحی عیسائی کتب سے ہوتی ہے اور وہیں سے یہ اہلسنت کتب میں آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اہلسنت کتب میں دجال کے خروج کو قیامت کی علامات میں سے ایک قرار علامت قرار دیا ہے جبکہ بعض میں دجال کے خروج کا ذکر ظہور امام مہدی (عج) سے متعلق ہے۔ شیعہ کتب میں دجال کے ذکر سے متعلق روایات کے حوالے سے آغا سید ابوالفضل بہاؤالدینی کا کہنا تھا کہ اہل تشیع روایات میں دجال سے متعلق دو روایات ملتی ہیں اور وہ بھی سند کے اعتبار سے ضعیف روایات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان روایات کے منکر ہو جائیں، چونکہ مسیحی و اہلسنت کتب میں اس کا بہت زیادہ ذکر ملتا ہے ہم دوسرا راستہ اختیار کر سکتے ہیں ہم اجمالی طور پر قبول کر لیں کہ ہاں دجال سے متعلق کوئی چیز موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ دجال کسے کہتے ہیں۔ دجال جھوٹے، فریب کار، دھوکا باز شخص کو کہتے ہیں جس کا کام انسان و معاشرے کو اپنے جھوٹ، دھوکے اور فریب کے ذریعے سے وہموں میں مبتلا کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دجال کوئی معین شخص نہیں بلکہ یہ نشانیاں ہیں کہ جس میں یہ علامات پائی جائیں وہ دجال ہے۔
دجال کے حوالے سے آغا سید ابوالفضل بہاؤالدینی کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے ٹی وی چینلز، نیوز چینلز اور اخبارات اس وقت دجال ہیں۔ کیونکہ وہ انسان و معاشرے میں جھوٹ پھیلا رہے ہیں، دھوکہ دے رہے ہیں فریب میں مبتلا کر رہے ہیں۔ یہ دھوکے باز ٹی وی چینلز، یہ جھوٹ اور فریب پر مبنی خبریں نشر کرنے والے ٹی وی چینلز کیا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملک شام میں سلفی گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ انتہائی بےرحمی کے ساتھ قتل و غارتگری کا ایک بازار گرم کئے ہوئے ہیں، اتنا کچھ کرتے ہیں شام میں لیکن کوئی ٹی وی چینل کچھ بھی نہیں دکھاتے۔ لیکن ان کے مقابلے میں بشار الاسد، شامی حکومت ذرا سا ایکشن لیتی ہے تو یہ دجال ٹی وی چینلز پوری دنیا میں کتنا شدید پروپیگنڈہ کرتے ہیں اور جھوٹ، دھوکے بازی و فریب پر مبنی خبریں پھیلاتے ہیں۔ لہٰذا دجال ایک ایسا عنوان ہے جو مختلف جگہوں پر سرایت کر سکتا ہے نہ کوئی ایک معین شخص۔ دجال ہم ہر اس شخص، ہر اس تحریک، ہر اس چیز کو کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگوں کے ذہنوں کو گمراہ کرنے کا کام کرتے ہیں۔ بس ہمارے ذہنوں میں رہے کہ دجال ایک فرد واحد کا نام نہیں ہے۔ روایات میں ظہور امام (عج) سے پہلے خروج دجال سے پہلے ستر دجال کے آنے کا ذکر ملتا ہے۔ یعنی اس کا ایک مطلب ہم یہ نکالتے ہیں کہ ظہور امام زمانہ (عج) سے پہلے کچھ خاص گروہ ہونگے، کچھ خاص قوموں کے افراد میں یہ خصوصیت ہوگی کہ وہ اپنے فریب، دھوکے، جھوٹ اور سازشوں کے ذریعے سے لوگوں کو معاشرے کو گمراہ کرینگے۔ دوسرے معنی میں ہم کفر و استعمار و استکبار جہانی کو بھی دجال کہتے ہیں۔ جو کہ ظاہری طور پر اپنے آپ کو آراستہ کر کے آتا ہے، ایسے لباس میں آتا ہے کہ لوگ اس کے دھوکے میں آ جاتے ہیں۔ آتا ہے لوگوں کی اصلاح کی بات کر نے، خیر خواہی کی بات کر کے آتا ہے مگر یہ عالم کفر، استعمار و اسکتبار جہانی، سارے عالم پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
آیت اللہ سید ابوالفضل بہاؤالدینی نے کہا کہ کیا ظہور امام زمانہ (عج) ایسے ہی ہو جائے گا یا اس کی کچھ شرائط بھی ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ظہور امام زمانہ (عج) کیلئے ضروری ہے کہ عالمی سطح پر ایک تبدیلی کیلئے پوری دنیا تیار ہو جائے۔ پہلی بات اس حوالے سے یہ ہے کہ پوری دنیا کو یہ بات سمجھ لینی چاہئیے یا سمجھنی ہو گی موجود دنیاوی نظام و حکومتیں ہیں ان کے ذریعے کبھی بھی عدل و عادلانہ نظام کا قیام نہیں ہو سکتا۔ انہیں سمجھنا چاہیئے کہ وہ جن آسانیوں کو طلب کرتے ہیں، جس کامیابی و سعادت کے پیچھے ہیں، آزادی و حریت چاہتے ہیں، فقر سے نجات چاہتے ہیں، یہ تمام چیزیں ان موجودہ حکومتوں اور نظام کے ذریعے سے پوری نہیں ہونگی۔ انہوں نے کہا کہ اس چیز کو پوری انسانیت کو سمجھنا ہو گا، تمام انسانی معاشروں کو سمجھنا ہو گا کہ وہ جس آزادی، استقلال، سعادت، کامیابی کی تلاش میں ہیں وہ ان حکومتوں و نظام کے بس سے باہر ہے کہ جو غیر الٰہی نظام و حکومتیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے شعور معاشرے میں بیدار ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اس کی مثالیں تیونس، مصر، یمن، مراکش و دیگر بہت سے ممالک ہیں۔ آیت اللہ سید ابوالفضل بہاؤالدینی نے کہا کہ دوسری اور سب سے اہم چیز جس کو لوگوں نے، انسانی معاشرے نے سمجھنا ہو کہ جس عدالت، آزادی، استقلال، سعادت، کامیابی کیلئے چاہے وہ اقتصادی میدان میں ہو، اجتماعی میدان وغیرہ میں ہو انسانوں کو خود قیام کرنا پڑے گا، اٹھنا ہو گا، بیدار ہونا ہو گا۔ یعنی لوگوں کو عدالت کے قیام کیلئے خود شرائط فراہم کرنا ہونگی۔ انسانوں کو اپنے مقدرات کا فیصلہ خود کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیشہ قرآن کا ایک قانون، الٰہی سنت ہمارے ذہنوں میں رہنی چاہیئے کہ خداوند عالم اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا جو اپنی حالت بدلنے کیلئے خود اقدام نہیں کرے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکا کہ ہم اطمینان کے ساتھ ہاتھ پہ پاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں کہ ان حکومتوں سے کچھ نہیں ہوگا ہمیں دوسری حکومت چاہیئے لیکن اس کیلئے کچھ کرینگے نہیں۔ اس طرح کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہمیں خود کچھ کرنا ہوگا، قیام کرنا ہو گا۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے آیت اللہ سید ابوالفضل بہاؤالدینی نے کہا کہ یہ سنت الٰہی ہے کہ قوموں کو عدالت، سعادت و آزادی کیلئے خود اقدام کرنا پڑتا ہے۔ ورنہ خدا ایسی قوم کی حالت نہیں بدلتا کہ جو خود کوشش و قیام نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں، آپس میں گفتگو کرتے رہیں کہ ہاں ہمیں معلوم ہے کہ موجودہ حکومتیں و نظام، وہ آئیڈیل و عادل حکومت و نظام نہیں ہیں، امام زمانہ (عج) کا نظام ہی عادلانہ نظام ہوگا مگر ہم اس کیلئے کچھ نہیں کر سکتے، ان بحثوں سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آیت اللہ سید ابوالفضل بہاؤالدینی نے حضرت موسیٰ (ع) کے ساتھ ان کی قوم کے روئیے کے حوالے سے کہا کہ حضرت موسی علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو سعادت و آزادی کیلئے باطل نظام و حکومت سے نجات اور اس کے خلاف قیام کی دعوت دی تو قوم نے بے وفائی کی اور بہانے بنائے اور حضرت موسیٰ (ع) سے کہا کہ آپ اور آپکا خدا قدرت مند ہے، آپ دونوں جنگ کریں، ہم یہاں بیٹھ کر نظارہ کرتے ہیں۔ اس پر حضرت موسی (ع) نے اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہا کہ میرے اور میری اس فاسق قوم یعنی فاسقین کے درمیان جدائی ڈال دے۔ یعنی حضرت موسیٰ (ع) نے کہا کہ میں اپنی قوم کو قیام کیلئے آمادہ نہیں کرسکا، میری قوم آمادہ نہیں، لہٰذا اب میرے اور اس فاسق قوم کے درمیان جدائی ڈال دے۔ آیت اللہ سید ابوالفضل بہاؤالدینی نے کہا کہ اللہ نہ کرے کہ خود امام زمانہ حضرت امام مہدی (عج) بھی کبھی اس طرح کی بات یا خواہش کریں۔ یعنی ہم اور آپ اور ایسے لوگ مخصوصاَ جو صرف باتیں کرتے ہیں، امام زمانہ (عج) کے بچھائے ہوئے دسترخوان پر بیٹھتے ہیں، انکی برکات و نعمات سے استفادہ کرتے ہیں اور پھر یہ خواہش کرتے ہیں کہ جو کچھ کرنا ہے آپ آ کر کریں، ہم نے کچھ نہیں کرنا۔ لہٰذا حضرت موسیٰ (ع) اور انکی قوم کے واقعہ سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے کہ جس میں حضرت موسیٰ (ع) نے قوم کو دعوت دی کہ آگے بڑھو، قیام کرو۔ قوم نے کہا نہیں ہم نہیں آگے بڑھیں گے۔ آپ اور آپ کا رب چلے جائیں، دشمنوں کو ختم کریں ہم آگے نہیں بڑھیں گے۔ لہٰذا اس واقعہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب حضرت موسیٰ (ع) نے کہا کہ اے خدا میرے اور اس فاسق قوم کے درمیان جدائی ڈال دے تو خدا نے اس فاسق قوم کو چالیس سال کیلئے سرگردان چھوڑ دیا۔ اب یہ فاسق قوم چالیس سال تک زمین پر ادھر ادھر بھٹکتی رہی۔ آیت اللہ سید ابوالفضل بہاؤالدینی نے کہا کہ ہمیں بس ذہن میں یہ رکھنا چاہیئے، ہمیں تیار رہنا ہے کہ ظہور کی شرائط ہمیں اور آپ کو فراہم کرنی ہیں۔ ہم کبھی بھی اس سوچ کے قائل نہ بنیں کہ امام زمانہ (عج) خود آکر ساری چیزیں صحیح کرینگے۔ نہیں یہ غلط سوچ ہے، ہمیں اس سوچ کو اپنے اور معاشرے سے ختم کرنا ہوگا اور ہمیں ظہور حضرت امام مہدی (عج) کیلئے شرائط فراہم کرنی ہونگی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button