پاکستان

پاراچنار: ناقص امن ڈیل؛ معاہدہ صرف پاراچنار سٹی میں نافذالعمل ہوگا

shiitenews parachinarاطلاعات کے مطابق کرم ایجنسی کے قبائلی عمائدین نے صرف پاراچنار شہر میں امن معاہدہ نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں مثالی امن و امان قائم ہے جبکہ ان علاقوں کو نظر انداز کیا گیا ہے جہاں امن نہیں ہے اور نہتے انسانوں کو اغوا اور قتل کیا جاتا ہے۔
 رپورٹ کے مطابق کرم ایجنسی نے کئی بار امن معاہدوں کے اعلان اور عدم نفاذ کے باوجود ایک بار پھر امن معاہدے پر دستخط کئے ہیں

اور البتہ اس بار انھوں نے معاہدہ مری کے نفاذ کا اعلان بھی کیا ہے لیکن یہ نیا اعلان اس وقت متنازعہ بن جاتا ہے جب آپ دیکھتے ہیں کہ یہ معاہدہ صرف پاراچنار شہر میں نافذالعمل ہوگا اور بدامنی کا شکار علاقوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
اس اعلان میں علاقے کے شیعہ اور سنی عوام کو دو فریقوں کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ "حریف فرقوں” کے عمائدین نے تین سال قبل مری کے مقام پر ایک معاہدے پر دستخط کردیئے تھے جس کو اب تک نافذ نہیں کیا جاسکا تھا۔
اس اعلان میں اس حقیقت کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا ہے کہ "حریف فرقوں یا rival sects” کی اصطلاح درست نہیں ہے اور اس علاقے میں فرقوں کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ علاقے سے باہر کی قوتوں کی جنگ ہے جو اس علاقے پر مسلط کی گئی ہے اور اس جنگ سے شیعہ اور سنی عوام کو شدید نقصانات پہنچے ہیں؛ یہ حقیقت بیان کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا ہے کہ حکومت اور اس نام نہاد گرینڈ جرگے نے ان تین برسوں کے دوران کئی بار اس معاہدے کے نفاذ کا اعلان کیا ہے اور پھر "تیسرے فریق” یعنی طالبان کے دہشت گردوں نے اس معاہدے کی تمام شقوں کو پامال کیا ہے اور حکومت اور گرینڈ جرگے کی طرف سے معاہدے کے تحفظ کے سرکاری اعلان کے باجود معاہدہ پامال کرنے والے فریق کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہوا ہے اور سرکاری حکام دہشت گردوں سے علاقے کے مقتولین کی لاشوں کے ٹکڑے اپنی تحویل میں لے کر ان کے غمزدہ خاندانوں کے حوالے کرنے پر اکتفا کرتے رہے ہیں۔ اس میں شک نہيں ہے کہ تیسرا فریق بھی اس معاہدے کی پشت پر ہوگا لیکن اس کا یہاں کوئی ذکر نہیں ہوا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ معاہدہ ابھی سے ناکام ہے۔
مذکورہ معاہدے کے نفاذ کی ڈیل پر فریقین کے 25 ، 25 نمائندوں نے دستخط کئے ہیں جبکہ اس معاہدے پر کرم ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ شہاب علی شاہ (یا شہاب الدین شہاب) نے معمول کے مطابق ضامن کی حیثیت سے ایسے معاہدے پر ضامن پر دستخط کئے ہیں جس کے پر امن نفاذ کا نہ انہیں یقین ہے اور نہ جرگہ والوں کو۔
شہاب علی شاہ نے کرم ایجنسی کے عوام سے کہا ہے وہ زبانی اور اخلاقی لحاظ سے اس معاہدے پر عمل کریں اور یہ کہ یہ وہی معاہدہ ہے جس پر 2008 میں سنی اور شیعہ قبائل کے عما‏ئدین نے دستخط کئے تھے۔
مری معاہدے کے نفاذ کی اس ڈیل پر پاراچنار میں دستخط ہوئے ہیں اور پاراچـنار کے عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ اس معاہدے کا احترام کریں اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ ڈیل پاراچنار کی پانچ سالہ ناکہ بندی اور پاراچنار – پشاور کی نام نہاد قومی شاہراہ کو دوبارہ کھولنے کے سلسلے میں بالکل خاموش ہے جبکہ پاراچنار سے طالبان دہشت گردوں کے انخلاء کے بعد اس علاقے میں جو امن قائم ہے وہ ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتا اور جن علاقوں میں یہ معاہدہ نافذ العمل نہیں ہے امن و امان کے نقاد کی ان ہی علاقوں کو زیادہ ضرورت ہے اور پھر یہ خدشہ بھی پیدا ہوا ہے کہ یہ ڈیل کہیں دہشت گردوں کو دوبارہ پاراچنار کے پر امن علاقے میں واپس لوٹانے کی سازش تو نہیں ہے؟!
پیر کے روز ایکسپریس ٹربیون سے بات چیت کرتے ہوئے فریقین کے عمائدین نے کہا ہے کہ اس اپریل 2007 سے بند کئے جانے والے راستے مستقل طور پر کھولنے کا مسئلہ اس ڈیل میں شامل نہیں ہے۔
ایکسپریس ٹربیون سے بات چیت کرتے ہوئے جرگہ میں سینئرسنی رکن جرگہ عطاء اللہ خان
نے کہا کہ "نو نکاتی معاہدہ صرف پاراچنار شہر میں نافذ العمل ہوگا اور یہ علاقے کے دوسرے حصوں میں قابل نفاذ نہيں ہے”۔
انھوں نے کہا: البتہ تمام قبائلیوں کو ۔
عطاء اللہ خان کے موقف سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ معاہدہ پاراچنار پر دہشت گردوں کے دوبارہ تسلط کے لئے بنیاد بنایا جارہا ہے، اور اس کے سائے میں یہاں سے بے دخل دوسرے فریق کے افراد کو دوبارہ لایا جائے گا، موجودہ امن غارت کرنے کے اسباب ایک بار پھر غارت ہوجائیں گے، مظلوم فریق کو ریلیف دینے کے امکانات ختم ہوجائيں گے اور جارح لوگوں کو مزید کھلی فضا میسر آئے گی کیونکہ اس ناقص ڈیل میں نہ تو بے دخل شیعہ افراد کو متعلقہ علاقوں میں دوبارہ بسانے کا کوئی پروگرام ہے اور نہ ہی اہل تشیع کو پانچ سالہ ظالمانہ محاصرے سے نکالنے کا کوئی منصوبہ ہے۔
عطاء اللہ نے یہ بھی نہیں کہا کہ ڈیل کے کئی مراحل ہیں اور اگلے مراحل میں دوسرے معاملے بھی ٹھیک کئے جائیں گے۔
دریں اثناء شیعہ عمائدین نے بھی عطاء اللہ کے دعوے کی تصدیق کی ہے۔
اکسپریس ٹربیون نے پوچھا تھا کہ "کیا اس ڈیل کے دوران پاراچنار – ٹل شاہراہ دوبارہ کھولنے کے مسئلے پر بحث نہیں ہوئی؟” جس کے جواب میں انجمن حسینیہ پاراچنار کے "ترجمان” خادم حسین نے کہا:  ہم اس موضوع کو مرحلہ وار انداز سے آگے بڑھانے کے درپے ہیں اور "پاراچنار – ٹل شاہراہ کو دوبارہ کھولنے کا مسئلہ اگلے مرحلے میں زیر بحث آئے گا!”۔
اتوار کے روز پاراچنار میں واقع "گورنر کاٹیج” میں ہونے والے جرگے کے دوران انجمن حسینیہ کے سیکریٹری ملک حامد حسین اور پروفیسر جمیل کاظمی نے شیعہ وفد کی قیادت کی۔
اس ڈیل کے میں 5 سال سے ظلم کی چکی میں پسنے والے عوام کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ ان سب مسائل کے باعث و بانی لوگوں کی پذیرائی کریں اور اس ڈیل میں سب سے بڑا مسئلہ پاراچنار شہر کو جنگ کی آگ میں دھکیلنے کے بعد بے دخل ہونے والے افراد کی بحالی اور باقی مسائل کو "چھوٹے مسائل” کا نام دیا گیا ہے دیکھئے:
"اتوار کی مفاہمت کے مطابق سینکڑوں سنی خاندان جو جنگ کی وجہ سے پاراچنار سے بے دخل ہوگئے تھے، کو ان کے گھروں میں بسایا جائے گا اور فریقین ایک کمیٹی تشکیل دیں گے جو "چھوٹے مسائل” حل کرے گی”۔
اس ڈیل میں یہ نہیں کہا جاتا کہ صدہ سے لے کر ہنگو تک کی نام نہاد قومی شاہراہ پر قابض طالبان کو تو ہتھیار اٹھا کر فوج سے لے کر نہتے مسافروں تک پر حملوں کی اجازت ہے لیکن "پر امن پاراچنار میں امن قائم کرنے کے لئے” ہتھیاروں کی نمائش پر پابندی ہوگی۔ ڈیل میں کہا گیا ہے:
٭ پاراچنار میں ہتھیاروں کی نمائش کرنے والے فرد پر دس لاکھ روپے کا جرمانہ ہوگا۔
ڈیل میں قبائل کا رواج نظر انداز کیا گیا ہے اور ان لوگوں کو بچانے کا بھی پورا پورا انتظام کیا گیا ہے جنہوں نے گذشتہ پانچ برسوں سے اب تک خیبر، پشاور، درہ آدم خیل، کوہاٹ، ٹل، ہنگو، توت کس، تور غر، اوچت، مخی زئی، پیر قیوم، صدہ، خار کلئے، افغانستان، بوشہرہ، شورک، افغانستان وغیرہ میں حملے کرکے بچوں اور خواتین سمیت سینکڑوں نہتے افراد کو ذبح کیا اور ان کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اور پاراچنار کے عوام کو کسی قسم کی امداد نہ پہنچنے دی چنانچہ ڈیل کی ایک شق یہ ہے کہ:
٭ کوئی بھی شخص سابقہ قتل کا بدلہ لینے کی کوشش نہیں کرے گا۔
آگے دیکھئے:
٭  مقامی انتظامیہ اس شق کو پامال کرنے والے افراد کے خلاف اقدام کرے گی جن کو اپنی برادری کو بھی 20 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
1976 سے لے کر اب تک ہونے والی تمام جنگیں طوری قوم کی جانب سے جاجی قوم کو دی گئی مسجد سے شروع ہوئی ہیں اور اس مسجد کے اونچے منار کو ہمیشہ مورچے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور دہشت گردوں نے اس پر چڑھ کر پاراچنار کو فتح کرنے کے خواب دیکھے ہیں اور ایسا کرنا اس اونچے منار کی وجہ سے انہیں آسان لگا ہے اور اس ڈیل میں اس مورچے کو بچانے کا بھی انتظام ہے؛ اور کہا گیا ہے کہ:
٭ فریقین مساجد اور امامبارگاہوں کے تقدس کو یقینی بنائیں گے اور ایک دوسرے کے عقائد کے خلاف توہین آمیز ریمارکس نہیں دیں گے (وہی بات جس کا شیعہ عوام 50 برسوں سے مطالبہ کرتے رہے ہيں!)۔
اس ڈیل میں تکلیف دہ افراد کی کوئی تعریف کئے بغیر کہا گیا ہے کہ:
٭ یہ ڈیل فریقین کو اس بات کا بھی پابند بناتی ہے کہ وہ تکلیف دہ اور پریشان کن افراد کو پناہ دینے سے گریز کریں اور ایسے عناصر کی شناخت کرکے حکومت کے ساتھ ان کے خلاف ایکشن لینے کے لئے تعاون کریں گے۔
یہ نہیں بتایا گیا کہ پاراچنار میں بسائے جانے والے قاتل کیا تکلیف دہ (اور Trouble-Makers ) افراد کے زمرے میں شامل نہیں ہیں جنہیں بچانے کے لئے قوانین وضع کئے گئے ہیں؟۔
علاقے کے عوام 1996 میں شیعہ مقدسات کی توہین کے زمانے سے ان تکلیف دہ عناصر کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور یہ مطالبہ 2007 سے لے کر اب تک مزید شدت سے سامنے لایا جاتا رہا ہے لیکن حکومت حیلوں بہانوں سے پہلو بچاتی رہی ہے یا پھر خودساختہ وسطی کرم میں چند گولیاں چلا کر کامیاب آپریشن کے دعوے کرتی چلی آرہی ہے لیکن اب اس کو ایکشن لینے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے جو بے شک علاقے کے عوام کے خلاف ہی ہوسکتا کیونکہ ان کے اور پاکستان کی سالمیت کے دشمنوں کے خلاف ایکشن تو "شجرہ ممنوعہ” ہے؛ دیکھئے:
٭ اگر حکومت نے ایجنسی میں تکلیف دہ عناصر کے خلاف ایکشن کا فیصلہ کیا تو فریقین ایسے ایکشن کی حمایت کریں گے؛ "یہ ایک اہم نکتہ ہے کیونکہ یہ مستقبل میں نئی فوجی کاروائیوں کے لئے راستہ ہموار کرے گا”۔
البتہ یہ ڈیل نہیں بتاتی کہ مستقبل میں نئی فوجی کاروائیوں کا ہدف کون ہوگا؟
یہ سب عطاء اللہ خان کی باتیں تھیں جو انھوں نے ایکسپریس ٹربیون کو بتائی تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ: "ہم نے شہر کی سطح کے جرگوں کی تجویز بھی دی ہے تا کہ برسوں سے جاری خونریزی بند کی جاسکے اور یہ اچھی بات ہے کہ حکام نے آخر کار ہماری بات مان لی؟!”
انھوں نے کہا کہ یہ جرگے کا دوسرا فیصلہ تھا اور ہفتے کے روز بھی شیعہ اور سنی عمائدین نے ایک معاہدے پر دستخط کئے تا کہ علاقے میں تیس برسوں سے جاری دشمنیوں کا خاتمہ کیا جائے۔
عطاء اللہ خان بڑے خوش تھے
ہاں ان کو خوش ہی ہونا چاہئے تھا کیونکہ جن لوگوں کی وہ نمائندگی کررہے تھے انھوں نے ان کی نمائندگی کا حق ادا کرنے کی پوری پوری کوشش کی تھی۔
"ایکسپریس ٹربیون لکھتا ہے: خان بڑے خوش تھے کہ انہيں شائستہ اور مناسب کامیابی ملی تھی” لیکن قبائلی ماہرین کو اس طرح کے الگ تھلگ سے معاہدوں پر زیادہ امیدیں نہیں ہیں۔
ہمارے اپنے اپنے خدشات ہوں گے لیکن ایکسپریس ٹربیون کے خدشات کچھ یوں تھے:
یہ ایک حوصلہ افزا بات تھی کہ 2007 سے علاقے کے امن مذاکرات میں مسلسل شریک ملک وارث خان بھی اس موقع پر موجود تھے لیکن:
٭ "پشاور میں مقیم تجزیہ نگار خادم حسین کا کہنا تھا کہ: جس ڈیل میں مقامی طالبان جنگجو شامل نہیں ہونگے ان کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں”۔
البتہ ایکسپریس اور خادم صاحب سے اختلاف کرتے ہوئے یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ شاید بے گھر ہونے والے افراد کے بھیس میں طالبان جنگجوؤں ہی کو پاراچنار میں تعینات کیا جارہا ہے اور اگر ایسا ہے تو طالبان جنگجو اس ڈیل میں شامل ہیں لیکن یہ بات تو اور بھی فکرمند کردینے والی ہے۔ گوکہ گلاب حسین بھی خادم اور ایکسپریس سے متفق تھے دیکھئے:
٭ "گرینڈ ٹرائبل جرگے کے ممبر ملک حاجی گلاب حسین طوری نے بھی خادم حسین کی بات کی تصدیق کی اور کہا: «مقامی جنگ سالاروں (Warlords)» کی حمایت کے بغیر علاقے میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہيں ہے۔ انھوں نے بظاہر پاکستانی طالبان سے علیحدگی کا اعلان کرکے نئے طالبان گروپ (تحریک طالبان اسلامی) کی تشکیل کا اعلان کرنے والے فضل سعید حقانی کے اعلان کا حوالہ بھی دیا” [جس میں بظاہر اس نے یہی کہا ہوگا کہ جب تک اس کی مرضی نہ ہوگی علاقے میں امن قائم نہ ہوسکے گا]۔
اس ساری ڈیل میں اصل مسئلے کا کہیں کوئی ذکر نہيں ہے اور وہ ہے ٹل پاراچنار روڈ کی بحالی اور اس پر امن کی سرکاری ضمانت کی ضرورت کا مسئلہ جس کو جرگہ ممبر نے بھی اشارہ کرہی دیا ہے۔
ایکسپریس ٹربیون لکھتا ہے: "حاجی گلاب نے کہا: حریف فریقوں کے درمیان امن کا قیام کسی صورت میں بھی ممکن نہیں ہے جب تک کہ ٹل پاراچنار روڈ کو دوبارہ نہیں کھولا جاتا؛ انھوں نے کہا: ہم امن سے کیونکر بہرہ مند ہوسکتے ہیں جبکہ ٹل پاراچنار روڈ اب بھی ٹریفک کے لئے بند ہے؟، تا ہم انھوں نے کہا: ہم نے خیبر پختونخوا کے گورنر بیرسٹر مسعود کوثر سے اس سلسلے میں بات چیت کی ہے اور گورنر صدر کی جانب سے قبائلی علاقوں کے حکمران ہیں”۔
قارئین نے حاجی گلاب کے موقف سے کیا مفہوم لیا؟ کیا ان کی باتوں میں پیر کے روز کے معاہدے سے عدم اطمینان کا اظہار نہیں تھا؟ آپ ہی فیصلہ کریں۔
حاجی گلاب نے ایکسپریس کے سوالات کا جواب دینے ہوئے کہا: ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ روڈ کے کنارے سیکورٹی کے مورچے قائم کرے اور ان مورچوں میں شیعہ اور سنی سیکورٹی اہلکاروں کی برابر تعداد تعینات کرے”۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس معاہدے اور اس معاہدے کے لئے ہونے والے مسلسل اجلاسوں سے، جرگہ کے افراد کی سرکاری پذیرائی کے سوا، کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہونے کی امید رکھی جاسکتی ہے؟۔
وضاحت: اس رپورٹ اور تبصرے میں سیاہ پوش ہم ہیں سرخپوش ایکسپریس والے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

Back to top button