پاکستان

پاراچنار میں میڈیا اور طلبہ کی گرفتاری اور تشدد ریاستی دہشتگردی کی بدترین مثال ہے، چیف جسٹس نوٹس لیں، ایم ڈبلیو ایم

shiitenews parachinar media kidnappedنیشنل پریس اسلام آباد میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسیلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری، سیکر ٹری جوانان علامہ اعجاز حسین بہشتی، نثار فیضی، یوتھ آف پارچنار کے رہنماء شبیر ساجدی، ڈویژنل صدر آئی ایس او راولپنڈی تقی حیدر اور دیگر کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کو اس وقت کئی سنگین مسائل درپیش ہیں جہاں ایک طرف اندرونی انتشار، خلفشار، انارکی، معاشی ابتری اور سندھ میں بارشوں

کے نتیجے میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے پیدا ہونے والے ان گنت مسائل شامل ہیں وہاں دوسری طرف بیرونی سطح پر بھی کئی دشمن طاقتیں پاکستان کے خلاف مختلف محاذوں پر سرگرم ہیں، وطن عزیز ہر طرف سے داخلی اور خارجی محاذ پر وطن فروش افراد کے ہاتھوں گھرا ہوا ہے۔ ان حالات میں حکمران اور سیاسی جماعتوں کی صرف اپنے مفادات کے گرد گھومتی حکمرانی اور سیاست نے دشمنوں کا کام اور آسان کر دیا ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ ملک کے مشکل حالات کو دیکھتے ہوئے سیاسی قائدین اور حکمران عوام کو مسائل کے دلدل سے نکالنے کی بھرپور کوشش کرتے اور اجتماعی سوچ کو اپناتے ہوئے ملک کو درپیش مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے اپنے اختلافات اور مفادات کو پس پشت ڈال دیتی لیکن یہاں ہر کوئی مفادات کی گنگا میں اشنان کرنے کیلئے لنگوٹ کسے نظر آرہا ہے اور اس وقت جس طرح کی آفات کا پاکستانی قوم کو سامنا ہے اس کے لیے خدا کی بارگاہ میں اجتماعی توبہ کرتے ہوئے اپنے اجتماعی رویوں میں جوہری تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ گزشتہ چار سالوں سے پاراچنار کی واحد شاہراہ (ٹل پاراچنارروڈ)مکمل طور پر غیر محفوظ اور بند ہے۔ یہ وہ واحد زمینی راستہ ہے جو پاراچنار کو پشاور سے ملاتا ہے۔ اس کی بندش کی وجہ سے پورا علاقہ پاکستان سے کٹ گیا ہے اور پانچ لاکھ سے زائد کی آبادی محصور ہوکر رہ گئی ہے۔ پاراچنار اس وقت ایک انسانی المیے کا شکار ہے وہاں عوام کیلئے زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے لوگوں کی معیشت تباہ ہوچکی ہے۔ لاکھوں معصوم طالبعلموں کا تعلیمی کیرئیر داؤ پر لگا ہوا ہے۔ روزمرہ ضروریات زندگی ناپید ہو چکی ہیں۔ اشیائے خورونوش کی قیمیں آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ ہسپتالوں میں ادویات کی قلت ہے۔ معصوم بچے اور مریض ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ لوگ فاقوں پر مجبور ہے۔ آئے روز لوگوں کو نئے نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہر طرح سے ان کا استحصال ہو رہا ہے۔ ان تمام مشکلات کی بنیادی وجہ ٹل پاراچنار روڈ کی بندش اور غیر محفوظ ہونا ہیں۔
عوامی احتجاج پر سیکورٹی فورسز نے کرم ایجنسی میں فوجی آپریشن کا اعلان کیا اور کرم ایجنسی کے تمام قبائل بالخصوص طوری و بنگش قبیلے نے ان کی حمایت کا بھرپور اعلان کیا۔ کورکمانڈر پشاور نے کرم ایجنسی کا دورہ کیا اور آپریشن کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے کہا کہ آپریشن کا بنیادی مقصد ٹل پاراچنار روڈ کو محفوظ بنا کر کھولنا، دہشت گرد طالبان کا علاقہ سے مکمل خاتمہ، دہشت گرد طالبان کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا، اغوائے برائے تاوان کی وارداتوں کے سلسلے کو روکنا اور علاقے میں مکمل امن و امان قائم رکھنا شامل تھا۔ فوجی آپریشن ہوا۔ آرمی چیف نے دورہ کیا اور کامیاب آپریشن کے مکمل ہونے کا اعلان کیا اور یہ بھی کہا گیا کہ عیدالفطر سے پہلے پہلے ٹل پاراچنار روڈ کو آرمی کی چیک پوسٹیں قائم کر کے کھولا جائے گا۔ ان تمام تر اعلانات اور برائے نام اقدامات کے باوجود پاراچنار کے حالات وہی ہیں جو 5 برسوں سے چلے آ رہے ہیں۔ نہ ٹل پاراچنار روڈ کھلا اور نہ ہی کانواؤں پر حملے رُکے، نہ لوگوں کی قتل و غارت میں کمی آئی اور نہ ہی اغوائے برائے تاوان کا سلسلہ رکا۔ لوئر اور سنٹرل کرم پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہے اور حکومتی عملدآری کا نام و نشان ہی نہیں۔
مجلس وحدت مسلمین کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پاراچنار کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اس عید کے موقع پر پاراچنار کے رہائشی جو عید کی چھٹیاں منانے پاراچنار گئے تھے جن میں ہزاروں طلباء، ملازمت پیشہ افراد اور تارکین وطن شامل ہیں، آمدورفت کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کے باعث پاراچنار میں پھنس گئے ہیں۔ لوئرکرم کے علاقہ بگن میں موجود طالبان کمانڈر فضل سعید نے کھلے عام کانوائے کو چیلنج کر دیا ہے کہ وہ اس راستے سے کسی کو بھی نہیں گزرنے دیں گے۔ جس سے مسافروں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ گزشتہ پانچ روز سے علاقہ مکین مسلسل احتجاج کر رہے ہیں کہ ان کو ’’محفوظ سفر‘‘ کا ذریعہ فراہم کیا جائے اور ہیلی کاپٹر یا C-130 سروس ہنگامی بنیادوں پر شروع کی جائے۔ اس عوامی احتجاج میں طلباء کی ایک بڑی تعداد شامل ہے لیکن پولیٹیکل ایجنٹ شہاب علی شاہ نے بجائے اس کے کہ وہ اس عوامی مطالبے پر غور کرے۔ پولیٹیکل ایجنٹ موصوف اور اس کے سٹاف نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے 6 کروڑ روپے سے زیادہ متاثرین کی رقم کو راتوں رات جعلی دستخط لے کر غبن پر پردہ ڈالنے کی خاطر نہ صرف یہ کہ پاراچنار پوسٹ آفس کو جلا دیا بلکہ نہتے طلباء پر لیوی فورس اور F.C کے ذریعے مسلسل ایک گھنٹے تک گولیاں برسائیں جس کے باعث تین طلباء زخمی ہوئے اور بعداز کل طلباء کے رہنماء اس واقعہ کی مذمت میں پاراچنار پریس کلب میں پریس کانفرنس کر رہے تھے کہ پولیٹیکل انتظامیہ نے ان پر ہلہ بول دیا، ان پر تشدد کر کے انہیں زدوکوب کیا۔ 6 طلباء رہنماء سمیت ٹرائبل یونین جرنلسٹ کے 7 صحافیوں کو بھی گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر لے گئے۔ لہٰذا ہم صدر پاکستان، چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فوراً اس واقعے کا سختی سے نوٹس لیں کیونکہ F.C کا یہ اقدام حقوق انسانی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ عوام کو احتجاج کا پورا حق حاصل ہے لہٰذا پولیٹیکل انتظامیہ سے فوری طور پر اس واقعہ کی رپورٹ طلب کرکے ان کو برطرف کرے اور ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ پاراچنار کے مسئلے کو انسانی بنیادوں پر حل کیا جائے اور طالبان کے خلاف موثر آپریشن کرکے ٹل پاراچنار روڈ کو کھول دیا جائے اور وہاں پر محصور طلباء، ملازم پیشہ افراد اور تارکین وطن کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ہیلی کاپٹر، C-130 سروس شروع کی جائے۔
علامہ اصغر عسکری کا کہنا تھا کہ ہم ٹرائبل یونین جرنلسٹ پاراچنار کے صحافیوں پر تشدد، زدکوبی اور ان کی گرفتاری پر شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور یہ حکومت کی میڈیا پر قدغن ہے۔ ہم تمام ہیومن رائٹس کے اداروں اور پاکستان کے تمام صحافی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ اس واقعہ کا سختی سے نوٹس لیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button