پاکستان

کفن پوش ریلی،راستے کھلنے تک احتجاج جاری رہے گا،

shiitenews_Parachinaris_await_next_broken_promiseکفن پوش ریلی،راستے کھلنے تک احتجاج جاری رہے گا، حکمرانوں کیلئے ڈوب مرنے کا مقام، وطن دشمن عناصر کیخلاف کاروائی کا مطالبہ
قبائلی مشران اور یوتھ آف پاراچنار کے نمائندوں نے حکومت سے ایک مرتبہ پھر اپنے مطالبات کو دہراتے ہوئے کہا کہ حکومت گزشتہ ایک ماہ سے مغوی 33 افراد کو فوری طور پر رہا کرائے،  طوری بنگش اور مخالف فریق میں ہونے والے مری معاہدہ پر عمل درآمد کرایا جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ پشاور سے پارا چنار تک پی آئی اے سروس فوری طور پر بحال کیا جائے۔ کرم ملیشیاء کو دیگر علاقوں سے واپس بلا کر کرم ایجنسی میں تعینات کرایا جائے۔ ٹل پاراچنار روڈ کو محفوظ بنانے کیلئے جگہ جگہ آرمی چیک پوسٹیں بنائی جائیں۔ پاراچنار میں دو سالوں سے بند موبائل سروس بحال کیا جائے.
یوتھ آف پارا چنار کے زیراہتمام اٹھارویں روز کفن پوش ریلی نکالی گئی جس میں چھوٹے بڑوں سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ شرکائے ریلی نے مین روڈ بلاک کر کے نیشنل کلب اسلام آباد سے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے تک ریلی نکالی، جس میں ہزاروں نوجوانوں، سول سوسائٹی، شہریوں سمیت بچوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ شرکاء نے کفن پہن رکھے تھے اور لبیک یاحسین ع کے فلک شگاف نعرے بلند کرتے رہے۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے علامہ محمد امین شہیدی، علامہ اصغر عسکری، علامہ عابد حسین بہشتی سمیت دیگر مقررین کا کہنا تھا کہ کرم ایجنسی کے غیور اور محب وطن عوام گزشتہ چار سال سے ملک دشمن شر پسندوں کے خلاف نبرد آزما ہیں اور تاحال 2200 سے زیادہ افراد کی قربانیاں دے چکے ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت ان محبانِ وطن کی حمایت کی بجائے شر پسندوں کا ساتھ دے رہی ہے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ اٹھارہ روز سے احتجاج جاری ہے، لیکن کسی حکومتی شخصیت نے ان سے کوئی روبطہ نہیں کیا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، ان کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ حکومت مظلوموں کا ساتھ دینے کی بجائے دہشتگردوں کا ساتھ دے رہی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی ثابت قدمی جارے گی اور جب تک مغویوں کو رہا نہیں کرایا جاتا، اس وقت تک یہ احتجاج جاری رہے گا۔ مقررین نے کہا کہ 2007ء سے پانچ لاکھ آبادی والا یہ علاقہ پورے ملک سے کٹا ہوا ہے۔ اشیائے خورد و نوش ناپید ہیں اور ادویات کی عدم دستیابی کے باعث مریض اور زخمی مر رہے ہیں۔ مقررین کا کہنا تھا کہ پورا علاقہ اقتصادی، معاشی، معاشرتی اور تعلیمی طور پر تباہ ہو چکا ہے، لیکن حکومتی بےحسی اور بے تدبیری سمجھ سے بالاتر ہے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ گزشتہ چار سال کے دوران طوری و بنگش قبائل اور متحارب گروپوں کے درمیان کئی معاہدے ہو چکے ہیں، جن میں 2008ء میں حکومت کی سرکردگی میں منعقدہ مری معاہدہ قابل ذکر ہے اور فروری 2011ء میں اس پر عمل درآمد کے باقاعدہ احکامات وزیر داخلہ رحمان ملک کے زبانی جاری ہوئے ہیں۔ لیکن 25 مارچ کو ٹل پاراچنار روڈ پر 11 افراد کی شہادت اور 33 کی تاحال عدم بازیابی اس معاہدے اور وزیر داخلہ کے احکامات پر سوالیہ نشان ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ کئی مربتہ وعدے کر چکے ہیں لیکن اب تک وعدہ وفا نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ رحمان ملک ایک جھوٹا انسان ہے جس نے فلور آف دی ہاؤس سے سب وعدہ کیا کہ اڑتالیس گھنٹوں میں روڈ کھل جائے گا، لیکن تاحال اس پر کوئی عمل نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جو چائے پتی اور تیل کی قیتموں پر حکومتی اتحاد سے جدا ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ کو مظلوموں کا حامی کہلاتے ہیں، کیا اُن کے کان بند ہیں۔ کیا انہیں پاراچنار میں پانچ لاکھ انسان نظر نہیں آتے۔ مقررین نے کہا کہ یہ معصوم بچے جنہوں نے اپنے سروں پہ کفن باندھ کر ثابت کر دیا ہے کہ اس قوم کے بچے بھی اپنے مطالبات کی منظوری تک یہاں سے نہیں اٹھیں گے۔
شرکائے ریلی نے پارلمنٹ ہاوس کے سامنے کئی گھنٹوں تک دھرنا دیا اور طالبان اور اُن کے حامیوں کیخلاف شدید نفرت کا اظہار کیا۔ قبائلی مشران اور یوتھ آف پاراچنار کے نمائندوں نے حکومت سے ایک مرتبہ پھر اپنے مطالبات کو دہراتے ہوئے کہا کہ حکومت گزشتہ ایک ماہ سے مغوی 33 افراد کو فوری طور پر رہا کرائے، طوری بنگش اور مخالف فریق میں ہونے والے مری معاہدہ پر عمل درآمد کرایا جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ پشاور سے پارا چنار تک پی آئی اے سروس فوری طور پر بحال کیا جائے۔ کرم ملیشیاء کو دیگر علاقوں سے واپس بلا کر کرم ایجنسی میں تعینات کرایا جائے۔ ٹل پاراچنار روڈ کو محفوظ بنانے کیلئے جگہ جگہ آرمی چیک پوسٹیں بنائی جائیں۔ پاراچنار میں دو سالوں سے بند موبائل سروس بحال کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button