پاکستان

کراچی:سانحہ عاشورا اور سانحہ چہلم میں ملوث دہشت گرد گرفتار

arrested_talibanکراچی میں سانحہ عاشورا اور سانحہ اربعین امام حسین علیہ السلام میں ملوث کالعدم دہشت گرد گروہ لشکر معاویہ کا ناصبی دہشت گرد عالم خان چترالی گرفتار ہو گیا ہے۔ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق کراچی میں یوم عاشورا ،یوم اربعین امام حسین علیہ السلام کے موقع پر جلوس ہائے عزاء اور عزاداروںکی بس کو دھماکے کا نشانہ بنانے اور جناح اسپتال میں دھماکوں میں ملوث کالعدم دہشت گرد گروہ کا سرغنہ عالم خان چترالی ولد  خوش ذوق کو گلشن اقبال کی اسکاؤٹ کالونی سے گرفتار کر لیا گیا ہے ناصبی دہشت گرد کا تعلق لشکر معاویہ نامی دہشت گرد گروہ سے بتایا گیاہے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی پولیس کے اسپیشل انوسٹی گیشن یونٹ نے سانحہ عاشورا میں کالعدم دہشت گرد گروہ جند اللہ کے دہشت گردوں کو ملوث قرار دیا تھا جو بعد ازاں احاطہ عدالت سے فرار ہو گئے تھے۔گرفتار کئے گئے دہشت گرد عالم خان چترالی نے دوران تفتیش 2009ء میں 8محرم الحرام کو پاپوش،10محرم یوم عاشورا ئے حسینی کے مرکزی جلوس عزاء اور حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کے چہلم کے موقع پر نرسری اور جناح اسپتال میں کئے گئے بم دھماکوں کا اعتراف کیا ہے۔
محمد عالم خان کا تعلق چترال کے گاؤں نوغپھڑی کہگیری تحصیل مستوچ سے ہے اور اس نے ابتدائی تعلیم بھی وہاں سے حاصل کی جبکہ 1996میں میٹرک کا امتحان دینے کے بعد اپنے ایک دوست عبد الغفور کے ساتھ کراچی آیا۔اس کا شناختی کارڈ نمبر 15202-6500497-9ہے جبکہ خاندان نمبر V770ROہے اور اس کی تاریخ تنسیخ 30-09-2020ہے ۔
گرفتار ہونے والے سفاک ناصبی دہشت گرد نے بتایاہے کہ اس نے کراچی آنے کے بعد عبد الغفور کے انکل کی مدد سے دارالعلوم رحمانیہ نامی مدرسہ جو کہ 1999ء سے کشمیر روڈ پر واقع ہے وہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد مبینہ ٹاؤن تھانے کے سامنے واقع جامعہ عربیہ اسلامیہ اسکاؤٹ کالونی میں داخلہ لیا اور وہاں سے گردان کا کورس کیا،اسی دوران رابعہ فلاور میں واقع مسجد رابعہ میں بطور خادم کام کیا اور 2003میں مہتمم بن گیا،اسی دوران 2001ء میں اس نے اپنی کزن سے شادی کر لی اور2007ء میں چترال چلا گیا،وہاں سے واپس آ کر ناظم آباد میں واقع ایک مقامی اخبار میں ابرار بھائی کے توسط سے نوکری کی اور چھ ماہ بعد وہاں سے نوکری چھوڑ دی اور الآصف اسکوائر کی مسجد طوبیٰ میں قاری لگ گیا،اس کے بعد مسجد علی میں قاری لگ گیا جہاں اپنے گھر والوں کے ساتھ رہا،ناصبی دہشت گرد عالم خان نے بتایا کہ کہ اس نے پہلے جمعیت علمائے اسلام میں شمولیت اختیار کی اور بعد ازاں اسے چھوڑ کر کالعدم دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ میں شمولیت اختیار کر لی ،2009ء میں کالعدم دہشت گرد گروہ سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں نے ایک اور دہشت گرد گروہ لشکر معاویہ تشکیل دیا تو ناصبی دہشت گرد عالم خان اس میں شامل ہو گیاجہاں پر امیر عبد الرحمان نامی دہشت گرد موجود تھا،ناصبی دہشتگرد نے بتایا کہ اس دوران ہمارا رابطہ کالعدم لشکر جھنگوی سے ہوا،24دسمبر2009ء کو لشکر معاویہ کی ایک خفیہ میٹنگ مسجد معاویہ اسکاؤٹ کالونی میں ہوئی جہاں پر لشکر معاویہ نے مجھ کو ایک ٹاسک دیا کہ اگلے روز ایک ریموٹ کنٹرول بم تم کو دیا جائے گا اور وہ بم تمھیں جا کر رکھنا ہے ،بم کہاں رکھنا ہے اس کی تفصیلات تمھیں صالح محمد بتائے گا۔اس کے بعد 25دسمبر2009ء کو 3بج کر 30منٹ پر میں سہراب گوٹھ گیا تو وہاں پر صالح محمد ایک یلو کیب میں موجود تھااس نے مجھے ٹیکسی میں بیٹھنے کا کہا اور پھر ہم لوگ خلافت چوک پاپوش نگر پہنچے جہاں میں نے ایک مین ہول کے قریب بم کو نصب کیا اور اس کے بعد صالح محمد کے ساتھ واپس اسکاؤٹ کالونی گلشن اقبال آ گیااور اگلے روز 26دسمبر2009ء کو شام 4بجے یلو کیب میں خلافت پاپوش نگر گیا ،میرے ساتھ صالح محمد اور نا معلوم ٹیکسی ڈرائیور تھا اس دوران ہم مغرب کی نماز کا انتظار کرنے لگے کیونکہ مغرب کی نماز کے بعد وہاں سے ایک جلوس گزرنا تھا اور ہمیں اس جلوس کو ٹارگٹ کرنا تھا ،جیسے ہی یہ جلوس ہمارے قریب سے گزرا تو میں نے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے دھماکہ کر دیا،اس کاروائی کے بعد ہم لوگ واپس مسجد معاویہ اسکاؤٹ کالونی پہنچے جہاں پر لشکر معاویہ کے دیگر ممبران موجود تھے ،انہوں نے ہمیں اس کاروائی پر مبارک باد دی۔اسی میٹنگ میں عبد الرحمان اور صالح محمد نے کہا کہ ہم نے ایک بڑا بم تیار کیا ہے یہ سم بم ہے اور اس کو 10محرم الحرام کے جلوس میں لائٹ ہاؤس ایم اے جناح روڈ پر استعمال کرنا ہے۔اس کے بعد عبدالرحمان ،صالح محمد،عرفان اللہ بلوچ اور آصف دھماکہ خیز مواد لے کر آئے ،یہ دھماکہ خیز مواد عبد الرحمان نے تیار کیا تھا اور اس نے ہی دھماکہ خیز مواد لائٹ ہاؤس پر کچھ دیر پہلے ہی نصب کیا تھا،ہمارا ساتھی دہشتگرد صالح محمد جو ہزارہ سے تعلق رکھتاہے وہ کالے رنگ کی شلوار قمیض پہن کر ایک شیعہ عزادار گروپ کے ہمراہ 10محرم الحرام کے جلوس میں پہنچا ،یہ جلوس پہلوان گوٹھ سے گیا تھا اور اسی عزاداری گروپ کے ساتھ وہ جلوس میں چلتا گیا ،صالح محمد کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ جب وہ ٹارگٹ کے قریب پہنچا توایک موبائل فون کے ذریعے وہ نمبر ملاتا جو بم سے جڑا ہوا ہے،جس پر صالح محمد عزاداری کے جلوس کے ساتھ چلتے ہوئے جب ٹارگٹ کے قریب پہنچا تو اس نے موبائل فون کے ذریعے اس نمبر پر فون کر دیا جو بم سے جڑا ہوا تھا اور زور دار دھماکہ ہو گیا۔اس واردات کے بعد ہمارے گروپ کے 18سے 20لڑکے فوری طور پر مسجد معاویہ اسکاؤٹ کالونی میں جمع ہوئے اس دوران لشکر معاویہ کے امیر عبد الرحمان نے کہا کہ اگر کسی نے اس کاروائی کے حوالے سے کوئی بات کی تو اسے اور اس کے خاندان کو قتل کر دیا جائے گا۔بعد ازاں عبد الرحمان نے کہا کہ تم سب روپوش ہو جاؤ اور میری اگلی ہدایت تک روپوش رہناجس کے بعد ہم لوگ روپوش ہو گئے ۔
ناصبی دہشتگرد عالم خان نے مزید بتایا کہ عاشورا دھماکے کے دو روز بعد عبدالرحمان نے ہم سب کو دوبارہ مسجد معاویہ اسکاؤٹ کالونی بلایا اور اس دوران اس نے صالح محمد اور عرفان خان بلوچ کو ہدایت دی کہ وہ ایک اور بم تیار کریں اوراس بم کو ایک موٹر سائیکل میں نصب کریں اور اس موٹر سائیکل کے ذریعے شاہراہ فیصل پر عزاداروں کی بس کو نشانہ بناناہے اور اسی دوران ایک بم کو جناح اسپتال میں نصب کرنا ہے اور جناح اسپتال میں بم کو نصب کرنے کی ذمہ داری آصف کو دی گئی تھی،ہم نے عاشورا دھماکے کے اگلے روز ہی چہلم کو دھماکہ کرنے کی پلاننگ کر لی تھی اور اس کے بعد ہم نے چہلم کے موقع پر نرسری اور جناح اسپتال میں 2بم دھماکے کئے ،ہم نے 2010ئمیں مولانا حق نواز جھنگوی کے بیٹے اظہار الحق جھنگوی کو بھی قتل کیا کیونکہ وہ حق نواز جھنگوی کے مشن سے منحرف ہو گیا تھا اور اس کے بعد ہم نے مولانا احسان اللہ فاروقی کو قتل کیا ان کا قتل مسجد معاویہ کے تنازعہ پر ہواتھا،اس قتل کے بعد ہمارے پاس موسیٰ عابدی کے قتل کا ٹاسک تھا جو عباس ٹاؤن میں رہتا ہے لیکن ہم اپنا ٹاسک پورا نہیں کر سکے ،مجھے لشکر معاویہ میں کام کے دوران یہ معلوم ہوا کہ آصف نے وانا میں دھماکہ خیز مواد کے ذریعے بم بنانے کی خصوصی تربیت حاصل کی ہے اور اس نے یہ تربیت 2009ء میں حرکت الجہاد اسلامی کے 313بریگیڈ کے زیر انتظام لی ہے اور اس وقت اس کیمپ کا سربراہ قاری عثمان تھا۔
وفاقی تحقیقاتی اداروں کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے ناصبی دہشت گرد قاری محمد عالم خان چترالی نے مزید بتایاہے کہ اس کے کالعدم سپاہ صحابہ کے 13افراد سے خصوصی مراسم ہیں جن میں امان اللہ فاروقی،عبد الغفور ،ندیم۔نعمت اللہ بلوچ،غلام مرتضیٰ بلوچ،شعیب خان اے این پی والا،احسان اللہ ،علی شاہ،شہباز۔شعیب،بھائی سرور،عبدالرحمان ،آصف اور صالح محمد شامل ہیں،جبکہ دہشت گرد قاری محمد عالم خان چترالی نے لشکر معاویہ کے گروپ کی جو تفصیلات فراہم کی ہیں اس کے مطابق لشکر معاویہ کے امیر عبد الرحمان کی عمر 38-40ہے اور وہ پٹیل پاڑہ کا رہنے والا اردو اسپیکنگ ہے،آصف کی عمر 30-32سال ہے اور وہ لشکر معاویہ کا نائب سربراہ ہے اور بلال مسجد نزد اسکاؤٹ کالونی کے قریب رہتاہے۔صالح محمد کی عمر 30-32سال ہے وہ فارسی زبان بولتا ہے اور ہزارہ گوٹھ کا رہنے والا ہے ،عرفان بلوچ کی عمر 27-28سال ہے وہ مکرانی بلوچ ہے اور بلاک نمبر 7گلستان جوہر کا رہائشی ہے ،رشید بھائی گلگتی کی عمر 25-26سال ہے ،وسیم کی عمر 30سال ہے اور وہ سہراب گوٹھ کا رہنے والا ہے ،ناصبی دہشتگرد عالم خان چترالی نے بتایا کہ وہ 6بھائی اور 4بہنیں ہیں ،اس کابھائیوں میں چوتھا نمبر ہے اس کے دو بھائی ایک حساس ادارے میں ملازم ہیں ۔دہشت گرد نے بتایا کہ اس کے 3بچے ہیں جن میں بڑے کا نام اسامہ اور اس کی عمر 8سال ہے چھوٹے بیٹے کا نام نثار اور اس کی عمر 3سال جب کہ تیسرے بیٹے کا نام محمد ہادی اور وہ 35دن کا ہے ۔
ناصبی دہشتگرد نے بتایا کہ اس نے اپنے بڑے بیٹے کا نام اسامہ،اسامہ بن لادن کے نام پر رکھا ہے ۔ذرائع نے بتایا ہے کہ دہشت گرد کی نشاندہی پر اس کے ایک مزید ساتھی کوبھی حراست میں لیا گیا ہے تاہم اس کا نام صیغہ راز میں ہے۔واضح رہے کہ سانحہ عاشورا امام حسین علیہ السلام کے بعد سے ہی سانحہ عاشورا کی تفتیش مختلف تنازعات کا شکار رہی ،پہلے پولیس نے سانحہ عاشورا کو خود کش بم دھماکہ قرار دیا اور ایف آئی اے کی اسپیشل انوسٹی گیشن یونٹ کی جانب سے دھماکے کو پلانٹڈ قرار دئیے جانے کے بعد پشاور سے بم ڈسپوزل کی خصوصی ٹیم بلائی گئی اور اس نے ایف آئی اے کی تفتیش کی تائید کی ،جس کے بعد کراچی پولیس کے اسپیشل انوسٹی گیشن یونٹ نے دعویٰ کیا کہ سانحہ عاشورا میں کالعدم دہشت گرد گروہ جند اللہ کے دہشت گرد ملوث ہیں اور اس حوالے سے ایس آئی یو نے 4دہشت گردوں کی گرفتاری ظاہر کی جس میں بتایا گیا کہ سانحہ عاشورا میں کالعدم دہشتگرد گروہ جند اللہ کے دہشت گرد شکیب فاروقی،مرتضیٰ عنایت عرف شکیل،وزیر محمد اور مراد شاہملوث ہیں اور اس حوالے سے اس وقت کے سی سی پی او وسیم احمد نے پریس کانفرنس میں دہشت گردوں کی گرفتاری ظاہر کی تھی ،لیکن بعد ازاں وہ دہشت گرد احاطہ عدالت سے فرار ہو گئے تھے۔واضح رہے کہ دہشت گردوں کو احاطہ عدالت سے فرار کروانے میں دہشت گردوں کا ساتھی مراد شاہ سٹی کورٹ میں ہی اپنا گرنیڈ پھٹ جانے سے ہی ہلاک ہو گیا تھا جبکہ دیگر دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔بعض تفتیشی ادارے دہشتگردوں کے فرار کو انتہائی شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں تاہم دہشت گرد عالم خان کی گرفتاری کے بعد سانحہ عاشورا کیس میں پیش رفت ہوتی نظر آ رہی ہے ،امید ہے کہ دہشت گرد عالم خان چترالی کی گرفتاری کا اعلان سی آئی ڈی حکام پریس کانفرنس کے ذریعے کریں گے ،انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق بعض پولیس افسران کا دباؤ ہے کہ دہشت گرد عالم خان چترالی کو کالعدم جنداللہ کا چھوٹا گروپ قرار دیا جائے تا کہ ماضی میں ان کی ظاہر کردہ تفتیش کی عزت بھی بچ سکے،ایس آئی یو افسران دہشت گرد عالم خان کی گرفتاری ظاہر کرنے اور اسے اپنی تحویل میں لینے کی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button