پاکستان

ٹل پارہ چنار روڈ چار برس کے بعد عام ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا

Parachinar-shia۔گرینڈ قبائلی جرگہ کے فیصلے کے بعد ٹل پارہ چنار روڈ عام ٹریفک کیلئے کھول دیا گیا،گرینڈ قبائلی جرگے کے ارکان بذریعہ روڈ پشاور سے سینکڑوں مسافروں کے ہمراہ پارہ چنار پہنچ گئے۔ پارہ چنار اور صدہ میں جشن کا سماں قبائل کا شیعہ سنی اتحاد زندہ باد کے نعرے۔ تفصیلات کے مطابق گرینڈ قبائلی جرگہ فیصلہ کے مطابق ٹل پارہ چنار روڈ سمیت کرم ایجنسی میں بند تمام آمدو رفت کے راستے چار سال بعد دوبارہ کھول دئیے گئے۔ گرنیڈ قبائلی جرگے کے ارکان سینکڑوں مسافروں کے ہمراہ پشاور سے پارہ چنار کیلئے روانہ ہوئے۔ تو انکے استقبال کیلئے جگہ جگہ استقبالیہ دروازے بنائے گئے تھے۔ قبائلی جرگے کے ارکان صدہ اور پارہ چنار پہنچنے پر قبائل نے ان کا شاندار استقبال کیا ور جرگہ ممبران پر پھول کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔
جنگ نیوز کے مطابق کرم ایجنسی میں 4 سال سے جاری بدامنی کے خلاف امن جرگوں کی مسلسل کوششوں کے بعد آمد و رفت کے لئے راستے کھول دیئے گئے ہیں۔ کرم ایجنسی پشاور مرکزی شاہراہ آمد و رفت کے لئے کھلنے کے بعد امن جرگے کے ارکان پشاور اور دیگر علاقوں میں پھنسے ہوئے سیکڑوں افراد کے ساتھ کرم ایجنسی پہنچے۔ قبائل نے انہیں پھولوں کے ہار پہنا کر شاندار استقبال کیا۔ قبائلیوں نے شاہراہ کھلنے کی خوشی میں ڈھول کی تھاپ پر رقص بھی کیا۔ اس موقع پر کرم ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ سید مصدق شاہ کا کہنا تھا کہ علاقے میں پائیدار امن کے قیام کے لئے مزید اقدامات کئے جائیں گے۔

ٹل پاراچنار روڈ پر "چارسال محاصرے کے بعد” ٹریفک کھول دیا گیا؛ جشن کا سماں / طالبان کی طرف سے بھی معاہدے کی حمای

ٹل پاراچنار روڈ 4 سال بعد عام ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا، گرینڈ جرگے کی ارکان سینکڑوں مسافروں کے ہمراہ پاراچنار پہنچ گئے ہیں۔

  رپورٹ کے مطابق گرینڈ قبائلی جرگہ فیصلے کے مطابق ٹل پاراچنار سمیت کرم ایجنسی میں بند تمام راستے چار سال بعد دوربارہ کھول دیئے گئے۔

گرینڈ قبائلی جرگے کے ارکان سینکڑوں مسافروں کے ہمراہ پیشارور سے پاراچنار کے لئے روانہ ہوئے تو جگہ جگہ ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ ارکان کا صدہ اور پاراچنار پہنچنے پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے استقبال کیا گیا اور اس موقع پر علاقے کے شیعیان اہل بیت (ع) کے مشہور نعرے "شیعہ سنی اتحاد زندہ باد” اور "شیعہ سنی بھائی بھائی” سننے میں آئے۔ جرگہ ممبران اور پولیٹیکل ایجنٹ کرم کے حق میں بھی نعرے لگائے گئے۔
قبائلی جرگے کے ارکان رات آٹھ بجے پاراچنار پہنچے تو وہاں جشن کا سماں تھا۔ لوگ خوشی سے سڑکوں پر نکل آئے۔ چار سال سے محصور عوام کا جذبہ قابل دید تھا۔
قبائلی جرگے کے سربراہ ملک وارث خان آفریدی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آج خوشی کا دن ہے کہ کرم ایجنسی کے عوام آپس میں گھل مل گئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کرم ایجنسی میں مستقل بنیادوں پر قیام امن، بیدخل افراد کی بحالی اور متأثرین کو مالی امداد کی ادائیگی کے لئے فریقین اور جرگہ ممبران کی کمیٹی بنائی جائے گی اور فریقین کے تعاون سے کرم ایجنسی کو ایک بار پھر امن کا گہوارہ بنایا جائے گا۔
پولیٹیکل ایجنٹ سید مصدق شاہ نے بھی کہا کہ کرم ایجنسی میں آمد و رفت کے لئے تمام راستے کھول دیئے گئے ہیں اور معاہدے کی کامیابی میں کرم ایجنسی کے تمام فریقون کا تعاون قابل تعریف ہے۔
طالبان کا کرم امن معاہدے کا خیرمقدم، خلاف ورزی پر شرعی سزا دینے کا اعلان / خدشے اور اندیشے
تحریک طالبان پاکستان کرم ایجنسی نے کرم ایجنسی میں مخالف گروہوں کے درمیان امن معاہدے کو سراہا ہے اور اعلان کیا ہے کہ اگر اہل سنت نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو ان کو شریعت محمدی (ص) کے تحت سزا دی جائے گی۔
کرم ایجنسی کی تحریک طالبان کا سربراہ کھلوانے والے فضل سعید نے وسطی کرم میں کسی نامعلوم مقام پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرم ایجنسی میں اہل سنت و الجماعت کے 6 قبائل اورطالبان اسلام آباد میں طے پانے والے معاہدے کی پاسداری کریں گے اور کسی کو بھی یہ معاہدہ سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
سعید نی کہا کہ اسلام میں معاہدہ توڑنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
طالبان کمانڈر نے گذشتہ چاربرسوں کے دوران بار بار معاہدے توڑنے اور سڑکوں میں نہتے مسافروں کے قتل عام اور عورتوں اور بچوں تک کو قتل کرنے کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا اور یہ نہیں بتایا کہ یہ سب کچھ کیا شریعت کے مطابق جائز تھا؟ اگر جائز نہ تھا تو جوابدہ کون ہے؟ اور اگر جائز تھا تو نئے معاہدے کی عدم خلاف ورزی کی ضمانت کیونکر دی جاسکتی ہے اور نامعلوم مقام پر بیٹھے نامعلوم شخص کی بات پر اعتماد کیونکر کیا جاسکے گا؟
سعید نے کہا کہ اگر مخالف فریق نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور حکومت اور جرگہ ممبران نے پندرہ دن تک اقدام نہ کیا تو طالبان بدلہ لیں گے۔ لیکن اس نے خلاف ورزی کی نوعیت نہیں بتائی اور یہ بھی نہیں بتایا کہ کیا اس سے پہلے کبھی اہل تشیع نے کسی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے؟ اس نے یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ کس بنیاد پر اہل سنت کے چھ قبائل کا نمائندہ بن کر موقف کا اعلان کر رہا ہے؟
بہر صورت طالبان کمانڈر نے اہل تشیع سے کہا ہے کہ انہیں سڑک پر تحفظ حاصل رہے گا۔
علاقے کے عوام نے گذشتہ چار برسوں کے دوران مختلف قسم کے تجربات حاصل کئے ہیں اور اگرچہ عوام میں سے بعض لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے لیکن خدشات بدستور باقی ہیں.
خدشات:
پہلا خدشہ:
امن معاہدے کا شیعہ اور سنی عوام نے خیرمقدم کیا ہے لیکن طالبان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔ تا ہم طالبان کے ایک کمانڈر نے یقین دہانی کرائی ہے تو شاید اندیشہ ظاہر کرنے والے بعض افراد مطمئن ہوگئے ہوں لیکن خدشہ اب بھی یہ موجود ہے کہ شاید یہ شخص طالبان کے تمام گروہوں کا نمائندہ نہ ہو اور طالبان کے دوسرے گروہ اس کی اس بات سے متفق نہ ہوں۔
یادرہے کہ طالبان کے متعدد ٹولے ہیں اور ہر ٹولہ کسی ایک ملک سے وابستہ ہے اور چونکہ افغانستان پر قابض بیرونی قوتیں پاراچنار میں امن کے قیام سے خطرہ محسوس کرتے ہیں چنانچہ یہ امکان پوری قوت کے ساتھ موجود ہے کہ امریکہ اور نیٹو سے وابستہ طالبان ایک بار پھر سڑک پر رہزنی کرکے اس معاہدے کو سبوتاژ کریں اور کرم کا ممکنہ امن ایک بار پھر غارت ہوجائے۔
دوسرا خدشہ:
دوسری بات یہ ہے کہ کرم ایجنسی سنی اور شیعہ قبائل کا مشترکہ گھر ہے اور دونوں فریق سینکڑوں برسوں سے اس سرزمین پر مل کر رہ رہے ہیں اور جب بھی کوئی تیسرا فریق ـ افغان مجاہدین، عرب دہشت گردوں یا طالبان کی صورت میں ـ اس علاقے میں مداخلت کرنے آیا ہے علاقے کا امن نیست و نابود ہوگیا ہے اور اگر طالبان ـ جن کا تعلق اس علاقے سے نہیں ہے اور دوسرے علاقوں سے یہاں آتے ہیں اور امن کی بنا پر ممکن ہے کہ خیبر ایجنسی، اورکزئی ایجنسی اور وزیرستان سے مزید طالبان بھی حکومت کے حملوں سے بچنے کے لئے اس علاقے کا رخ کریں  اور ـ ایک بار پھر علاقے کو اپنی جولانگاہ بنانا چاہیں تو ممکن ہے کہ امن کا نیا معاہدہ بھی چند ہی روز کا مہمان بن کر رخصت ہوجائے۔
تیسرا خدشہ:
اگر گہری اور غائرانہ نگاہ سے طالبان کی طرف سے معاہدے کی حمایت کی طرف دیکھا جائے تو یہ حمایت اندیشوں میں کمی کی بجائے ان میں اضافہ بھی کرتی ہے کیونکہ علاقے کے عوام کی خواہش تھی کہ صلح و مصالحت علاقے کے مقامی لوگوں کے درمیان طے پائے کیونکہ صرف اسی صورت میں پائیدار امن کی ضمانت دی جاسکے گی اور سب کی یہی خواہش تھی کہ طالبان کو کرم ایجنسی کے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔
چوتھا خدشہ:
چوتھی بات یہ ہے کہ کرم ایجنسی کے عوام کو ملیشیا کمانڈنٹ کرنل توصیف سے بھی بڑی شکایتیں ہیں لیکن معاہدے کے سلسلے میں آنی والی خبروں کے ضمن میں ان کے تبادلے یا برطرفی کی کوئی خبر نہیں ملی جو ایک تشویشناک بات ہے اور ان کی طرف سے معاہدہ امن کے سبوتاژ ہونے کا امکان پوری قوت سے باقی ہے کیونکہ وہ پاکستانی فوج کا سپاہی ہونے کے باوجود کس قوت سے ہدایات لے رہا ہے، اس کا کسی کو کوئی علم نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button