پاکستان

دہشت گردوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے 6 شیعہ طلبہ مذاکرات کے ذریعے بازیاب

Parachinar-pak کرم ایجنسی میں لوئر کرم کے علاقے چار سے 17 جولائی کو دہشت گردوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے 6 شیعہ طلبہ کو جرگے میں مذاکرات کے بعد بازیاب کرالیا گیا / بالفطرہ مجرمین نے اس دن زخمی خواتین کو کلہاڑیاں مار مار کر ٹکڑے ٹکڑے کرکے شہید کردیا تھا۔
طوری بنگش قبائل کے نمائندے کیپٹن یوسف نے ذرائع انلاغ کو بتایا کہ 17 جولائی کو پاراچنار سے پشاور جانے والے سرکاری قافلے میں شامل مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد نے حملہ کیا تھا۔
اس حملے میں 7 خواتین سمیت 18 افراد شہید اور متعددزخمی ہوگئے تھے۔ دین اور قبائلی روایات کی پاسبانی کے دعویدار بالفطرہ مجرمین نے اس دن زخمی خواتین کو لکڑیاں اور کلہاڑیاں مار مار کر ٹکڑے ٹکڑے کرکے شہید کردیا تھا اور درندہ صفت دہشت گرد دوسگے بھائیوں سمیت6 طلبہ کو اغوا کرکے  اپنے ساتھ لے گئے تھے جن کی بازیابی کے لئے جرگہ ممبران اور قبائلی عمائدین نے مذاکرات کئے اور کامیاب مذاکرات کے بعد مغوی طلبہ کو اتوار کے روز بازیاب کرالیا گیا۔
اس رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ دہشت گردوں نے شیعہ طلبہ کی رہائی کے بدلے کتنا تاوان وصول کیا ہے۔
یاد رہے کہ طلبا کی بازیابی مین حکومت کا کردار "دلالی” کی حد تک تها اور اس نے "اغوا کنندگان” اور پاراچنار کے شیعہ فبائل کے درمیان مذاکرات کرائے اور "حکومت کہلوانے کے باوجود گذشتہ چار مہینوں کے دوران مغوی طلبہ کی بازیابی کے لئے از خود کوئی اقدام نہیں کیا۔
طوری اور بنگش قبائل کے نمائندے نے کہا ہے کہ مغوی طلبہ کی بازیابی امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کی پہلی کڑی ہے اور امن معاہدہ مری پر عمل کرانے اور کرم ایجنسی پشاور مین شاہراہ کھولنے کے لئے بھی ٹھوس اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔
واضح رہے کہ شیعہ راہنماؤں نے اس سے قبل طالبان دہشت گردوں کے ساتھ صلح صفائی کے حوالے سے بات چیت کرنے کی سرکاری تجویز مسترد کردی ہے جبکہ اس سے قبل ہونے والے مذاکرات میں حکومت علاقے کے سنی عمائدین کی بجائے طالبان کو شیعیان پاراچنار کا فریق ثانی قرار دیتی رہی ہے۔
شیعہ عمائدین کا طالبان دہشت گردون کے ساتھ مذاکرات سے انکار کا فلسفہ یہی ہے کہ علاقے کے عوام کا ان سنی قبائل سے سامنا ہے جو طالبان کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں اور طالبان حکومت کی دعوت پر علاقے کے پر امن سنی قبائل کے نمائندے بن کر شیعہ راہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کے لئے آتے ہیں اور وہ سنی قبائل کے مفادات اور علاقے میں سنی شیعہ قبائل کے درمیان امن و آشتی کی بحالی کی بجائے اپنے مفادات اور افغانستان تک رسائی جیسے موضوعات پر بات کرتے ہیں اور نتیجہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ معاہدہ توڑ دیا جاتا ہے اور جنگ نئے سرے سے چھڑ جاتی ہے اور دیرپا امن کا خواب چکناچور ہوجاتا ہے۔ البتہ یہ جنگ شیعہ مسافرین پر دہشت گردانہ حملوں اور اغوا برائے تاوان کی صورت میں ہوتی ہے اور حکومت عوام کو امن فراہم کرنے کے سلسلے میں اپنے آپ کو ذمہ دار نہیں سمجھتی بہر حال شیعہ عوام کا اصل مطالبہ یہ ہے کہ حکومت علاقے کے سنی بنگش، پاڑہ اور دیگر قبائل کے ساتھ شیعہ قبائل کے براہ راست مذ اکرات کا بندوبست کرے تا کہ علاقے میں امن قائم ہوسکے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button