پاکستان

مولانا حسن ترابی کیس میں تین دہشت گردوں کو سزائے موت، تین کوعمر قید

allama-hassan-turabiانسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے آج مولانا حسن ترابی شہید کیس میں تین کالعدم تنظیم کے دہشت گردوں کو سزائے مو ت جبکہ تین کو عمر قید کے ساتھ ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنا دی۔
شیعت نیور کے نمائندے کے مطابق مولانا حسن ترابی شہید کو کالعدم دہشت گروں اُس وقت اپنی دہشت گردی خود کش حملہ کا نشانہ بنایا تھاجب مولانا حسن ترابی اور اُن کے بھتیجے علی عمران امریکہ و اسرائیل مخالف ریلی سے واپس اپنے گھر آئے تھے۔ واضح رہے شہادت سے پہلے بھی مولانا حسن ترابی  شہید پر  کافی حملے ہوچکے تھے جس کی اف۔آی۔آر متعلقہ تھانے میں درج تھی اور پولیس نے مولانا حسن ترابی شہید کیس میں کالعدم دہشت گرد تنظم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں سلطان محمد،محمد امین،رحمٰن ،اکبر خان،،رحیم اللہ،اور اشفا ق کو گرفتار کر لیا تھا جس کا فیصلہ آج فاضل عدالت نے سناتے ہوئے کالعدم تنظیم تین دہشت گرد سلطان محمد ،محمد امین،رحمٰن کو سزائے موت جبکہ اکبر خان ،رحیم اللہ اور اشفاق کو عمر قید کے ساتھ ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔
واضح رہے کے شہید مولانا حسن ترابی اتحاد بین المسلمین کے دائی تھے ۔شہید مولانا حسن ترابی متحدہ مجلس عمل کے نائب صدر اور تحریک جعفریہ سندھ کے نائب صدر تھے۔
علامہ ترابی قتل: تین ملزمان گرفتار
پاکستان کے جنوبی شہر کراچی میں پولیس نے شیعہ عالم حسن ترابی کے قتل میں ملوث تین ملزموں کو گرفتار کرکے خودکش بمبار کی سی ڈی برآمد کرنے کی دعویٰ کیا ہے ۔
سندھ پولیس کے سربراہ جہانگیر مرزا نے منگل کی شام ایک اخباری کانفرنس کو بتایا کہ کراچی کے علاقے لانڈھی میں اولڈ مظفر کالونی کے ایک مکان سے ملزمان کی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔
ان کی شناخت محمد امین عرف شاہین عرف عبداللہ، سلطان محمود عرف سیف اللہ عرف مسلم اور محمد رحمان عرف مانی کے نام سے کی گئی ہے۔
پولیس سربراہ کے مطابق ابتدائی تفتیش میں ملزمان نے علامہ حسن ترابی پر خود کش حملے کے اعتراف سمیت خودکش بمبار کی شناخت بنگالی نژاد عبدالکریم عرف محمد کریم عرف قاسم ولد چاند میاں کے نام سے کی ہے جو کراچی کے فیڈرل بی ایریا کا رہائشی تھا۔
پولیس نے ملزمان سے پچیس کلوگرام پوٹاشیم کلورائیڈ، ایک کلوگرام دھماکہ خیز مواد، دو دستی بم، ایک ریوالور اور دو ٹی ٹی پستول برآمد کئے ہیں۔
آئی جی نے بتایا کہ جس گھر سے گرفتاریاں عمل میں آئیں وہ ملزم امین کا ہے۔ اس مکان سے ایک کمپیوٹر، ایک ویڈیو کیمرہ اور دو سی ڈیز بھی برآمد ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک سی ڈی میں حملہ آور کا بیان بھی ریکارڈ ہے۔
ئی جی نے بتایا کہ ملزمان کا تعلق کچھ کالعدم جہادی تنظیموں سے الگ ہونے والے انتہا پسندوں سے ہے جو ملک دشمن اور فرقہ ورایت کی طرف مائل ہیں۔
پولیس کے مطابق یہ گروہ اس سے قبل بھی علامہ حسن ترابی پر ہونے والے حملے میں ملوث تھا۔
مبینہ خودکش بمبار کی سی ڈی میں ایک نوجوان کو دکھایا گیا ہےجس نے خودکش بمبار کی جیکٹ پہن رکھی ہے۔ اس نے ایک ہاتھ میں پستول پکڑ رکھی ہے جبکہ وہ دوسرے ہاتھ کو ہلا ہلا کر بات کر رہا ہے۔ اس نے سر پر لال رومال باندھ رکھا ہے۔
مبینہ بمبار اپنے والدین کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہے کہ ’میں کفار کے سردار کو مارنے جارہا ہوں میں جنت میں جاؤں گا اور سب کو جنت میں لے جاؤں گا۔ یہ بہت افضل کام ہے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کسی کو دکھانا نہیں ہے اور کسی سے بات نہیں کرنی ہے اگر کوئی پوچھے تو بتانا کے فیصل آباد گیا ہوا ہے۔’
اس نے اپنے والدین کو ہدایت کی ہے کہ اگر یہ کسی نے دیکھ لیا تو وہ لوگ مصیبت میں آجائیں گے۔
مبینہ بمبار نے اپنے بھائیوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ صحیح طرح سے کام کریں اور والدین کا خیال رکھیں۔
آئی جی کے مطابق نوجوان بمبار کم عمر ہے اس لئے اس کا شناختی کارڈ نہیں بنا ہوا تھا اور وہ حافظِ قرآن بننا چاہتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ مبینہ بمبار کی ماں کو پولیس نے حراست میں لیا تھا تاکہ ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے اس کے خون کے نمونے حاصل کیئے جائیں۔

آیٔ جی سندھ کی علامہ حسن ترابی شہید کے قاتلوں کی گرفتاری پر پریس کانفرنس : تین ملزمان گرفتار
پاکستان کے جنوبی شہر کراچی میں پولیس نے شیعہ عالم حسن ترابی کے قتل میں ملوث تین ملزموں کو گرفتار کرکے خودکش بمبار کی سی ڈی برآمد کرنے کی دعویٰ کیا ہے ۔سندھ پولیس کے سربراہ جہانگیر مرزا نے منگل کی شام ایک اخباری کانفرنس کو بتایا کہ کراچی کے علاقے لانڈھی میں اولڈ مظفر کالونی کے ایک مکان سے ملزمان کی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔
ان کی شناخت محمد امین عرف شاہین عرف عبداللہ، سلطان محمود عرف سیف اللہ عرف مسلم اور محمد رحمان عرف مانی کے نام سے کی گئی ہے۔
پولیس سربراہ کے مطابق ابتدائی تفتیش میں ملزمان نے علامہ حسن ترابی پر خود کش حملے کے اعتراف سمیت خودکش بمبار کی شناخت بنگالی نژاد عبدالکریم عرف محمد کریم عرف قاسم ولد چاند میاں کے نام سے کی ہے جو کراچی کے فیڈرل بی ایریا کا رہائشی تھا۔
پولیس نے ملزمان سے پچیس کلوگرام پوٹاشیم کلورائیڈ، ایک کلوگرام دھماکہ خیز مواد، دو دستی بم، ایک ریوالور اور دو ٹی ٹی پستول برآمد کئے ہیں۔
آئی جی نے بتایا کہ جس گھر سے گرفتاریاں عمل میں آئیں وہ ملزم امین کا ہے۔ اس مکان سے ایک کمپیوٹر، ایک ویڈیو کیمرہ اور دو سی ڈیز بھی برآمد ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک سی ڈی میں حملہ آور کا بیان بھی ریکارڈ ہے۔
ئی جی نے بتایا کہ ملزمان کا تعلق کچھ کالعدم جہادی تنظیموں سے الگ ہونے والے انتہا پسندوں سے ہے جو ملک دشمن اور فرقہ ورایت کی طرف مائل ہیں۔پولیس کے مطابق یہ گروہ اس سے قبل بھی علامہ حسن ترابی پر ہونے والے حملے میں ملوث تھا۔
مبینہ خودکش بمبار کی سی ڈی میں ایک نوجوان کو دکھایا گیا ہےجس نے خودکش بمبار کی جیکٹ پہن رکھی ہے۔ اس نے ایک ہاتھ میں پستول پکڑ رکھی ہے جبکہ وہ دوسرے ہاتھ کو ہلا ہلا کر بات کر رہا ہے۔ اس نے سر پر لال رومال باندھ رکھا ہے۔
مبینہ بمبار اپنے والدین کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہے کہ ’میں کفار کے سردار کو مارنے جارہا ہوں میں جنت میں جاؤں گا اور سب کو جنت میں لے جاؤں گا۔ یہ بہت افضل کام ہے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کسی کو دکھانا نہیں ہے اور کسی سے بات نہیں کرنی ہے اگر کوئی پوچھے تو بتانا کے فیصل آباد گیا ہوا ہے۔’
اس نے اپنے والدین کو ہدایت کی ہے کہ اگر یہ کسی نے دیکھ لیا تو وہ لوگ مصیبت میں آجائیں گے۔
مبینہ بمبار نے اپنے بھائیوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ صحیح طرح سے کام کریں اور والدین کا خیال رکھیں۔
آئی جی کے مطابق نوجوان بمبار کم عمر ہے اس لئے اس کا شناختی کارڈ نہیں بنا ہوا تھا اور وہ حافظِ قرآن بننا چاہتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ مبینہ بمبار کی ماں کو پولیس نے حراست میں لیا تھا تاکہ ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے اس کے خون کے نمونے حاصل کیئے جائیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button