لبنان

حقائق مان لو شام کی شکست کی توقع نہ رکھو/ سیدحسن نصراللہ کا آل سعود کو مشورہ

hasan nasrullaرپورٹ کے مطابق سید حسن نصر اللہ نے سعودی حکمرانوں کو خبردار کیا کہ موقع سے فائدہ اٹھائیں اور شام کو مزید تباہی سے دوچار کرنے سے باز رہے۔ انھوں نے لبنان میں سعودی حمایت یافتہ دھڑے 14 مارچ گروپ کو بھی مشورہ دیا کہ حکومت شام کا تختہ الٹنے کا انتظار نہ کرے اور لبنان میں سبوتاژ کی کوششوں سے باز آئے۔
سید حسن نصر اللہ نے "شفاخانہ رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ” کی تاسیس کی سالگرہ کے موقع پر اپنے نشری خطاب میں کہا:
٭ سعودی عرب شام میں اپنے مقاصد میں ناکامی کی وجہ سے سیخ پا ہے؛
٭ جن ممالک نے شام کے نظام حکومت کو سرنگوں کرنے کی کوشش کی انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور شام کے نظام حکومت کی شکست و ریخت کی خوشی منانے والوں کی خوش فہمیاں دھری کی دھری رہ گئیں؛
٭ جو لوگ شام کے مسئلے کا سیاسی حل چاہتے ہیں اگر سچے ہیں تو انہیں یہ کام انجام دینا چاہئے اور او آئی سی اور عرب لیگ کو اس راہ میں موجود رکاوٹیں ہٹادینی چاہئیں؛
٭ شام کے مسئلے کے سیاسی حل کے مخالفین مذاکرات کے لئے فراہم کردہ موقع سے فائدہ اٹھائیں تو یہی ان کے لئے بہتر ہے۔ پورے خطے کو ایک ملک کے غصے کی بنا پر تناؤ کی حالت میں نہيں رکھا جاسکتا؛ مسلح گروپوں کی جدائیوں اور تنازعات کا مقصد بحران کے حل کا راستہ روکنا ہے جبکہ مسئلہ حل کرنے میں رکاوٹیں ڈالنے کا مفہوم یہ ہے کہ جھڑپیں جاری رہیں، زیادہ سے زیادہ بےگناہ افراد موت کے بھینٹ چڑھیں، زیادہ سے زيادہ خرابی اور ویرانی شام پر مسلط ہو اور اس کے پڑوسی ممالک کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔
٭ جس محاذ کا پورا مقصد ہی شام کا نظام حکومت گرانا تھا اس نے سب کچھ کرکے دکھایا لیکن ناکام ہوا چنانچہ اب سیخ پا ہے اور اس مسئلے کے سیاسی حل کا راستہ روکنے پر پر تلا ہوا ہے۔
٭ جنیوا 2 کانفرنس شام کے بحران سے متاثر ہونے والے ممالک و اقوام کے لئے راستہ کھول دے گی اور شام کے بحران کے سیاسی حل پر مثبت اثرات مرتب کرے گی۔ شام کے بحران کو حل کرنے کے لئے سیاسی مذاکرات اور سیاسی راہ حل کو اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی حمایت حاصل ہے۔
٭ دنیا اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ اب وہ سمجھ چکی ہے کہ شام کے بحران کا کوئی عسکری حل نہیں ہے اور واحد راہ حل سیاسی ہے اور سیاسی راہ حل کی شرط بھی یہ ہے کہ غیر مشروط مذاکرات کا سہارا لیا جائے۔
٭ جنگ کے میدان میں صورت حال شام کی فوج اور عوامی فورسز کے حق میں ہے وہی عوامی فورسزے جو سرکاری افواج کے دوش بدوش لڑ رہے ہیں۔
٭ پوری دنیا شام کے مخالفین کو متحد کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن انہیں متحد نہيں کرپا رہی ہے۔
تفصیل:
* لبنانی مغویوں کی رہائی اور مشابہ موضوعات حل کرنے کی ضرورت
المنار، المیادین اور ایران کے "شبکہ خبر” چینلز سے براہ راست نشر ہونے والی تقریر میں سید حسن نصراللہ نے لبنانی مغویوں کی رہائی میں کردار ادا کرنے والے ممالک کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ اسی طرح کے دوسرے مسائل بھی حل کئے جائیں اور اسیروں کی رہائی اور اپنے گھروں کو لوٹنے کا امکان فراہم کیا جائے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا:
اس موضوع سے قطع نظر، کہ یہ اسیر اغوا کئے گئے ہیں یا کسی اور روش سے اسیری کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، ہمیں امید ہے کہ ان کے موضوع پر بھی کامی کیا جائے کیونکہ مذمت کرنے اور اعلامئے جاری کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور ہمیں عملی اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔
مجھے یاد ہے کہ اسی طرح کے ایک موضوع پر ہم نے بعض اداروں اور افراد نیز اس وقت کی اراکین حکومت سے مذاکرات کئے لیکن بعض لوگوں کی تخریبی کوششوں کی وجہ سے کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوا حالانکہ اس طرح کے موضوعات انسانی حوالے سے قابل قدر ہیں اور واضح ہونا چاہئے کہ یہ لبنانی جو اغوا یا اسیر کئے گئے ہیں یا کسی بھی وجہ سے گرفتار ہوئے ہیں، کس حال میں ہیں؟ کیونکہ سیاسی و غیر سیاسی مسائل ہمارے اسیر شہریوں کا حال معلوم کرنے کی ذمہ داری کا ازالہ نہیں کرتے۔
جب مسافروں سے بھرا ایک بحری جہاز مختلف علاقوں میں ڈوب جاتا ہے ـ انڈونیشیا کے واقعے کی مانند ـ تو وہ ہمارے لئے اہم ہوتا ہے کہ ہم جان لیں کہ کیا ڈوبنے والے افراد کے درمیان ہمارے لبنانی ہم وطن یا حتی کہ فلسطینی باشندے ہیں جنہيں ہم وہاں سے وطن لوٹا دیں یا نہيں؟ ایسے کئی افراد ہیں جنہيں برسوں قبل سعد حداد اور آنتوان لحد نے اغوا کیا ہے اور ان کا انجام نامعلوم ہے اور اور ہمیں اب تحقیق کرکے جان لینا چآہغے کہ ان افراد کے ساتھ کیا برتاؤ رکھا گیا ہے اور وہ کہاں ہیں؟
تقریبا 8000 لبنانیوں، فلسطینیوں اور شامیوں کو اس طرح کی صورت حال کا سامنا ہے اور ایران کے چار سفارتکار ـ جنہیں برسوں قبل اغوا کیا گیا ہے ـ ایسی ہی صورت حال سے گذر رہے ہیں اور ان سب کا حال معلوم کرنے کی ذمہ داری صرف اسلامی مزاحمت تحریک پر عائد نہیں ہوتی بلکہ دوسروں کو بھی اس سلسلے میں مدد کرنی چاہئے۔
سابق وزیر اعظم سلیم الحصّ کی حکومت کے زمانے میں ایک کیس کا جائزہ لیا گیا لیکن نتیجہ خیز نہ تھا۔ بقاع کے علاقے سے اغوا کئے جانے والے شامی اور لبنانی بھائیوں کی صورت حال واضح کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے صبرو تحمل اور کیاست و درایت کی ضرورت ہے اور ہمیں اس سلسلے میں کوشش کرنی چاہئے۔
٭ امام مزاحمت کی قسمت کا تعین کیا جانا چاہئے
جن مسائل کی طرف میں نے اشارہ کیا ان کے ساتھ ساتھ ایک بہت اہم اور حساس مسئلہ ہے جو لبنانیوں کی ایک بڑی تعداد کی فکرمندی کا سبب بنا ہوا ہے۔ جب ہمارے قیدی صہیونی ریاست کے اذیتکدوں سے رہا ہو کر واپس آرہے تھے، اور میں ان کی واپسی کے مناظر دیکھ رہا تھا، مجھے بھی تمام لبنانیوں کی طرح بہت اچھا محسوس ہورہا تھا اور آرزو کررہا تھا کہ اس مسئلے کا انجام بھی کچھ ایسا ہی ہو۔ جس کیس کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے وہ امام موسی صدر کی گمشدگی کا کیس ہے۔ میں امام مزاحمت کی بات کررہا ہوں۔ میں غربت و محرومیت کے خلاف جدوجہد اور صہیونی ریاست کے خلاف جدوجہد کے امام کی بات کررہا ہوں۔ ان کے کیس کی پیروی کی جانی چاہئے۔ اس کیس کا تعلق صرف تحریک مزاحمت یا کسی ایک فرقے یا گروہ اور جماعت کا مسئلہ نہيں ہے بلکہ پورے لبنان کا مسئلہ ہے۔ دوہری کوششوں کی ضرورت ہے اور اس کیس کے بوجھ کا کچھ حصہ حکومت کے کندھوں پر ہونا چاہئے۔ یہ مسئلہ ایک قومی مسئلہ ہے اور صرف اہل تشیع کا مسئلہ نہیں ہے۔
ہم نے گذشتہ کئی مہینوں سے لیبیا کی نئی حکومت سے بھی درخواست کی وہ زیادہ سے زیادہ کوشش کریں تا کہ امام موسی صدر کا مسئلہ واضح ہوجائے۔ اس سلسلے میں دو افراد ہیں جو جیل میں بند ہیں؛ عبداللہ سنوسی اور موسی کوسا۔ یہ دو افراد قذافی حکومت کے سیکورٹی حکام میں شمار ہوتے ہیں اور امام موسی صدر کے اغوا اور گمشدگی کے بارے میں مفید معلومات دے سکتے ہیں۔ یہاں لیبیائی حکومت اور سیاسی مسائل کا موضوع نہیں ہے بلکہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور علاقائی بحرانوں جیسے مسائل کی وجہ سے فراموشی کے سپرد نہیں ہونا چاہئے۔
٭ حکومت اغوا کنندگان کا سراغ لگائے
حلب کے شہر اعزاز میں لبنانی مغویوں کی رہائی کے مسئلے کی تفصیلات آپ کو معلوم ہیں۔ ہم نے اسی دن سے اپنی کوششوں کا آغاز کیا جب اعزاز میں ہمارے ہم وطنوں کو اغوا کیا گیا اور الحمد للہ کہ ہم نے ان کی آزادی کو دیکھ لیا۔ البتہ مجھے کہنا چاہئے کہ ہمیں آج بھی معلوم نہيں ہے کہ کس تنظیم نے انہیں اغوا کیا تھا اور اغوا کنندگان کا تعلق کن ممالک سے تھا۔ ہمارے لئے یہ مسئلہ اہم نہیں تھا بلکہ اہم بات یہ تھی کہ ان افراد کی جانوں کا تحفظ ہو۔
میں لبنان کی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس مسئلے کے مختلف پہلؤوں کا جائزہ لے اور تحقیقات کرے تا کہ واضح ہوجائے کہ کون لوگ ان افراد کے اغوا کاروں کی حمایت کررہے تھے اور کون سے ممالک ان کی حمایت کررہے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہو۔ ہم کسی پر الزام نہيں لگانا چاہتے لیکن لبنانی عوام اور مغوی افراد کے خاندانوں کو یہ جاننے کی بجا توقع ہے کہ کہ یہ کام کن لوگوں نے کیا اور لبنان کے اندر سے کن لوگوں نے ان لوگوں کی رہائی کو ملتوی کرایا۔ بعض نقاب ہیں جنہیں ہٹنا چاہئے۔
٭ حکومت شام کے زوال کا انتظار نہ کرو
شام کے مسئلے نے خطے اور لبنان پر کافی اثرات مرتب کئے ہیں اور کررہا ہے اور شام کا مسئلہ لبنان میں سیکورٹی، انسانی، معاشی اور سماجی شعبوں کو بلا واسطہ طور پر متاثر کئے ہوئے ہے۔ لبنان میں کچھ لوگ ہیں جو منتظر ہیں اور دیکھنا چاہتے ہیں کہ شام کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور ان لوگوں نے تمام مسائل کو شام کے مسئلے سے جوڑا ہوا ہے۔ وہ یہ دیکھنے کا انتظار کررہے ہیں کہ کیا شام کی حکومت گرتی ہے، اور حتی بعض لوگ تو ایسے واقعے کی آرزو کررہے ہیں تاکہ ان کے وہم کے مطابق محاذ مزآحمت کمزور پڑ جائے اور ان کو موقع فراہم کیا جائے۔
انھوں بار بار ہم پر الزام لگایا ہم نے لبنان میں سیاسی عمل میں خلل ڈالا ہوا ہے لیکن لبنانی عوام حقائق کو جانتے ہيں۔ وہ جانتے ہں کہ کن لوگوں نے پارلیمانی عمل کو معطل کررکھا ہے اور کس دھڑے نے حکومت کی تشکیل کے عمل میں خلل ڈالا ہوا ہے؟ ہم نے بار بار کہا ہے کہ ہمارے لئے لبنان میں حکومت اور اقتدار اہم نہيں ہے بس جو بھی منتخب ہوتا ہے اس کو کام کرنے دیں۔
٭ شام کے بحران کا عسکری حل ممکن نہيں ہے
شام کے حالات ایک واضح سمت کی طرف جارہے ہیں۔ میدان جنگ کی صورت حال شامی افواج کے حق میں ہے اور مسلح گروپ میدان جنگ میں کوئی خاص سرگرمی نہيں دکھا سکے ہیں بس وہ جنیوا کانفرنس پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔ حتی کہ ان کے آپس میں بھی لڑائیاں ہوئی ہیں۔
مسلح گروپوں کی جنگ کی روشیں بدل گئی ہیں، شام کی اندرونی رائے عامہ اور دنیا کی رائے عامہ بدل چکی ہے، اور شام کی حکومت کے خلاف جو اتحاد قائم ہوا تھا اس وقت وجود نہيں رکھتا۔ مصر کے حالات بھی حکومت شام کے مخالفین کے حامی ممالک کے درمیان اختلافات کا سبب بنے ہیں اور حکومت شام کا تختہ الٹنے کا موضوع بھی ایجنڈے سے خارج ہوچکا ہے۔
المختصر سب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شام کے بحران کے خاتمے کا کوئی عسکری حل نہيں ہے اور قابل قبول راہ حل سیاسی راہ حل ہے اور یہ راہ حل غیر مشروط مذاکرات سے مشروط ہے۔
٭ سعودی عرب ناراض ہے لیکن حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا
جنیوا 2 کانفرنس کے بارے میں قیاس آرائیاں بہت ہیں۔ یہ کانفرنس شام کے بحران کے خاتمے کے لئے ایک واضح حد نطر کا تعین کرسکتی ہے اور سب کو سیاسی راہ حل کی طرف بڑھنا پڑے گا۔
البتہ ایک ملک اس خطے میں ہے جو ان حالات سے بہت ناراض اور غیظ و غضب میں مبتلا ہے۔ یہ ملک سعودی عرب ہے۔ یہ ملک سیاسی راہ حل کا خیر مقدم نہیں کرتا۔ انھوں چیچنیا، قفقاز، اسلامی ممالک اور یورپی ممالک حتی کہ امریکہ سے ہزاروں جنگجو شام روانہ کئے ہیں اور انہیں ہتھیاروں سے لیس کیا ہے۔ وہ جو بھی کرسکتے ہیں کرچکے ہیں لیکن جو محاذ شام کے نظام حکومت کو گرانا چاہتا تھا اور اس سلسلے میں کسی بھی کوشش سے باز نہ رہا وہ ناکام ہوچکا ہے۔ ہم سب نے دیکھا کہ نتیجہ کیا ہوا۔
میں سعودی حکام سے کہنا چاہتا ہوں کہ علاقے کو آگے کے شعلوں میں جلانے سے باز رہو۔ اس خطے کو امن و سکون کی ضرورت ہے۔ اب بھی سعودی بادشاہ جنیوا 2 کانفرنس کی منسوخی کے درپے ہیں۔ وہ نئی تنظیموں کی تشکیل اور مختلف دعوؤں جیسے اقدامات کے ذریعے کانفرنس کے انعقاد کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں تاکہ شام مزید ویراں ہوجائے اور اس ملک اور پڑوسیوں کو مزید نقصانات کا سامنا کرنا پڑے۔
لیکن میری رائے کے مطابق بہتر یہی ہے کہ وہ بھی اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ کیونکہ ان کی موجودہ روش مستقبل یں ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ عوام جانتے ہیں کہ کون جنگ کا خاتمہ نہیں چاہتا؛ اور یہ سب خفیہ معلومات نہیں ہیں اور مکمل طور پر آشکار ہیں۔
حقائق کو تسلیم کرو اور عناد کو ترک کرو اور شام کی تعمیر نو کے راستے پر گامزن ہوجاؤ۔ یہ عالم عرب اور عالم اسلامی کی ذمہ داری ہے۔
٭ مخالف لبنانی دھڑوں کو مشورہ
اگر المستقبل دھڑے (جس کو سعودی حمایت حاصل ہے) اور دوسرے مخالف دھڑوں کی تفسیر مختلف ہے اور کسی اور واقعے کے منتظر ہیں، تو یہ بحث ہی الگ ہے۔ لیکن انہيں جان لینا چاہئے کہ جو دھڑے ملک میں بدامنی پھیلاتے ہیں تو ان کے مخالف دھڑوں کی پوزیشن زيادہ بہتر ہوتی ہے۔
میں کسی کو دھمکی نہيں دینا چاہتا لیکن 14 مارچ گروپ (المستقبل دھڑے) کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ایک دوستانہ مشورہ ہے۔ میرے خیال میں اگر وہ بھی موجودہ واقعات کا بغور جائزہ لیں تو اپنا موقف بدل دیں گے۔ میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ موقع ضائع نہ کریں۔ میں نے اس سے پہلے بھی ان سے کہا تھا کہ آپ نے 2005 بعض چیزوں سے دل خوش کر رکھا تھا جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور مسلسل ناکامیوں کا منہ دیکھا پڑا۔ اب بھی آپ نے حکومت شام کی سرنگونی سے دل خوش کئے بیٹھے ہیں اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں گے۔ آئیں اور لبنان کا مسئلہ لبنان میں حل کرنے دیں اور لبنان کے مختلف سیاسی اور معاشی مسائل کو حل کرنے کے لئے مل کر کام کریں۔
آج لبنان کو نہایت حساس صورت حال کا سامنا ہے اور ملک کے بہت سے معاملات معطل ہوچکے ہیں اور سب اس صورت حال کو دیکھ رہے ہیں اور محسوس کررہے ہیں۔ ہم ایک عمومی معطلی کا سامنا کررہے ہیں کیونکہ مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ 14 مارچ دھڑے کا اس معطلی میں ہاتھ ہے کیونکہ وہ مذاکرات میں شریک نہیں ہوئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ نتیجہ کیا ہوا؟ عوام بہت سی عمومی خدمات سے محروم ہوچکے ہیں، حکومت تشکیل نہیں پاسکی ہے اور تمام معاملات بند پڑے ہیں۔
ہماری خواہش ہے کہ قومی گفتگو کا اہتمام کیا جائے اور پارلیمان میں ان مسائل پر بحث کی جائے اور انہیں حل کیا جائے جن پر عوام نے نظریں لگائی ہوئی ہیں اور ان کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ بجلی کا مسئلہ، ملازمین کے مسائل اور دوسری خدمات اور سروسز کے مسائل مذاکرات کے ذریعے قابل حل ہیں۔
ہمیں دو ممکنہ صورتوں کا سامنا ہے؛ ایک یہ کہ یہی صورت حال جاری رہے اور ملک کی اسی طرح چھٹی ہو اور اختلافات جاری رہیں لیکن کیا یہ صورت حال لبنان کے لئے مفید ہے؟
دوسرا امکان یہ ہے کہ ہم مذاکرات کا آغاز کریں۔ حتی ان ہی سابقہ مذاکرات کی بنیاد پر کابینہ تشکیل دیں اور یہ کابینہ ملکی امور کا انتظام سنبھالے۔
عقل و منطق کیا کہتی ہے؟ کیا اول الذکر فرض ـ جس کا مستقبل روشن نہيں ہے ـ کو مطمع نظر قرار دیں؟ اگر ہم ذمہ داری سے دیکھیں تو کس نتیجے پر پہنچیں گے؟
اگر چودہ مارچ دھڑا قوم پرستی کا دعویدار ہے اور اس نے خود ہی مذاکرات کا عمل معطل کردیا ہے تو اب اس کو قدم آگے بڑھانا چاہئے تاکہ حکومت تشکیل پائے۔
اس وقت حالات مناسب نہيں ہیں اور حتی حکومت جو اخراجات اٹھا رہی ہے وہ قانونی نہیں ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں کوئی قانون بنائیں تو یہ عمومی قانون نہيں ہے کیونکہ حکومت کو ملکی آئین اور پارلیمان کے منظور کردہ قوانین کے تحت کام کرنا چاہئے۔
میری معلومات کے مطابق موجودہ وزراء بھی میری اس تجویز سے اتفاق کرتے ہیں اور جناب صدر بھی متفق ہیں؛ لیکن وزیر اعظم کو روز اول سے نہایت شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے وہ مستعفی ہوئے۔ ان کی بہت زیادہ بےحرمتی کی گئی اور ہم سب جانتے ہیں کہ آل سعود اور المسقبل دھڑے نے ان پر بہت زيادہ دباؤ ڈالا اور نتیجہ وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہئے تھا۔
میں جناب صدر اور وزراء سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنے اجلاس منعقد کریں اور سیاسی دھڑے لبنان اور لبنانی عوام پر رحم کریں اور حکومت تشکیل پانے دیں۔
٭ دو اہم کیسز
ہمارے سامنے دو اہم کیسزم ہیں اور ہم تیل اور لبنان کی قومی دولت کے بارے میں غیر مشروط مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ صہیونی ریاست عرصہ دراز سے ہمارے تیل کے ذخائر لوٹ رہی ہے اور ہمیں خیال رکھنا چاہئے۔ لبنانیوں کا حق ضائع ہورہا ہے۔
دوسرا اہم کیس ملکی سلامتی سے تعلق رکھتا ہے۔ امن و امان کا مسئلہ صرف طرابلس تک محدود نہيں ہے اور مشکل کے حل کے لئے تعاون اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ فوج کو امن و امان کا مسئلہ اپنے ہاتھ میں لینا چاہئے اور اس کو طرابلس اور اس کے نواح میں تعینات ہونا چاہئے۔ فوج کو اس کی اجازت دینی چاہئے اور فوج کو اختیار ہونا چاہئے کہ ہر جگہ موجود ہو اور امن و امان قائم کرے دوسرا کوئی راستہ بھی قابل تصور نہيں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری فورسز اور فوج میدان میں آجائے نہ کہ داعش اور النصرہ کو لایا جائے؛ وہ کیونکہ ہمارے ملک میں امن قائم کرسکتے ہیں؟ انھوں نے کہاں امن قائم کیا ہے؟ وہ تو جہاں بھی گئے ہیں وہاں بدامنی اور جنگ و جدل کا دور دورہ ہے۔
سب کی ذمہ داری ہے کہ طرابلس میں امن کے قیام میں مدد دیں۔ علماء عوام کو ہدایت دیں کہ فوج کا احترام کریں تا کہ بدامنیوں کا خاتمہ ہو۔ یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ بم دھماکے کس نے کرائے ہیں۔ وہ وہاں عوام پر حملے کرتے ہیں اور جھگڑتے ہیں۔ ان کی شناخت ہونی چاہئے اور انہیں سزا ملنی چاہئے۔ واضح ہونا چاہئے کہ پس پردہ قوتیں کون ہيں اور دہشت گردی کی پشت پناہی کون کررہا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button