لبنان

دہشتگردانہ دھماکوں سے زائرین کی تعداد میں اضافے کا سبب/ شام میں حقیقی جنگ

syednasrullaاسلامی تحریک مزاحمت کے سربراہ نے کہا: ان ایام میں اربعین کے احیاء کے اپنے خاص اسباب ہیں، آج لوگ پائے پیادہ کربلا کی طرف عزیمت کرتے ہیں حالانکہ انہیں تکفیریوں کے دھماکوں اور سازشوں کا سامنا ہے ایسی سازشیں جن کو امریکہ امت اسلامی میں فرقہ وارانہ فتنے کھڑے کرنے کے لئے استعمال کررہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل اور لبنان کی تحریک مزاحمت کے راہنما سید حسن نصر اللہ نے جمعرات (3 جنوری 2013) کو بعلبک میں اربعین حسینی (ع) کی مجلس میں عزاداروں سے خطاب کیا۔ انھوں نے اللہ کی حمد ثناء اور رسول اللہ و اہل بیت علیہم السلام پر صلوات و سلام بھیجنے کے بعد طویل فاصلے طے کرکے اس مجلس میں شرکت کے لئے آنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان کے جذبۂ مودت کو خراج عقیدت پیش کیا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔
انھوں لبنانی عوام سے کہا: آپ نے ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیغام اور فرزند رسول امام حسین علیہ السلام کی ندا کو ہمیشہ مثبت جواب دیا ہے؛ آپ نے کبھی بھی امام حسین (ع) کے راستے میں قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا ہے اور جب میں آپ کو اور امام حسین اور حضرت ابوالفضل العباس علہیماالسلام کے کروڑوں زائرین کی طرف دیکھتا ہوں تو ہم بآسانی سمجھ لیتے ہیں کہ کربلا میں کون کامیاب اور زندہ جاوید ہوا۔
انھوں نے کہا: جب ہم ہر روز ریڈیو، ٹیلی ویژن، منابر سے اور جوامع و مساجد میں روزانہ پانچ مرتبہ "محمد رسول اللہ (ص)” سنتے ہیں تو اس نکتے کا اچھی طرح ادراک کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام میدان کربلا کر اصلی فاتح ہیں اور خون نے شمشیر پر فتح پائی ہے۔
انھوں نے کہا: ہم امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی مجالس کے ذریعے دین اسلام اور تلوار پر خون کی فتحیابی پر تاکید کرتے ہیں؛ ان دنوں میں اربعین کے احیاء اور عزاداری کی مجالس کے خاص خاص محرکات و اسباب ہیں۔ آج دنیا بھر سے لوگ پائے پیادہ کربلا کی طرف عزیمت کرتے ہیں حالانکہ انہیں حالانکہ انہیں تکفیریوں کے دھماکوں اور سازشوں کا سامنا ہے ایسی سازشیں جن کو امریکہ امت اسلامی میں فرقہ وارانہ فتنے کھڑے کرنے کے لئے استعمال کررہا ہے۔
سیدحسن نصراللہ نے کہا: یہ دھماکے پاکستانی، ایرانی، لبنانی یا عراقی زائرین کو کربلا جانے سے نہیں روک سکے اور زائرین کی تعداد نہيں گھٹا سکے۔
انھوں نے مزید کہا: میں حسینی زائرین کے قتل کے عاملین سے کہتا ہوں: زائرین پر قاتلانہ حملے غلط ہیں اور یہ نہ صرف امام حسین علیہ السلام کی طرف عزیمت کرنے والے زائرین کی تعداد میں کمی کا سبب نہيں بنیں گے بلکہ ان کی تعداد میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
سیدحسن نصراللہ نے علاقے کی قوموں کو درپیش مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: عراق، مصر، لیبیا، شام اور سعودی عرب کو تقسیم کی سازشوں اور خطرات کا سامنا ہے جبکہ ہر ملک کے عوام اپنی سرحدوں میں کسی قسم کی تقسیم اور حصے بخرے کرنے کے بغیر اپنے مستقبل کے بارے میں متفقہ فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
انھوں نے کہا: ہم لبنان کی ارضی سالمیت اور عوام و اداروں کے اتحاد کے پابند ہیں اور اگر لبنان کو کئی علاقوں میں تقسیم کرنے کی کوئی سازش ہے تو ہم سب کو متحد ہوکر اس کی مخالفت کرنی چاہئے کیونکہ لبنان بہت چھوٹا ملک ہے اور اس کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔
انھوں نے کہا: لبنان متعدد اقوام و مذاہب نیز سیاسی جماعتوں کا ملک ہے اور اس ملک میں مفادات کا تضاد پایا جاتا ہے اور پھر یہ ملک اپنے اطراف کے ممالک ـ بالخصوص شام ـ کے واقعات سے شدت سے متاثر ہوتا ہے کیونکہ شام کے ساتھ لبنان کی طویل سرحدیں ہیں اور بقا‏ع اور شمال لبنان چونکہ شام کے ساتھ قریبی جغرافیائی اور خاندانی طور پر اشتراکات کے حامل ہیں اسی لئے شام کی صورت حال ان علاقوں پر زيادہ اثرانداز ہوسکتی ہے۔
حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا: شام میں ایک حقیقی جنگ سے گذررہا ہے اور ہزاروں افرادبےگھر ہوکر پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہورہے ہیں چنانچہ ہماری اپنی معاشی حالت جیسی بھی ہو یہ ہمارا انسانی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ ان کو اپنے گھروں میں بسائیں اور اگر ہمارے گھروں میں گنجائش نہيں ہے تو انہيں عمومی مقامات میں آنے کی دعوت دیں گوکہ شامی مہاجرین کے مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ ہم ان کی ہجرت کے اسباب کا جائزہ لیں اور یقینی طور پر ہم یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ شام میں جھڑپوں کو مکمل طور پر بند کرایا جائے تا کہ یہ لوگ اپنے گھروں میں لوٹ کر چلے جائیں؛ شام کے عوام کی دربدری کا اصل سبب وہی لوگ ہیں جو شام میں عوامی قتل عام کا سبب ہیں اور شام میں قومی اور اندرونی مذاکرات نیزعلاقائی اور بین الاقوامی فریقوں کے ساتھ شام کے مذاکرات میں رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں۔
انھوں نے کہا: میں حکومت لبنان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ شام کے سلسلے میں اپنے موقف کو بہتر بنائے؛ لبنان کو دباؤ کے حربے سے کام لیتے ہوئے شامیوں کو سیاسی راہ حل ڈھونڈنے اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
انھوں نے کہا: تمام شواہد اس بات کی گواہی دے رہے ہیں اگر شام میں بحران اور مسلح گروہوں کے لئے بیرونی امداد جاری رہے تو یہ ملک ایک طویل اور خونریز خانہ جنگی میں الجھا رہےگا۔
سیدحسن نصراللہ نے کہا: جو لوگ شامی عوام کی غریب الوطنی کے ذمہ داری ہیں وہ شام میں سیاسی مفاہمت کی راہ میں رکاوٹ بن کر حائل ہیں اور شام میں لبنانی باشندوں کا اغوا اس ملک میں جاری بحران کے نتائج میں سے ہے۔
انھوں نے کہا: لبنانی حکومت ان ممالک کے توسط سے اغوا ہونےوالے لبنانی باشندوں کا مسئلہ اٹھائیں جو شام میں دہشت گرد گروہوں کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے ہیں؛ حکومت کو سعودی عرب اور قطر کے ساتھ یہ مسئلہ اٹھانا چاہئے جو شام میں مسلح دہشت گردوں کو مالی اور عسکری امداد فراہم کررہے ہیں۔
سید حسن نصراللہ کا کہنا تھا: مغوی لبنانیوں کے مسئلے میں ہونے والے سرکاری صلاح مشورے کسی صورت میں بھی کافی نہیں ہیں اور اگر حکومت بہتر انداز میں یہ مسئلہ آگے بڑھانے سے قاصر ہے تو وہ حزب اللہ سمیت سیاسی جماعتوں سے مدد لے سکتی ہے۔
سیدحسن نصر اللہ نے کہا: آج ہمارے ہاتھوں ایک بڑا مسئلہ ہے جو تیل اور گیس کا مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ لبنان کے معاشی اور سماجی مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
انھوں نے کہا” لبنان کی حکومت ملک کے معاشی مسائل حل کرسکتی اور ہمارے پاس ایسی دستاویزات موجود ہیں کہ شام و لبنان اور فلسطین میں رونما ہونے والے تمام تر واقعات کا سبب تیل اور گیس کے ذخائر ہیں؛ افسوس کا مقام ہے کہ صہیونی ریاست نے لبنان ـ مشترکہ فیلڈز میں کھدائی کا کام مکمل کیا ہے اور ہم ابھی تمہیدی مراحل میں ہیں؛ حکومت لبنان کو یہ مسئلہ ایک جماعتی اور سیاسی مسئلے کے طور پر نہیں لینا چاہئے کیونکہ تیل اور گیس ملک کے جنوب میں ہوں یا شمال میں، ان کا تعلق حکومت اور قوم سے ہے اور یہ لبنان کے سماجی اور معاشی مسائل حل کرنے کا موقع ہے؛ اگر لبنان اپنے تیل اور گیس کے ذخائر کو استعمال کرسکے تو وہ اپنے قرضہ جات ادا کرسکیں گے چنانچہ ہم تیل اور گیس سے فائدہ اٹھانے کے لئے ایک قومی حکمت عملی طے کرنے کے خواہاں ہیں اور یہ ذمہ داری ہمیں سونپی جائے تو ہم اس کو انجام دینے کے لئے تیار ہیں۔
سید حسن نے کہا: ہم اپنے لئے حصہ نہيں مانگتے کیونکہ یہ قومی مفادات کا مسئلہ ہے۔
سیدحسن نصر اللہ نے کہا: بعض سازشیں سامنے آئی ہیں جن کے تحت حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں قرار دینے کا منصوبہ ہے اور امریکہ اور اسرائیل حزب اللہ کو گھیرے میں لینا چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا: عرب ممالک بھی اس سلسلے میں شرانگیزي اور شرارت کررہے ہیں کیونکہ لبنان کی اسلامی مزاحمت تحریک نے اسرائیل کو شکست دے کر عرب حکام کو گھٹن میں مبتلا کیا لیکن ہم زور دے کر کہتے ہیں کہ یہ تمام تر سازشیں ناکام رہیں گی۔
انھوں نے کہا: ہماری اصل طاقت ہمارے عزم اور ارادے ، اللہ جلّ و علی’ اور رسول اللہ (ص) اور سیدالشہداء (ع) نیز عزت و کرامت کے ساتھ جینے کی ہماری خواہش میں مضمر ہے ہم امریکہ اور اسرائیل اور ان کے ساتھ تعاون کرنے والے افراد، جماعتوں اور حکمرانوں سے کہتے ہیں کہ "تمہارا مکر ضرورت تمہاری طرف لوٹے گا”۔

متعلقہ مضامین

Back to top button