لبنان

حزب االلہ کے خلاف الحریری کیس کے پس پردہ، سازش کا انکشاف

shiite_hassan_nasrullah2

سید حسن نصر االلہ نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں الحریری قتل کیس کے لئے تشکیل پانے والی عالمی عدالت میں حزب االلہ کے خلاف ـ کیس کی سماعت کے پس پردہ ـ ہونے والی سازشوں پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔

 

 

شیعت نیوز کے مطابق حزب االلہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر االلہ نے المنار ٹی وی کے پروگرام “ماذا بعد” (آگے کیا؟) نامی پروگرام میں حاضر ہوکرالحریری کے قتل کی تفتیش کرنے والی عالمی عدالت میں حزب االلہ کے بعض کارکنوں کو بلائے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: یہ درست ہے کہ چند ہفتے قبل بین الاقوامی اٹارنی آفس کی طرف سے ہمارے بعض بھائیوں سے رابطہ کیا گیا۔ ان افراد میں سے بعض حزب االلہ کے اراکین ہیں اور بعض ہمارے اور حزب االلہ کے قریبی ہیں؛  گذشتہ کئی ہفتوں میں ہمارے 12 افراد کو اٹارنی آفس کی جانب سے کال ائی اور وہ مزید چھ افراد کو بلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں ان تفصیلات میں نہیں جاؤں گا کہ یہ افراد حزب االلہ سے منسوب ہیں یا پھر ہمارے دوست ہیں۔ یہ البتہ پہلی بار نہیں ہے کہ یہ مسائل پیش آرہے ہیں۔ اس سے قبل بھی ایسا ہوا ہی 2008 کے آخری مہینوں ـ اور سات مئی کے واقعات رونما ہونے اور چار افسروں کی رہائی کے دنوں کے قریب ـ بھی ان افراد کو بلایا گیا تھا۔

 

اس زمانے میں ہمارے بعض بھائیوں اور بہنوں کو بلوایا گیا۔ سنہ 2009 میں بھی اسی طرح کے کئی بلاوے آئے لیکن جو بات زیادہ قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ 2008 اور 2009 میں ان بلاوؤں کے بعد موجود بلاوؤں کی طرح شور و غل بپا نہیں ہوا تھا جس کے ہم حالیہ ہفتوں میں گواہ ہیں۔ اس بات پر بھی تأکید کرنا چاہوں گا کہ سنہ 2005 میں بہت سے لبنانیوں کو عدالت میں بلایا گیا تھا مگر حزب االلہ کا ایک فرد بھی نہیں بلایا گیا تھا۔

 

س: کیا حزب االلہ کے راہنماؤں کو بھی بلایا گیا؟
ج: سابقہ مراحل میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی لیکن حالیہ ہفتوں میں بعض افراد بلائے گئے۔ میں یہ بتانے سے معذور ہوں کہ کیا یہ افراد مشہور ہیں یا غیر مشہور۔ ان افراد میں سے ایک ثقافتی معاملات سنبھالتا ہے اور دوسرا جہادی مسائل میں سرگرم عمل ہے اور فلسطینی برادران کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات ہیں، عدالت میں بلائے گئے۔
ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ کیا حزب االلہ کے سینئر اراکین بھی بلائے جائیں گے یا نہیں! لیکن کسی بھی بات کا امکان موجود ہے۔ ہم اٹارنی آفس سے کہیں گے کہ ان تحقیقات کو عدل و انصاف کی رعایت کی خاطر خفیہ رکھے۔ ہم ان سے جب یہ درخواست کررہے ہیں تو خود بھی پابند ہیں کہ بلائے گئے افراد کے نام افشاء نہ کریں۔
ہم نے فیصلہ کیا کہ آج کی گفتگو میں تمام موضوعات پر بات چیت نہ کریں اور جب مناسب ہوگا ان مسائل کا اعلان کریں گے۔ اس مرحلے میں افراد کے ناموں کو خفیہ رکھنا ہے بہتر ہوگا۔

 

 

س: کیا ان افراد پر کوئی الزام بھی لگایا گیا ہے؟
ج: ہم تحقیقاتی کمیٹی کی تحقیقات اور ذرائع ابلاغ میں اچھالی جانے والی باتوں کے درمیان فرق کے قائل ہیں۔ اب تک حزب االلہ اور عالمی اٹارنی آفس کے نمائندوں کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ اٹارنی آفس نے ہم سے کہا ہے کہ ان افراد کو گواہوں کی حیثیت سے بلایا جارہا ہے اور ان پر کوئی الزام نہیں ہے۔

 

 

س: کیا ذرائع ابلاغ نے الزامات کے بارے میں بھی کچھ لکھا ہے؟
ج: ذرائع ابلاغ، سیاسی راہنما، بیرونی ممالک کے سفراء اور جاسوسی ادارے لبنان اور بیروں ملک بعض الزامات کی تشہیر کررہے ہیں؛ کبھی سیاسی اور تشہیراتی الزامات کے بارے میں بات کرتے ہیں اور کبھی بین الاقوامی عدالت سے متعلق امور کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں۔ اور یہ کہ ان دو مسائل کے درمیان تعلق ہے۔ اس وقت سیاسی اور تشہیراتی الزامات اچھالے جارہے ہیں اور ہم بھی ان باتوں کے عادی ہوچکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کیس کا رخ آخر کار حزب االلہ کی طرف یا حزب االلہ کے قریبی افراد کی طرف مڑ جائے گا۔ بعض لوگ یہ دعوی کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ حزب االلہ اس قضیئے میں ملوث ہے اور بعض لوگ کہنا چاہتے ہیں کہ حزب االلہ سے تعلق رکھنے والے افراد اس کیس میں ملوث ہیں۔
سب سے پہلے فرانسیسی اخبار لوفیگارو نے اگست 2008 میں صہیونی ریاست کے ساتھ حزب االلہ کی 33 روزہ جنگ کے بعد اس بارے میں اظہار خیال کیا تھا۔ جس کے بعد جرمن اخبار اشپیگل نے لوفیگارو کے حوالے سے وہی باتیں دہرائیں۔ اس کے بعد 2009 میں کویتی اخبار “السیاسیہ” نے اس بارے میں ایک مضمون لکھا۔ اس روزنامے نے اس بارے میں 2005 میں بھی ایک طویل افسانہ لکھا اور 2009 میں بھی لبنان کے پارلیمانی انتخابات کے وقت ایک مضمون لکھا جس میں اس نے نئے ناموں کا اضافہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد فرانسیسی روزنامے “لومونڈ” نے 2010 میں ایک مضمون کے ضمن میں حزب االلہ کو ملزم ٹہرانے کی کوشش کی۔ ان مضامین میں بعض لبنانی شخصیات سمیت بین الاقوامی عدالت کے بعض اہلکاروں کے حوالے سے اظہار خیال کرنے کی کوشش کی گئی۔ میں آج تک ان سب باتوں کو سیاسی اور تشہیراتی الزامات ہی سمجھتا ہوں اور کوئی نئی بات نہیں ہے۔
14 فروری 2005 شہید رفیق حریری پر دہشت گردانہ حملے کے چند ہی گھنٹے بعد، لبنان سے بھی اور دنیا سے بھی بعض صدائیں سنائی دینے لگیں جو لبنان ـ شام مشترکہ انٹیلجنس سسٹم کو اس قتل کا ذمہ دار ٹہرا رہی تھیں اور یہ لہر پانچ مرتبہ اٹھی۔ یہ الزامات سعد حریری کے دورہ شام تک جاری تھے۔

 

 

س: کیا اس کیس میں اب تک حزب االلہ کے کسی راہنما پر کوئی الزام لگایا گیا ہے؟
ج: بین الاقوامی عدالت کی اٹارنی آفس کی طرف سے آج تک کوئی الزام نہیں لگا اور کسی فرد کو بھی الزام لگا کر نہیں بلایا گیا لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔ سیاسی الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ ہم وہ فریق ہیں جس کو طویل عرصے سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ شہید حریری کے قتل کے ایام میں لبنان کے مشہور سیاستدان شام پر الزامات لگا رہے تھے اور بعض عرب ممالک نیز بعض بین الاقوامی قوتیں بعض فوجی افسروں پر الزام لگا رہے تھے۔ اس زمانے میں اسرائیل حکام کا کہنا تھا کہ حزب االلہ نے حریری کو قتل کیا ہے۔ اسرائیلی روزنامے بھی اس آگ کو ہوا دے رہے تھے۔
یہ ایک فطری سی معمولی سی بات ہے کیونکہ صہیونی ریاست اور شام و حزب االلہ کے درمیان متعدد مسائل ہیں۔ مثال کے طور پر 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد، ابتدائی چند گھنٹوں میں امریکہ میں فعال صہیونی ذرائع ابلاغ نے حزب االلہ کو مورد الزام ٹہرایا مگر ان کا یہ الزام قابل قبول نہ ٹہرا۔ البتہ اس الزام کی عدم قبولیت کا سبب امریکہ کی انصاف پسندی نہیں تھی بلکہ یہ حملے ایک سیاسی منصوبے کے تحت انجام پائے تھے جن کے تحت افغانستان اور عراق پر قبضہ کرنا اور خلیج فارس کے علاقے میں مغربی موجودگی کے امکانات فراہم کرنا تھے۔ جب امریکہ نے القاعدہ پر الزام لگایا پھر بھی اسرائیلیوں نے اپنا الزام واپس نہیں لیا اور بعض صہیونیوں نے الزام لگانا شروع کیا کہ 11 ستمبر کے حملے القاعدہ اور حزب االلہ کے تعاون سے عمل میں آئے ہیں۔ صہیونی جاسوسی ادارے “موساد” کے لئے کام کرنے والے بہت سے جرائد و روزناموں نے لکھا کہ شہید حاج عماد مغنیہ نے ایران اور پاکستان کے سرحدی علاقے یا افغانستان اور ایران کے سرحدی علاقے میں اسامہ بن لادن کے ساتھ ملاقات اور بات چیت کی ہے۔
2006 سے قبل سیاسی صورت حال کی بنا پر شام اور اس کے حلیفوں کو نشانہ بنایا جارہا تھا اور کوشش ہو رہی تھی کہ شام کو تنہا کیا جائے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ موسم گرما 2006 میں جنگ شروع ہوئی اور اس جنگ کا مقصد لبنان کی اسلامی مزاحمت کا خاتمہ تھا؛ اور ایک مقصد یہ تھا کہ لبنان میں ـ بالخصوص جنوبی لبنان اور بالاخص دریائے لیطانی کے جنوبی علاقے ـ میں آبادی کا ڈھانچہ تبدیل کرنا تھا۔
اس جنگ میں اسلامی مزاحمت متعدد عوامل کی بنا پر فتحیاب ہوئی اور اسرائیلیوں کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔ کوشش کی گئی کہ اسلامی مزاحمت کے خلاف تشہیراتی مہم چلا کر لبنان میں فرقہ وارانہ لڑائی کے اسباب فراہم کئے جائیں لیکن ہم اس مرحلے سے بھی گذر گئے۔ چنانچہ اس وقت مزاحمت کو ہمیشہ کی نسبت کئی گنا زیادہ نشانہ بننا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ مزاحمت کے اندرونی اور علاقائی اثرات واضح ہیں اور مزاحمت کو لبنانیوں کے لئے باعث اعزاز و افتخار بن کر رہنا ہے کہ مزاحمت اس علاقے میں سرگرم عمل ہے اور اس مسئلے میں کوئی عیب نہیں ہے۔ لبنانی اپنی تاریخ کے دوران ہمیشہ ایک کمزور ملک رہا ہے مگر آج علاقے میں حاضر و فعال ہے۔ حزب االلہ کے دشمن ـ اس جماعت کی تأسیس سے لے کر اب تک ـ اس جماعت کو بدنام کرنے کی لاکھ کوششیں کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ہم پر منشیات کی اسمگلنگ، دہشت گردی اور منی لانڈرنگ اور ساہوکاری جیسے الزامات لگائے مگر انہیں ان الزامات سے کوئی فائدہ نہ ملا۔
میرا خیال ہے کہ اسلامی مزاحمت کے خلاف ان کا آخری ہتھیار شہید حریری کا قتل کیس ہے۔ بعض اندرونی اور بین الاقوامی جرائد و رسائل اور بعض سیاسی اور سیکورٹی حکام بھی کہتے ہیں کہ تفتیشی کمیٹی حزب االلہ کی بعض شخصیات پر الزامات لگانے کی راہ پر گامزن ہے۔ ان لوگوں کے پاس جو اطلاعات ہیں ان کی بنیاد بھی بین الاقوامی عدالت اور متعلقہ اٹارنی آفس ہے۔
جب ابتداء میں انہوں نے ہمارے بعض افراد کو بلایا تھا ہمیں کوئی فکر نہیں تھی مگر اب جو انہوں نے نئے افراد کو بلوایا ہے تو لگتا ہے کہ وہ اپریل کے مہینے میں حزب االلہ کے بعض افراد ملزم ٹہرائے جائیں گے۔
میری رائے میں اس سلسلے میں نشر ہونے والی باتوں کی ذمہ داری بین الاقوامی عدالت اور متعلقہ اٹارنی آفس پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اٹارنی آفس سے بعض اطلاعات لیک ہوگئی ہیں اور بیشتر روزنامے اور سیاستدان اپنے خیالات کے اظہار کے سلسلے میں اسی دفتر کا حوالہ دے رہے ہیں۔
جب سے یہ بین الاقوامی عدالت تشکیل پائی ہے اس عدالت کے اندر جو کچھ بھی گذرا ہے لبنانی اور اجنبی روزناموں میں فوری طور پر شائع ہوا ہے اور ہم نے روزناموں میں پڑھا یا ٹیلی ویژن چینلوں پر دیکھا کہ کس پر الزام لگایا گیا اور کون حراست میں لیا گیا۔ لہذا اس عدالت کی تاریخ اس طرح کے مسائل سے بھرپور ہے اور اس کی اطلاعات اندر نہیں رہتیں بلکہ تسلسل کے ساتھ فاش ہوجاتی ہیں۔ اس عدالت کا دائرہ کار مستحکم اور ہماہنگ نہیں ہے؛ اس عدالت کے کارکنان مختلف قومیتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ عدالت کے اندر بعض مسابقتیں اور بعض تنازعے بھی ہوں جس کی وجہ سے آج تک اس عدالت میں مختلف افراد نے استعفے بھی دیئے ہیں۔
چنانچہ یہ عدالت ایک کشکول کی مانند ہے اور لگتا ہے کہ لبنانیوں میں سے صرف آٹھ مارچ کے اتحاد (حزب االلہ اور تحریک مزاحمت) سے تعلق رکھنے والے افراد اس عدالت میں موجود نہیں ہیں۔ اور اس طرح کی عدالت سے اطلاعات باہر نکلنا ممکن ہے البتہ میں اس بات کو نظر انداز کرتا ہوں کہ اطلاعات کی لیکج اچھی نیت پر مبنی ہے یا بدنیتی پر۔

 

 

س: یہ ذرائع ابلاغ کی طرف سے حزب االلہ پر الزام تراشی کے مقاصد کیا ہوسکتے ہیں؟ کیا وہ حزب االلہ کا خاتمہ چاہتے ہیں؟
ج: حزب االلہ کا خاتمہ ان کا خواب ہے اور ان کا کم از کم مقصد یہ ہے کہ حزب االلہ کا چہرہ مخدوش کردیں؛ جس کو لبنان، دنیائے عرب اور دنیائے اسلام میں عزت و احترام حاصل ہے۔ گذشتہ برسوں میں ان کوششوں سے کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا اور حتی کہ فرقہ وارانہ رجحانات بھی ـ جو لبنان میں بارہا بروئے کار لائے گئے ہیں ـ اس سلسلے میں مفید ثابت نہیں ہوسکے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ مزاحمت کی علامت “حج عماد مغنیہ” جیسی شخصیات کو ـ جو مزاحمت کی علامت ہیں ـ کے چہرے کو مخدوش کردیں۔ یہ لوگ ـ بین الاقوامی عدالت کی طرف سے حزب االلہ پر الزام لگائے جان سے قبل ہے ـ ہم پر الزام لگارہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ حزب االلہ پر دباؤ ڈالیں اور آخر کار شاید مزاحمت تحریک کے ہتھیاروں کے سلسلے میں بات کرنا چاہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ 2005 میں حزب االلہ پر جو الزامات لگائے گئے ہیں اس کے بعد اس جماعت نے مزاحمت کا مسئلہ چھوڑ رکھا ہے اور ان الزامات کا جواب دینے میں مصروف ہوگئی ہے۔ میں یہاں سب کو یقین دلاتا ہوں کہ نہ تو اندرونی سیاسی معاملات ہماری توجہ اپنے اوپر مرکوز کراسکے ہیں اور نہ ہی بین الاقوامی کیس اور علاقائی مسائل ـ حزب االلہ لبنان میں ایک بڑی جماعت ہے جس کے پاس بہت اچھی ٹیم ہے؛ حزب االلہ میں ایسے بہت سے افراد ہیں جن کی کارکردگی سیاسی امور سے تعلق نہیں رکھتی مگر وہ شب و روز کام اور محنت کررہے ہیں تا کہ تحریک مزاحمت طاقتور ہو اور آمادگی کے لحاظ سے اپنے عروج پر رہے۔
2005  اس کے بعد حزب االلہ اور شام کے خلاف الزامات میں تیزی آئی؛ جن کے بعض منفی نتائج بھی مرتب ہوئے مگر شام کے عقلمند حکام نے اپنی افواج لبنان سے واپس بلا دیں مگر یہ الزام تراشیاں حتی گذشتہ سال کے پارلیمانی انتخابات سے قبل تک جاری رہیں اور لبنان میں تشکیل پانے والی پارلیمان ان ہی الزام تراشیوں کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی۔ لبنان کی سیاسی صورت حال اسی بنیاد پر وجود میں آئی اور ان ہی الزام تراشیوں کی وجہ سے لبنان اور پورا خطہ تباہی کے دہانے پر پہنچ رہا تھا؛ اسی سیاسی الزام کی بنا شام پر پابندیاں لگانے اور حتی شام کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی۔ اس سیاسی الزام اور دیگر الزامات کے سامنے ـ جو ہمارے اوپر لگائے جارہے ہیں ـ خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہئے کیونکہ یہ الزام ہمارے چہرے کو مخدوش کرنے کی کوشش ہے۔ یہ الزام تراشیاں ملک کے اندر کے سیاسی اور سماجی شعبوں میں دور رس نتائج کا باعث ہیں۔ یہ الزام تراشیاں لبنان میں بہت سے شامی مزدوروں کی ہلاکت کا سبب بن گئیں۔ حتی کہ عرب شخصیات ہم سے کہتے ہیں کہ “آپ سے ملاقات ہمارے لئے مسائل کا باعث بنتی ہے” کیونکہ عرب حلقوں میں شہید حریری پر قاتلانہ حملے میں ہمیں مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے۔

 

 

ہماری تفتیشی کمیٹی کے سلسلے میں بہت سے تحفظات ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس کمیٹی میں تحقیقات کا عمل خفیہ رہنا چاہئے اور اس کمیٹی کو ان اطلاعات کو خفیہ رکھنے کی پابندی کرنی چاہئے۔ آج تک وہ اس اصول کی پابندی نہیں کرسکی ہے۔ اور یہ مسئلہ اس عدالت کی حیثیت کو متنازعہ بنادیتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ یہ ایک سیاسی عدالت ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم روز اول سے کہتے رہے ہیں کہ تفتیشی کمیٹی نے اپنا کام پیشہ ورانہ انداز سے شروع نہیں کیا اور اس نے روز اول ہی سے ایک فرض اپنے سامنے رکھا جس میں شام اور فوجی افسران ممکنہ ملزم تھے حالانکہ ایک عدالت کے لئے دیگر امکانات بھی مدنظر رکھنے پڑتے ہیں۔ اس مسئلے کا مطلب بھی یہی ہے کہ بین الاقوامی عدالت ایک سیاسی عدالت ہے۔ یہ عدالت آج تک نئی بات اور نیا فرض پیش نہیں کرسکی ہے۔ حتی آج تک حزب االلہ، اسرائیل، القاعدہ یا کوئی بھی بین الاقوامی خفیہ ایجنسی اس کے فرضیات میں شامل نہیں ہے اور پورے الزامات کو شام پر مرکوز کیا گیا ہے اور (عجیب تر یہ کہ) روز اول سے ہی اسرائیل کے ملوث ہونے کا امکان بعید از قیاس سمجھا گیا۔
میں اسرائیل پر اس حوالے سے الزام نہیں لگاتا اور اس سلسلے میں میرے پاس کوئی ثبوت بھی نہیں ہے لیکن اسرائیل کے اوپر میرا الزام صرف سیاسی ہے۔ لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ جس کسی نے اسرائیل کے ملوث ہونے کا امکان مسترد کیا ہے اس نے درحقیقت شہید حریری کی توہین کی ہے۔
لبنان میں شہید حریری کے قتل میں 13 سلفیوں کے ملوث ہونے کا فرض سامنے آیا مگر اس فرض کو لائق اعتنا نہیں سمجھا گیا اور ان کا کیس ختم ہوا اور بین الاقوامی عدالت نے ان افراد کے ملوث ہونے کو سنجیدہ نہیں لیا۔ حالانکہ لبنان کے کئی سیاستدانوں اور سیکورٹی حکام نے کہا تھا کہ 13 رکنی سلفی گروپ کے بعض اراکین نے شہید حریری کے قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ یہ صورت حال ہمارے خیال میں ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس وقت اس عدالت نے اپنی توجہ حزب االلہ اور حزب االلہ وابستہ بعض افراد پر مرکوز کررکھی ہے؛ دوسری طرف سے اس عدالت نے اپنی تفتیش کی سلسلے میں کئی جھوٹے گواہ استعمال کئے ہیں اور بعد میں واضح بھی ہوگیا ہے کہ یہ گواہ جھوٹ بولتے رہے ہیں اور ان کی جھوٹی گواہیوں کی بنا پر کئی افراد کئی مہینوں تک جیل میں رہے۔ یہ تمام مسائل بہت خطرناک ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو جس چیز کی ہرگز تلاش نہیں تھی “وہ حقیقت ہی تھی” وہ حقیقت کے درپے نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد ایک بڑے منصوبی کا نفاذ تھا۔ یہ تمام مسائل دیکھ کر بآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس عدالت پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ گوکہ اس عدالت کے پاس اب بھی اپنی کارکردگی کی اصلاح کا وقت ہے۔ اس عدالت کو جھوٹے گواہوں پر مقدمہ چلانا چاہئے تا کہ اس بات کی ضمانت فراہم ہو کہ آئندہ کوئی شخص جھوٹی گواہی نہیں دے گا۔ ان لوگوں کو بھی گرفتار کرنا چاہئے جنہوں نے جھوٹے گواہوں کو بھرتی کیا کیونکہ عدالت کی اطلاعات کا افشاء اس عدالت کی حیثیت کو متأثر کرچکا ہے۔ بین الاقوامی عدالت کو ان افراد کے خلاف بھی کاروائی کرنی پڑے گی جو عدالت کی خفیہ اطلاعات کو فاش کردیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے اقدامات نے تحقیقات کی حیثیت کو متنازعہ بنادیا ہے۔ اطلاعات باہر نہیں آنی چاہئیں؛ عدالت کو دیگر فرضیات پر بھی کام کرنا چاہئے۔
دوسری طرف سے بین الاقوامی عدالت ان افراد کو بھی انصاف فراہم کرے جن پر اس نے ستم روا رکھا ہے۔ جن افسروں کو گرفتار اور بعد میں رہا کیا گیا ان کی بھی اور ان کی خاندانوں کی بھی توہین ہوئی ہے۔ ان افراد کو ابھی تک انصاف فراہم نہیں کیا گیا ہے اور نہ بین الاقوامی عدالت نے اور نہ ہی حکومت لبنان نے ان افراد کی حیثیت بحال نہیں کی ہے۔ اسی طرح بڑی تعداد میں دیگر افسروں پر بھی ستم روارکھا گیا ہے جو گرفتار افسروں کے ساتھ تعلق رکھنے کی بنا پر ظلم کا شکار ہوئے اور انہیں برطرف کیا گیا ان افراد کی حیثیت کی بحالی کا اہتمام ہونا چاہئے۔

 

 

س: کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس عدالت کے ساتھ اپنے تعاون کا سلسلہ روک لیں؟
ج: گو کہ اس عدالت کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے اور ہمیں اس کے اقدامات کے سلسلے میں تشویش بھی ہے لیکن ہم اس عدالت کے ساتھ اپنا تعاون جاری رکھیں گے۔ ہم بھی دیگر لبنانیوں کی طرح حقیقت جاننا چاہتے ہیں۔ ہم نے ابتدائی ایام میں ہی اس دہشت کاروائی کی مذمت کی اور ہم نے ہی اسے زلزلہ قرار دیا۔ یہ حادثہ بہت خطرناک تھا اور ہم نے اس کو عظیم تر مشرق وسطی کی تشکیل کی امریکی سازش کا حصہ قرار دیا۔ یہ کیوں فرض کیا جاتا ہے کہ امریکی جاسوسی ادارے اس قتل میں ملوث نہیں ہیں؟ ہم اس عدالت کے ساتھ رائے عامہ کی تشویش ختم کرنے کے سلسلے میں تعاون کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے تعاون کی بنا پر تحقیقات کے غلط سلسلے کی اصلاح ہوسکے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس عدالت کے ساتھ تعاون کریں اور ہمارے خیال میں حزب االلہ کے دوستوں اور رفقائے کار کے ساتھ اس عدالت کے نمائندوں کی ملاقات میں کوئی رکاوٹ بھی حائل نہیں ہے۔ البتہ ہمارا تعاون مشروط ہوگا۔ اگر ہم دیکھ لیں کہ یہ عدالت لو فیگارو، اسپیگل اور السیاسیہ جیسے روزناموں کے افسانوں کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتی ہے تو ہم متبادل راستہ اختیار کریں گے۔ ہم تفتیشی کمیٹی کو ضرور موقع دیں گے کہ وہ پیشہ ورانہ انداز کی طرف لوٹ کر آجائے۔
حزب االلہ پر لبنان کی اندرونی سیکورٹی فورسز کو نقصان پہنچائے جانے کے الزام کے بارے میں بھی میں کہنا چاہونگا کہ جو فریق سیکورٹی فورسز کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے وہ وہی فریق ہے جو لبنان میں اسرائیل کے جاسوسی اداروں کی تعیناتی کا خواہشمند ہے۔ ہم لبنان میں اسرائیل کے جاسوسی نیٹ ورکس کے انکشاف کے خواہاں ہیں اور ہم نے ہی مختلف مراحل میں لبنان کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ پورا پورا تعاون کیا ہے۔
امریکی لبنانی سیکورٹی معاہدہ لبنان کے عوام اور حکومت کی توہین

 

 

سوال: آپ لبنان اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے سیکورٹی معاہدے کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
ج: میں اس معاہدی کے بارے میں ـ جو دونوں فریقوں کو کچھ کرنے اور کچھ نہ کرنے کا پابند بنادیتا ہے ـ کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں؛ میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ اس معاہدے کی منسوخی یا اصلاح کا مطالبہ کروں بلکہ حکومت اور قانونی ادارے کو اس معاہدے کا جائزہ لینا چاہئے۔ اس معاہدے میں بعض ایسے نکات ہیں جن کو مسترد کرنا چاہئے۔
500 ملین ڈالر کی یہ قرارداد ایسے نکات کی حامل ہے جو لبنانی عوام اور حکومت اور سیکورٹی اداروں کی بے حرمتی کا باعث ہیں۔ لبنان کو اس قرارداد کے خطروں سے محفوظ کرنا چاہئے۔
ایک خطرناک پہلو اس قرار داد کے تحت لبنانی افسروں کی تربیت سے متعلق ہے۔ جن افسروں کو اس قرارداد کی تحت تربیت دی جارہی ہے انہیں ایک پمفلٹ دیا گیا ہے جس میں حزب االلہ، حماس اور عوام محاذ برائے آزادی فلسطین کو دہشت گروپس کا نام دیا گیا ہے اور ایران اور شام کو دہشت گردوں کے حامی ممالک کا نام دیا گیا ہے۔ جو شخص لبنان کی عظمت اور اس کے سیکورٹی اداروں کی عظمت کا قائل ہو وہ یہ قرارداد قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔
ایک اور خطرناک نکتہ یہ ہے کہ امریکی افسروں کو اس کے تحت مکمل محفوظ قرار دیا گیا ہے اور اگر وہ کوئی غلطی کریں تو لبنانی حکومت ان کے خلاف کاروائی نہیں کر سکے گی۔ ہمارا یہ موقف لبنان کی سیکورٹی فورسز کو کمزور کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ ہماری خواہش ہے کہ لبنان کی سیکورٹی فورسز کی عزت و کرامت محفوظ رہے اور ہمارے ملک کے امور چلانے والے ادارے عزیز اور محترم ہوں۔

 

 

س: آپ نے حال ہی میں صدر ایران ڈاکٹر احمدی نژاد اور شامی صدر ڈاکٹر بشار اسد سے ملاقات کی ہے اور حال ہی میں لبنان میں قومی مذاکرے کے لئے ٹیم کی تشکیل کی باتیں بھی ہورہی ہیں کیا ان دو موضوعات کا آپس میں کوئی تعلق ہے؟
ج: نہیں؛ قومی مذاکراتی ٹیم کے لئے بہت عرصہ قبل منصوبہ بندے ہوئے تھی اور دمشق کی اجلاس کا قومی مذاکرات کے لئے منعقدہ اجلاس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

 

 

س: وہ کونسی چیز ہے جس کی بنا پر آپ ان اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں جبکہ مذاکرات کے لئے منعقدہ اجلاسوں میں شریک بعض فریق تحریک مزاحمت کا ہتھیار چھینے جانے کے خواہاں ہیں؟
ج: لبنان کثیرالقومی اور بہت حساس ملک ہے؛ انسان کو مذاکرات سے تھکنا یا ناامید ہونا درست نہیں ہے۔ بنیادی ضرورت یہ ہے کہ مذاکرات انجام پائیں خواہ ان کے نتائج تیز رفتار اور اطمینان بخش نہ بھی ہوں۔ ہم مل کر بیٹھتے ہیں اور مختلف امور پر بات چیت کرتے ہیں۔ گفتگو بذات خود مثبت عمل ہے۔ لہذا نہیں کہا جاسکتا کہ یہ مذاکرات سیاسی اور روحی لحاظ سے بے نتیجہ ہیں۔ ہمارے پاس ان مذاکرات میں شرکت کے لئے اپنی دلیلیں ہیں اور ہم اپنی منطق پیش کرتے ہیں لیکن جو شخص یا جو فریق مذاکرات سے بھاگتا ہے وہ کمزور ہے۔ جس فریق کی منطق قوی ہوتی ہے وہ اپنے دشمن کے ساتھ بھی مذاکرات کرتا ہے۔

 

 

س: بعض لوگ جتانا چاہتے ہیں کہ لبنان میں اسلامی مزاحمت پر کسی قسم کی مفاہمت سامنے نہیں آسکتی؛ آپ اس سلسلے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
ج: یہ مسئلہ سنہ 1982 سے جاری ہے۔ اس سال مزاحمت کے مسئلے پر اختلافات تھے لیکن یہ بات مزاحمت تحریک کے لئے عیب نہیں ہے۔ یہ خامی اور یہ نقص ان لوگوں کا ہے جو مزاحمت کو قبول نہیں کرتے اور اس کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ یہ مسائل پوری تاریخ میں مختلف ممالک میں تھے۔ بعض لوگ دشمن کے خلاف مزاحمت کی بات کرتے تو بعض دیگر اس کی مخالفت کرتے۔ ہمارا خیال نہیں ہے کہ قومی اجماع ملکی دفاع کے لئے ایک شرط ہے۔

 

 

س: مستقبل میں اسرائیلی جارحیت کے خطرے اور اس کی طرف سے کسی قسم کی مہم جوئی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ج: میرا خیال نہیں ہے کہ موجودہ صورت حال طوفان سے پہلے کے سکون کی مانند ہے۔ یہ اسرائیلی ریاست کی حقیقت ہے کہ کبھی دھمکی دیتی ہے اور کبھی پسپا ہوجاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لبنان، فلسطین، شام اور ایران میں ہمارا موقف مضبوط ہو۔ آج اسرائیل تزویری (اسٹریٹجک) لحاظ سے بندگلی میں گھرا ہوا ہے۔ اس کے پاس نہ تو علاقے میں اپنی مرضی کا امن قائم کرنے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی نئی جنگ کا آغاز کرسکتا ہے۔ اور یہ امر مسلم ہے کہ حال حاضر میں اور مستقبل میں اس ریاست کی مہم جوئیوں کے لئے کسی بھی قسم کی کامیابی کی ضمانت فراہم نہیں ہوسکتی اور یہ ریاست کامیاب نہیں ہوسکے گی۔

 

 

س: ولید جنبلاط بھی شام کے دورے پر گئے تھے!
ج: جنبلاط کا دورہ شام لبنان کی سیاسی صورت حال اور لبنان شام تعلقات کے لئے مفید ہے۔ ہمیں ماضی کے تجربات سے فائدہ لے کر مستقبل کی طرف قدم اٹھانا ہے۔ ہمیں مستقبل میں متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے۔ صدر بشار اسد نے اس دورے کے دوران ولید جنبلاط کے ساتھ ملاقات میں ایک بڑے اور ذمہ دار راہنما کا کردار ادا کیا اور بشار اسد علاقے میں موجودہ تنازعات کی حقیقت اور ان کی ترجیحات کا تزویری ادراک رکھتے ہیں۔ چونکہ اسرائیل لبنان اور شام کا دشمن ہے اسی لئے شام مستقبل میں ہر قسم کی جارحیت کے مقابلے میں لبنان کی طاقت اور استحکام کا خواہاں ہے۔
شام نے دشوارترین حالات میں تحریک مزاحمت کی حمایت کی اور کبھی بھی لبنان اور مزاحمت کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہ بنا حالانکہ ایک بین الاقوامی سودے بازی میں صدر شام سے کہا گیا کہ اگر وہ تحریک مزاحمت کے ہتھیار چہینے جانے کی تجویز کی حمایت کردیں تو لبنان کو شام کے حوالے کردیا جائے گا مگر بشار اسد نے یہ پیشکش ٹھکرادی۔ تحریک مزاحمت کا مسئلہ اور لبنان کے ساتھ تعلقات شام کے لئے بہت اہم ہے۔ یہ درست نہیں ہے کہ لبنان کی شام کے ساتھ تعلقات حزب االلہ کے توسط سے قائم ہیں بلکہ بشار اسد کے لبنانی صدر، وزیراعظم اور پارلیمان کے ساتھ کے ساتھ براہ راست تعلقات ہیں۔ شام نے لبنان کے ساتھ تعلقات پر شجاعانہ انداز میں نظر ثانی کردی ہے۔ اگر شام کے ساتھ سیاسی، معاشی، ثقافتی اور سلامتی کے شعبوں میں لبنان کے تعلقات کو فروغ حاصل ہوجائے تو اس کا اصل فائدہ لبنان کو ملے گیا کیونکہ لبنان کو شام کی جتنی ضرورت ہے اتنی لبنان کی شام کو ضرورت نہیں ہے۔

 

 

س: بلدیاتی انتخابات کے لئے حزب االلہ کی حکمت عملی کیا ہے؟
ج: بلدیاتی انتخابات زیادہ تر خاندانی اور قومی ہیں جن کا تعلق سماجی خدمات سے ہے اور حزب االلہ کو بلدیاتی انتخابات سے کوئی تشویش لاحق نہیں ہے۔ گو کہ ہماری ترجیح یہ ہے کہ یہ انتخابات ملتوی کئے جائیں۔ ہم نے اس سلسلے میں “امل پارٹی” کے ساتھ اتفاق کرلیا ہے اور ہم نے امیدواروں کی متفقہ فہرست پیش کی ہے۔

 

 

س: صہیونی ریاست نے مسجدالاقصی کے خلاف ریشہ دوانیوں کا نیا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور قدس میں نئی صہیونی کالونیاں تعمیر کررہی ہے اس سلسلے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
ج: اسلامی اور عیسائی امتوں کو قدس شریف کے مستقبل کے سلسلے میں خیال اور توہم سے دوچار نہیں ہونا چاہئے۔ اسرائیل قدس کو اپنا ابدی دارالحکومت سمجھتا ہے اور حال ہی میں بنیامین نیتانیاہو نے امریکہ میں منعقدہ آیپک کے اجلاس میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیل قدس شریف کو ایک یہودی شہر میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس صہیونی اعلان کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو رفتہ رفتہ اس شہر سے نکلنا پڑے گا۔ اور اس سلسلے میں فلسطینیوں کے گھر منہدم کردیئے جائیں گے؛ ان سے شہریت سلب کی جائے گی؛ اور قدس شریف کے مسلم اور عیسائی باشندوں پر شدید سیاسی اور معاشی گھٹن مسلط کیا جائے گا۔
“اسرائیل کا منصوبہ مسجد الاقصی کو نیست و نابود کرنا ہے اور صہیونی موقع کی تلاش میں ہیں اور انہوں نے مسجدالاقصی کے نیچے کئی سرنگیں تیار کررکھی ہیں اور اس وقت مسجدالاقصی شدید ترین خطروں سے دوچار ہے اور ہمیں اس سلسلے میں فیصلہ کن اقدام کرنا چاہئے”۔

 

 

س: حال ہی میں لیبیا میں عرب لیگ کا اجلاس ہوا جس میں قدس کے لئے 50 کروڑ ڈالر کا فنڈ مختص کیا گیا اور سازباز کا سلسلہ جاری رکھنے پر زور دیا گیا؛ آپ کی رائے؟
ج: غزہ پر مسلط کردہ 22 روزہ جنگ کے بعد مصر کے شہر شرم الشیخ میں غزہ کی تعمیر نو کے نام پر ایک اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس اجلاس میں شریک ممالک نے وعدہ کیا کہ کروڑوں ڈالر غزہ کی تعمیر نو کے لئے مختص کریں گے۔ اب میں پوچھتا ہوں کہ اس وقت غزہ کی کیا صورت حال ہے؟ کیا غزہ کی تعمیر نو ہوچکی؟ کیا یہی قصہ قدس کے ساتھ بھی دہرایا نہیں جارہا؟
سازباز کے مذاکرات ـ جنہیں امن مذاکرات کا نام دیا جارہا ہے ـ کے بارے میں کہنا چاہوں گا کہ بہت سے لوگوں نے گذشتہ برسوں سے ساز باز کے لئے ہونے والے مذاکرات اور امریکی حمایت کے لئے کھاتے کھول رکھے تھے اور ساز باز کے لئے ہونے والے مذاکرات کا سلسلہ اٹھارہ برسوں سے جاری ہے مگر فلسطینیوں سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ انہیں اٹھارہ برس کے طویل مذاکرات کے نتیجے میں مایوسی اور ناامیدی کے سوا کچھ بھی نہیں ملا۔ مذاکرات سے ناامیدی کا پھل مل رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان مذاکرات کے پس پردہ اسرائیل کو موقع دیا جارہا ہے کہ وہ فلسطین میں وسیع ارضی اور جغرافیائی تبدیلی کے اپنے منصوبوں پر علمدرآمد کرے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ مذاکرات کی بجائے مزاحمت کے آپشن سے استفادہ کیا جائے کیونکہ مزاحمت اور استقامت علاقے کی آزادی کے حصول، اسرائیل اور مسلمانوں کے درمیان خوف و وحشت کے توازن (Balance of Horror) کے قیام اور صہیونیوں کے منصوبے کو خطرے کے دائرے میں قرار دینے کے حوالے سے بہت زیادہ ثمرات و فوائد کی بنیاد ہوسکتی ہے۔
آج ہم گواہ ہیں کہ امریکی صدر علاقے میں امن کے قیام کی خواہش رکھتے ہیں مگر وہ اسرائیل کے سامنے عاجز ہیں گوکہ وہ اسرائیل سے جن چیزوں کا مطالبہ کررہے ہیں ان کا بھی فلسطینیوں کے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے اور دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی ہے۔ حالیہ برسوں میں حتی اسرائیلوں نے مغربی پٹی میں بھی کالونیاں بسائیں اور امریکیوں نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ امریکی مدد کے لئے کھاتہ کھولنے کا مفہوم یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ ناامیدی کا انتظار کریں۔
اس وقت بھی امریکہ اور اسرائیل کے درمیان کسی قسم کا کوئی بھی بنیادی اختلاف نہیں پایا جاتا۔
کیا اوباما میں اتنی جرأت ہے کہ کئی ارب ڈالر کی امریکی امداد اسرائیل سے روک دیں؟
نہیں ہرگز نہیں؛ امریکہ کا اصل اقتدار Establishment)) اوباما کو ہرگز ایسا کرنے کا اجازت نہیں دیتا۔ جب تک امریکہ کے مسیحی صہیونی اس ملک کے تیل، اسلحے وغیرہ کی عظیم کمپنیوں کے بل بوتے پر امریکہ پر حکمرانی کرتے رہیں گے اسرائیل ایک انچ برابر پسپائی اختیار نہیں کرے گا۔
اسرائیل کا اس علاقے میں کوئی مستقبل نہیں

 

 

س: فلسطینی عوام کو کیا پیغام دیں گی؟
ج: ملت فلسطین ہر روز ثابت کررہی ہے کہ ایک بہت بڑی عظیم اور منفرد قوم ہے۔ جس کے پاس صبر و استقامت کا عظیم سرمایہ موجود ہے۔ فلسطینی ملت عرب ممالک کی بھونڈی پالیسیوں کے باوجود ناامیدی کو اپنے دلوں میں جگہ نہیں دیتے۔ برے حالات کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری نہیں رہ سکے گا۔ علاقائی اور بین الاقوامی صورت حال تبدیل ہوجائے گی۔ مسقبل قریب میں عظیم تبدیلیاں رونما ہونگی۔ مزاحمت کے آپشن کے معتبر ہونے اور ساز باز کے بے اعتبار اور عبث ہونے کے سلسلے میں عالم عرب اور دنیائے اسلام کے عوام کی آگہی کی سطح،بہت بلند ہوگئی ہے۔ یہ مسائل روز بروز زیادہ سے زیادہ واضح و روشن ہورہے ہیں۔
فلسطین کی آزادی کا واحد راستہ مزاحمت ہے اور اسرائیل کا ہمارے علاقے میں کوئی مستقبل نہیں ہے اور حتی قدس میں بنائے جانے والی کالونیوں میں تعمیرہونے والے گھر ان کے اصل مالکوں کو لوٹیں گے۔
میں مزاحمت کے سلسلے میں شک و تردد کا شکار فلسطینی گروپوں سے چاہتا ہوں کہ اس آپشن کو تسلیم کریں؛ اگر فلسطینی انتفاضہ تحریک ـ جو بعض اندرونی اور بیرونی وجوہات کی بنا پر رک گئی ہے ـ دوبارہ سراٹھائے تو اسرائیل متزلزل ہوجائے گا۔
امت اسلامی کو چاہئے کہ اس علاقے میں مزاحمت کے آپشن کو تقویت پہنچائیں۔ کیونکہ یہی قدس شریف اور مسجدالاقصی سمیت فلسطین کی “قیامت کلیسا” کی آزادی کا واحد راستہ ہے۔

 

متعلقہ مضامین

Back to top button