دنیا

انڈونیشیا میں شیعہ مسلمانوں کو مذہب تبدیل کرنے کا الٹی میٹم، بصورت دیگر قتل کر دئے جانے اور گھروں کو مسمار کرنے کی دھمکی

nigeryaعید الفطر کے موقع پر مادورا واپس آنے والے متعدد شیعہ افراد کو مذہب شیعہ چھوڑ کر سنی مذہب اختیار کرنے کا الٹی میٹم دیا گیا۔ یا پھر مشرقی جاوا آئی لینڈ چھوڑنے کو کہا گیا۔ متعدد شیعہ افراد کو ان دنوں اس صورت حال سے گزرنا پڑ رہا ہے جس میں انہیں ذبح کرنے اور گھروں کو مسمار کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ یہ مہم مقامی گورنمنٹ، پولیس، انڈونیشین علما کونسل اور پولیٹیکل ایجنسی کی سپورٹ سے شروع ہوتی نظر آتی ہے۔ سمپانگ ضلعی گورنمنٹ اور سنی علما کا شیعہ افراد کو ان کے مذہب سے ہٹا کر سنی مذہب اختیار کرنے پر مجبور کیا جانے لگا ہے۔مت حسن جو کہ نانگ کرنانگ گاوں کا مقامی رہنما کا کہنا تھا کہ یہ لوگ درحقیقت شیعہ کو یہاں نہیں دیکھنا چاہتے ۔ اس کا کہنا تھا کہ سمپانگ میں انڈونیشین علما کونسل نے مجھے راہ راست پر آنے کے لئے کہا۔ سمپانگ کے وہابی سنی علما مسلسل شیعہ افراد کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ نوخولس کا کہنا تھا کہ اسے سمپانگ میں سنی مولوی سیف الدین کے گھر زبردستی بھیجا گیا جب وہ اور چار دیگر شیعہ افراد وہاں پہنچے تو وہاں مقامی مذہبی امور کی ایجنسی کے سربراہ فتح الرحمن، نیشنل یونٹی اور پولیٹیکل ایجنسی کے سربراہ رودی، ایم یو ٓآئی سمپانگ برانچ کے سربراہ عبدالمنان، سمپانگ کے ضلعی سربراہ اور سمپانگ پولیس کے سربراہ سے موجود تھے۔
انہوں نے ہمیں ایک لیٹر تھمایا اور اس پر دستخط کرنے کو کہا جس پر یہ لکھا تھا کہ ہم اپنی رضا مندی سے صیحح اسلامی تبلیغات کی طرف آںا چاہتے ہیں۔ بصورت دیگر لوگوں کو اختیار ہے کہ وہ مجھے قتل کر دیں یا ہمارے گھر جلا دیں۔ نوخولس نے شیعہ مذہب چھوڑ کر سنی مذہب کو اختیار کرنے سے انکار کر دیا۔ جس پر سیف الدین نے کہا کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ تم فوری یہ گاوں چھوڑ دو۔ نوخولس کو پولیس سٹیشن لے جایا گیا اور پولیس نے ان کے گھر کا سارا سامان اٹھا لیا۔ جس کے بعد وہ تاجنگ شمالی جکارتہ اپنے بھائی کے پاس منتقل ہو گیا ۔ اسکا کہنا تھا کہ اسے نہیں معلوم کہ باقی4 شیعہ افراد کا کیا ہوا۔ اسی طرح کے ایک واقع میں سمپانگ میں واپس لوٹ کرآنے والی ایک خاتون کو مقامی انتظامیہ کی طرف سے حراساں کیا گیا اور اسے مذہب تبدیل کرنے کے لئے لیٹر پر دستخط کرنے کے لئے مجبور کیا گیا۔ جس پر اسے بلوران گاوں سے نکلنے کی دھمکی دی گئی اور اسے کہا گیا کہ اگر وہ انکار کرے گی تو اسکے والدین کے گھر کو جلا دیا جائے گا اور اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ جس پر اس خاتون نے وہ گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر دیا۔
ایک اندازے کے مطابق سنی مذہبی انتہا پسندوں پولیس افسران اور حکومت کی طرف سے دھمکیوں کے باعث 35 شیعہ افراد سے مذہب شیعہ چھوڑنے کے لیٹر دستخط کروائے گئے کیوں کہ اگر وہ لیٹر دستخط نہ کرتے تو قتل کر دیا جاتا اور ان کے گھروں کو جلا دیا جاتا۔
یاد رہے گزشتہ سال اگست 2012 میں 20 سے زائد شیعہ افراد کو شہید کر دیا گیا جب کہ متعدد گھروں کو جلا دیا گیا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button