دنیا

اولیائے خدا کے پیغامات کی ہر دور میں ضرورت

india110اسلام دین محبت ہے، دین خدمت ہے، اسلام فلاحی معاشرہ اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے والے سماج کی تشکیل پر زور دیتا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ انسان کو انسان کی خدمت کیلئے بیدار کیا جائے ، خدمت خلق سے بڑھکر کوئی اور عبادت نہیں ہے۔ سب سے بڑی عبادت دوسروں کے کام آنا ہے۔ اسلام نے یہ تصور دیا کہ جس نے ایک شخص کو بچا لیا گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔
 ان خیالات کا اظہار گزشتہ شب میلاد حضرت امام علی بن موسٰی الرضا علیہ السلام اور 800 سالہ عرس خواجہ معین الدین چشتی (رح) کے موقع پر امام رضا (ع) ثقافتی مرکز دہلی اور جامعہ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے ذریعہ فیکلٹی آف انجینئرنگ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں منعقد سمپوزیم ‘‘امن ، محبت اور بھائی چارہ کے فروغ میں پیغامات اولیائے خدا کے اثرات’’ میں مقررین نے کیا۔

ڈاکٹر ماجد پاریکھ ناگپوری نے کہا کہ جس نبی رحمت (ص) کے حجۃ الوداع کے خطبہ کو ملحوظ رکھ کر اقوام متحدہ نے انسانیت پر مبنی اپنا چارٹر تیار کیا تھا، ج اسی کی شان میں گستاخی کر کے کچھ قومیں اپنے حسد کا ثبوت پیش کر رہی ہیں۔

سید شاہد مہدی سابق وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کہا کہ ہندوستان میں اسلام کی اشاعت میں اولیائے خدا کا ہاتھ رہا ہے۔ آج کے اس دور میں صوفیائے کرام کی محبت بھری تعلیمات کو عام کر کے ہی نفرت و انتشار کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

معروف عالم دین ڈاکٹر سید کلب صادق نے کہا کہ اس دنیا کو اگر خطرہ ہے تو وہ صرف امریکہ سے ہے۔ وہی امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس کا امن کا نعرہ دراصل ساری دنیا کو غلام بنانے کا ہے۔ یہ ملک دنیا میں ایٹم کی مخالفت کرتا ہے مگر سب سے پہلے اسی نے ہی ایٹم کا استعمال کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ حال کے دنوں میں مسلمان اور اسلام کے خلاف منظم سازش کی گئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان جوش سے نہیں بلکہ ہوش سے کام لیں۔ احتجاج کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ ہمارے ذریعہ جانی و مالی نقصان نہ ہونے پائے جیسا کہ پڑوسی ملک کے عوام نے کیا ہے۔

ایرانی دانشور حضرت آیت اللہ مہدی مہدوی پور نے حضرت امام رضا علیہ السلام اور صوفیائے ہند کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا علمی ترقیوں کا دور تھا خاص کر اس زمانے میں طب اسلامی پر بہت کام ہوا۔ حضرت امام رضا علیہ السلام نے مامون رشید کی درخواست پر ایک طبی کتاب تحریر کی ہے جس کو مامون نے سونے کے پانی سے لکھوایا اور اس کا نام ‘‘رسالہ ذہیہ’’ پڑا جس کا مختلف زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اولیائے خدا کے پیغامات کی ہر دور میں ضرورت رہی ہے۔ یہ ان کی تعلیمات کا ہی اثر ہے کہ ہندوستان جیسے عظیم ملک میں جہاں مختلف قوم و مذاہب کے لوگ رہتے ہیں کے بیچ دوستی، محبت، اخوت کا بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

پروگرام کے آخر میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء (رح) کے سجادہ نشین پیرزادہ سید سراج مدنی نظامی نے دعا کرائی۔

پروگرام کی نظامت ڈاکٹر عظیم امروہوی نے فرمائی اور آغاز مولانا حیدر مہدی کی تلاوت سے ہوا جبکہ ڈاکٹر عظیم امروہوی، شعیب نوگانوی، سکندر امروہوی ، عرشی واسطی نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button