دنیا

ہندوستان کے سینئر صحافی محمداحمدکاظمی کی گرفتاری، موساد کا کھی

shiitenews muhammed ahmed kazmiہندوستان کے سینئر صحافی محمد احمد کاظمی کی گرفتاری بلا شبہ صہیونی حکومت کے ایما پر عمل میں آئی ہے اور قرائن و شواہد سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ کاظمی جیسے ایک پیشہ ورصحافی کو اس کیس میں جان بوجھ کر پھانسا گیا ہے۔
ایک ایسے کیس میں جو بذات خود مشکوک ہے۔ محمد احمد کاظمی ایک حقیقت پسند صحافی کی حثیت سے جو کچھ سپرد قلم کرتے رہے ہیں اسکا

ایک ایک لفظ نشتر بن کر غاصب صہیونی حکومت اور اس ہمنواؤں کے قلوب کو چھلنی کرتا رہا ہے اور امریکہ کی چالوں اور سازشوں کو بے نقاب کرکے عوام تک حقائق منتقل کرنا، دنیا کی سب سے بڑی تسلط پسند طاقت کو للکارنے کے مترادف ہے.
اور وہ بھی ایسے ماحول میں جہاں مغرب نواز میڈیا کا طوطی بولتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق مغرب سے وابستہ اور مغرب نواز میڈیا محمد احمد کاظمی کی گرفتاری سے متعلق جس انداز میں خبریں دے رہا ہے وہ ایک سوچی سمجھی سازش کا غمازہ ہے کہ جس پر غور و خوض کی ضرورت ہے بالکل اسیطرح جس طرح دلی بم دہماکے کے فورا بعد، اور ایک سنجیدہ شخصیت کے بقول، صرف 15 منٹ کے اندر اسرائیل نے اسلامی جمہوریہ ایران کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دینا شروع کردیا تھا۔غور طلب بات یہ کہ پندرہ منٹ کے اندر صہیونی حکام اس واقعے سے مطلع بھی ہوجاتے ہیں اور ان یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ اس واقعے میں ایران کا ہاتھ ہے۔ بم دھماکے اسرائیل کے اندر بھی ہوتے ہیں لیکن صہیونی حکومت ان دھماکوں ایران کا نام نہیں لیتی، اس لئے کہ اس سے اس کی سبکی ہوگی کہ ایران کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں وہ صہیونی حکومت کی خود ساختہ قلمرو کے اندر اثر ونفوذ رکھتا ہے۔ہندوستان کا سارا آزاد میڈیا اس واقعے تعلق سے محمد احمد کاظمی کو بے قصور سمجھتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ محمد کاظمی کو اسرائیلی مظالم کے خلاف بولنے اور لکھنے سزادی جاری ھے کہ جسے کس قیمت پر برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مظالم پر بولنے اور لکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار ہندوستان میں کم نہیں ہیں، لیکن ان کی نسبت ایک فرق یہ ہے کہ محمد احمد کاظمی ایرانی میڈیا کے لئے بھی رپورٹنگ کرتے ہیں۔دلی میں صہیونی حکومت کے سفارتخانے کی جس گاڑی پر مبینہ بم دھماکہ ہوا، اس میں لگی آگ کو بجھتے تو سب نے دیکھا اور ہندوستانی میڈیا بھی اس کی فلم دکھائی لیکن اس مشکوک حملے میں زخمی ہونے والی اسرائیلی خاتون اور کار ڈرائیور کی معمولی سی بھی جھلک نظر نہیں آئی اور بال کی کھال نکالنے والے ہندوستانی میڈیانے، ایک بار بھی زخمیوں کی تصویر لینے یا ان کا انٹرویو کرنے کی زحمت گورا نہیں کی علاوہ ازیں اور بھی کئی ایسی باتیں ہیں جو اس واقعے کے مشکوک ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔اس میں دو رائے نہیں کہ حالیہ چند برسوں میں تل ابیب اوردہلی کے درمیان رابطے بہت بڑھے ہیں اور صہیونی حکومت کی بدنام زمانہ جاسوس تنظیم موساد کو سرزمین ہند پر اپنی سرگرمیاں دکھانے کا موقع مل گیا ہے۔ بلاشبہ دہلی میں واقع نام نہاد صہیونی سفارتخانے کی گاڑی پر مشکوک حملہ موساد کا ہی کارنامہ ہے اور اس میں کسی مسلمان صحافی کو ملوث قرار دینا کہ جس کے ایران کے ساتھ پیشہ ورانہ بنیادوں پر رابطے ہوں، صہیونی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔البتہ اس بیچ ہندوستانی خفیہ اداروں اور سیکورٹی اہلکاروں کا کردار بھی سامنے رہنا چاہیے کہ جن کے پیکر پر مسلم دشمنی دھبے ایک دم نمایاں ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button