مشرق وسطی

اْردن میں سلفی جہادیوں کی طرزِ زندگی

urdanاْردن کے دارالحکومت عمان کے مشرق میں واقع زرقا شہر سلفی جہادی تحریک کا مضبوط گڑھ ہے۔
یہ عراق میں القاعدہ کے رہنما ابو مصعب الزرقاوی کا آبائی قصبہ ہے جنھیں سنہ 2006 میں ایک امریکی فضائی حملے میں مار دیا گیا تھا۔ اس وقت یہاں کے رہنما ایک اور جہادی عبداللہ ہیں جو حال ہی میں شام میں جہاد کر کے واپس آئے ہیں۔
عبداللہ (یہ ان کا اصلی نام نہیں ہے) سمگلروں کی مدد سے سرحد عبور کر کے شام میں داخل ہوئے تھے۔ واپسی پر انھیں گرفتار کرنے کے بعد میں رہا کر دیا گیا۔
عبداللہ کے کمرے میں ایک جہادی کالا جھنڈا دیوار پر آویزاں ہے جس سے واضح اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سلفی تحریک کا حصہ ہیں۔
ان کے والد بھی سابق جہادی ہیں اور وہ ابو مصعب الزرقاوی اور ان کے روحانی پیشوا ابو محمد المقدسي کے دوست تھے۔ ابو محمد المقدسي کو دنیا کے بااثر ترین جہادی پیشواؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ وہ سنہ 2011 سے اْردن میں جیل میں قید ہیں۔
عبداللہ کا کہنا تھا کہ وہ شام میں’نصیریہ کافروں کے ہاتھوں ظلم کے شکار اپنے مسلمان بہن بھائیوں‘ کے دفاع کے لیے گئے تھے۔ علوی مسلک کو، جس سے شام کے صدر بشارالاسد بھی تعلق رکھتے ہیں، حقارت کے طور پر ’نصیریہ‘ کہا جاتا ہے۔
عبداللہ نے شام میں لڑائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسے اپنی مذہبی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔
شام میں تین سال پہلے جنگ شروع ہونے کے بعد سے یہ ملک دنیا بھر کے جہادیوں کا مرکز بن گیا ہے۔ ان میں النصریٰ فرنٹ، عراق اور الشرق میں مملکت الاسلامیہ فی العراق والاشام سب سے نمایاں ہیں۔
ہم نے جن جہادیوں سے بات کی، انھوں نے ہمیں بتایا کہ کسی بھی فرد کا شام کی سرحد عبور کرنے کا انحصار اس فرد کا اْردن کے خفیہ اداروں کے ساتھ ریکارڈ پر ہوتا ہے۔
اگر کسی جہادی کا خفیہ اداروں کے پاس کوئی ریکارڈ نہ ہو اور وہ ان کے لیے انجان بھی ہوں تو وہ ترکی کے راستے سفر کر کے مملکت الاسلامیہ کے ساتھ شامل ہو سکتا ہے جو شام کے جنوبی علاقوں میں بہت مضبوط ہے۔
اْردن میں جہادیوں کا اندازہ ہے کہ شام میں ان کے تقریباً 700 سے 1000 تک پیروکار ہیں۔ اس اعداد و شمار کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوئی۔
جب عبداللہ نے والد کو ٹیلیفون کر کے بتایا کہ وہ شام سے واپس آ رہے ہیں تو ان کے والد بہت برہم ہو گئے۔ اور وہ اس وقت تک نہ مانے جب تک عبداللہ نے انھیں نہیں بتایا کہ ان کے پاس جہادی میدان سے جانے کے لیے ’شرعی جواز‘ موجود ہے جو انھیں شام سے جانے کی اجازت دیتا ہے۔
عبداللہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ ’شرعی جواز‘ کیا تھا۔
عبداللہ کے والد نے ہمیں بتایا کہ ان کے کئی بچے ہیں جن میں سے کوئی بھی سرکاری سکول نہیں گیا۔
بعض جہادی اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں بھیجنے سے کتراتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سکول بشمول اْردن کے عرب ممالک کی ’کافر حکومتوں‘ سے منسلک ہیں۔
ابو محمد المقدسي نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا، ’سکول چھوڑ کر جنگجو تیار کرنا۔‘ یہ کتاب جہادیوں میں خاصی مقبول ہے۔
جہادی سرکاری نوکری کو بھی حرام سمجھتے ہیں۔
عبداللہ اور ان کے والد کہتے ہیں کہ جہادی شادیوں کے موقعے پر یا کسی جہادی کے جنازے میں مل بیٹھتے ہیں جو جنگ میں ہلاک کیا گیا ہو۔
جہادی ان جنازوں کو شادی جیسا خوشی کا موقع سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں مرنے والے کی بہت زیادہ تعریف کی جاتی ہے۔ ان موقعوں پر اکثر جشن منایا جاتا ہے جس میں جہاد کی ترغیب دینے کے لیے شاعری، تقاریر، اور حمد و ثنا پڑھی جاتی ہیں اور ’شہید‘ ہونے والے کو یاد کیا جاتا ہے۔
اْردن کی حکومت کے ترجمان محمد المومانی نے بی بی سی کو بتایا کہ حکام قانون کے مطابق جہادیوں سے نمٹ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ بتانا مشکل ہے کہ اْردن میں جہادیوں کی تعداد کتنی ہے۔
اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردن میں جہادی تحریک نے سماجی و سیاسی شکل اختیار کی ہے، لیکن اندر سے یہ اب بھی اسی طرح جنگجوؤں کی تنظیم ہے۔
کلک

متعلقہ مضامین

Back to top button