مشرق وسطی

شیعیان بحرین کے قائد: سیاسی نظام کی اصلاح بحرینی عوام کا سب سے چھوٹا مطالبہ ہے

shiitenews_shikhe_essa_qasim_spechق آیت اللہ شیخ عیسی احمد قاسم نے امیرالمؤمنین (ع) کی ولادت کی مناسبت سے آپ (ع) کی سیرت کا جائزہ لیتے ہوئے کہا: متقین عالم کے اولین پیشوا حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی زندگی خالص محمدی اسلام کا نمونہ کاملہ ہیں یہاں تک کہ آپ (ع) کی زندگی کا ہر لمحہ دین کی اقدار اور احکام سے بھرپور ہے اور دنیا میں کوئی بھی دعوی نہیں کرسکتا کہ علی علیہ السلام کے قول و فعل یا زندگی کا کوئی پہلو اسلام سے مطابقت نہیں رکھتا۔
انھوں نے عقیلۂ بنی ہاشم سیدہ زینب کبری سلام اللہ علیہا کے روز وفات کی آمد پر مسلمانان عالم کو تعزیت و تسلیت کہتے ہوئے کہا: حضرت زینب (س) نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آغوش میں پرورش پائی ہے اور آپ (س) نے عظیم و مقتدر شخصیات کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کیا ہے چنانچہ جن خواتین نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو اپنے لئے نمونۂ عمل قرار دیا ہے وہ ایمان، ثابت قدمی، عزم و استقامت کی مالک ہیں اور مختلف شعبوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہیں اور ان سے برابری کرتی ہیں اور عظمت و پامردی کے خوبصورت مناظر انسانیت کے سامنے پیش کررہی ہیں۔
آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے عرب انقلابات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ انقلابات پرامن ہیں اور پرامن جدوجہد ان سارے انقلابات کی مشترکہ قدر ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان انقلابات کو قلع قمع کرنے کی سازشوں اور دہشت گردی، قتل عام اور خونریزی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
شیعیان بحرین کے قائد نے کہا: حکمرانوں کا پرتشدد رد عمل عوامی مطالبات میں اضافے کا سبب بنا ہے اور لوگوں کے اعتراضات و احتجاجات میں شدت آئی اور جب حکومتوں کا رویہ تشدد آمیز ہو اور عوام بھی اپنے احتجاج کو شدت بخشتے ہیں تو ان حکومتوں کے رد عمل اور جبر و تشدد میں اضافہ ہوتا ہے اور سرکاری فورسز ان عوام کو قلع قمع کرتی ہیں جن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔
انھوں نے حکام کے ہاتھوں اقدار کی پامالی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا: عرب نظام ہائے حکومت نے کئی مہینوں سے دینی اقدار، شریعت اور قانون کے ضوابط و قواعد، معاشرتی اور بین الاقوامی عرف اور رویوں اور انسانی اقدار کو پامال کررہی ہیں اور آخر میں یہ تیونس اور مصر جیسی ڈکٹیٹر حکومتیں ہی ہیں جو شکست سے دوچار ہوجاتی ہیں لیکن جھرپوں اور جبر و تشدد اور عوامی مطالبات کی صدا کو زور زبردستی خاموش کرنے کی کوششوں سے ملکوں کو نقصان پہنچتا ہے اور ان کے مسائل میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے زور دے کر کہا: اقوام کم ہی اپنی پرامن جدوجہد کو جاری رکھنے پر قادر ہوتی ہیں لیکن اس طرح کی جدوجہد اپنے وطن کی خدمت شمار ہوتی ہے اور اس کے لئے صبر واستقامت اور کثیر مشکلات و مسائل برداشت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا: ملت بحرین اس سلسلے میں کامیاب ہوگئی ہے اور صبر و استقامت سمیت جدوجہد کے پرامن ہونے پر اصرار کرکے دنیا کو حیرت زدہ کردیا ہے۔
انھوں نے آل خلیفہ کی طرف سے اصلاحات کز دعؤوں کو بیہودہ قرار دیا۔
انھوں نے خبردار کیا کہ عوام کی پرامن تحریک تشدد پر بھی منتج ہوسکتی ہے۔
شیخ عیسی قاسم نے  124 روزہ انقلاب کے آغاز سے لے کر اب تک تمام خطبے کفن پوش ہوکر پڑھے ہیں اور اس خطبے میں بھی وہ کفن پوش ہی تھے۔
انھوں نے کہا: سرکاری فورسز لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کرنے سے بازرہیں اور عوام کو اپنے جائز حقوق کے لئے پرامن جدوجہد کے دائرے سے خارج ہونے پر مجبور نہ کریں۔
انھوں نے کہا کہ آل خلیفہ حکومت عوام کو تشدد آمیز اقدامات پر مجبور کرنا چاہتی ہے تا کہ اپنے لئے عوام کے وسیع طور قتل عام کا جواز فراہم کرسکے۔
انھوں نے عوام سے کہا: جدوجہد کے پرامن پہلو کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور تمام اجتماعات اور مظاہروں میں پرامن رہیں۔ جس طرح کہ شیخ علی سلمان کی طرح تمام بحرینی راہنماؤں نے بھی اس مسئلے پر زور دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ عوام سیاسی اصلاحات چاہتے ہیں لیکن اصلاحات حقیقی ہونی چاہئیں اور نمائشی اور ظاہری اصلاحات کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ لوگوں کو بنیادی اور قائل کردینے والی اصلاحات کی ضرورت ہے جن کے نتیجے میں ملک کے عوام کو خوشنودی اور سکون حاصل ہوجائے اوران کے دینی اور دنیاوی حقوق کے حصول کو ممکن بناسکیں اور عوام کی عزت و کرامت کیا تحفظ کرسکیں۔
انھوں نے کہا: اس وقت اصلاحات کے دعوے بے معنی ہیں جبکہ جیلیں عوام سے بھری پڑی ہیں۔ لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء کے حصول میں دشواریوں کا سامنا ہے، ہزاروں مزدور، ملازمین اور طلبہ کو روزگار اور تعلیم سے محروم کردیا گیا ہے اور دینی اعمال کی انجام دہی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور انقلاب اور انقلابی عوام کے خلاف حکومت کی جھوٹی تشہیراتی مہم بدستور جاری ہے ایسے میں اصلاحات کا دعوی چہ معنی دارد؟۔
آیت اللہ شیخ عیسی قاسم نے آخر میں کہا: ہم عدل و انصاف پر مبنی حیات چاہتے ہیں؛ لیکن انھوں نے ظالمانہ حیات مسلط کرنے کا عزم کررکھا ہے؛ ہم برادری اور اخوت پر مبنی معاشرہ چاہتے ہیں جبکہ وہ پارہ پارہ اور دشمنیوں سے بھرا ہوا معاشرہ چاہتے ہیں؛ ہم امن و آشتی سے سرشار وطن چاہتے ہیں جبکہ انہیں جنگ و جدل سے بھرپور ملک چاہئے؛ لیکن اللہ لا یخذل من اصلح عملہ = اللہ ان لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑتا جو اپنے اعمال کی اصلاح کرتے ہیں اور انہیں اس (اللہ) کے لئے خالص کردیتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button