مشرق وسطی
خلیفی فوجی عدالت سے بحرینی شاعرہ "آیات القُرمُزی” کو ایک سال قید کی سزا

خلیفی عدالت نے مذکورہ الزامات کی کوئی وضاحت نہیں کی اور یہ بھی نہیں کہا کہ ایک قلم اور ایک کاغذ لے کر ایک نوجوان خاتون کس طرح کا جرم سرانجام دے سکتی ہے؟ کیا وہ واقعی خلیفی افواج پر خودکش دھماکے کی نیت سے آئی تھیں؟ یا یہ کہ جہاں حکمرانوں کو تنقید سننے کی عادت ہی نہیں ہے وہاں حق کی صدا بلند کرنا بھی خودکش دھماکوں کے زمرے میں آتا ہے اور خودکش دھماکوں سے بھی بدتر ہے؟۔
آیات القرمزی نے میدان اللؤلؤہ میں عظیم اور تاریخی انقلابی دھرنے میں منظوم انداز سے خلیفی حکمرانوں کی مطلق العنانیت پر تنقید کرتے ہوئے ملک میں اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا اور جب آل سعود کے جلاد بحرین میں داخل ہوئے تو ہزاروں دوسرے افراد کی طرح آیات القرمزی کو بھی اغوا کیا گیا اور آج ان کو بولنے کی سزا دی گئی جبکہ بولنے اور سنانے کی آزادی کے عالمی ٹھیکیدار امریکی حکمران اسی وقت آل خلیفہ کے سفاک ولیعہد کے میزبان ہیں اور وھائٹ ہاؤس والوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لے کر ان کی زبردست آؤبھگت کرتے ہوئے خلیفی خاندان کو امریکہ کا تزویری ساتھی قرار دیا ہے جو بحرین کے ساحلوں پر امریکی بحری بیڑے کی حفاظت کررہا ہے۔
ادھر ایمنسٹی کی مشرق وسطی اور شمالی افریقن ڈیسک کے سربراہ مالکم اسمارٹ نے آیات القرمزی پر بغیر وکیل کے فوجی عدالت میں مقدمہ چلائے جانے پر اپنا شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بحرینی شاعرہ کو اپنی سوچ شاعری کی زبان میں بیان کرنے اور پرامن انداز میں اپنی فکر کی ترجمانی کرنے کی سزا دی گئی ہے۔
خلیفی فوجی عدالت نے اس سے قبل 17 مئی کو بحرینی خاتون "فضیلہ مبارک احمد” کو "ایک سرکاری ملازم پر حملہ کرنے” اور "عوام کو اعلانیہ طور پر خلیفی خاندان کے خلاف اکسانے” نیز "عوامی مظاہرون میں جرم کے ارتکاب کی نیت سے شرکت کرنے” کے الزامات لگا کر چار سال قید کی سزا سنائی تھی۔