مشرق وسطی

رہبر انقلاب کا فتوی اور اخوان المسلمین اردن کا خیر مقدم

ordanاردن کی جماعت اخوان المسلمین نے زوجات النبی (ص) کی حرمت کے حوالے سے حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے فتوی کی تعریف و تمجید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام نہایت قابل قدر ہے اور اس فتوی نے مسلمانان عالم کے اتحاد کا تحفظ کرنے اور مذہبی فتنوں کا سد باب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اردن کی جماعت "اخوان المسلمین” نے زوجات انبیاء علیہم السلام بالخصوص زوجات نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اہل سنت کے مقدسات و علائم کی کسی بھی قسم کی توہین کو حرام قرار دیئے جانے کے سلسلے میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے فتوی کی قدردانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فتوی پر توجہ مرکوز رکھنا اتحاد بین المسلمین کے لئے ضروری ہے۔
جماعت اخوان المسلمین اردن کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی یادداشت میں اس جماعت کے راہنما "ڈاکٹر ہمام سعید” نے کہا ہے کہ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ـ شیعیان اہل بیت (ع) کے اعلی ترین دینی مرجع کی حیثیت سے ـ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجات اور اہل سنت کے مقدسات کی توہین کو حرام قرار دیا ہے اور میں ان کے اس اقدام کو خراج تحسین و تقدیر پیش کرتا ہوں۔
ڈاکٹر ہمام سعید نے اس فتوی کو وحدت مسلمین کے تحفظ اور مذہبی فتنے کے سد باب کے لئے بہت اہم قرار دیا اور اسلامی امّہ سے اپیل کی ہے کہ عالم اسلام کی دشمن نمبر1 صہیونی ریاست اور اس کے حامی امریکہ کے خلاف متحد ہوجائیں۔
انھوں نے فلسطین، عراق اور افغانستان میں امت اسلامی پر دشمنوں کے حملوں کے ساتھ ساتھ ان کی طرف سے مذہبی تناؤ بڑھانے کی سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کے لئے گھات لگائے دشمن مسلمانوں کو دست بگریباں کرنے کی غرض سے فتنوں کی آگ بهڑکانا چاہتے ہیں اور معاندانہ سازشوں پر عمل پیرا ہو کر اپنے مذموم مقاصد تک پہنچنا چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ حال ہی میں سعودی عرب کے شیعہ اکثریتی شہر "الاحساء” کے علماء و عمائدین نے رہبر انقلاب اسلامی سے استفتاء کیا تھا جس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
"امت اسلامی ایک منظم بحران سے گذر رہی ہے اور یہ بحران اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان تفرقہ و انتشار دیتے ہوئے مسلمانوں کی صفوں میں وحدت کی ترجیحات کی عدم رعایت کا باعث بن رہا ہے اور یہ مسائل مسلمانوں کے اندرونی اختلافات اور فتنوں کی بنیاد بن رہے ہیں؛ امت کی تقدیر میں مؤثر اور حساس مسائل کے سلسلے میں اسلامی جدوجہد میں انتشار کا باعث بن رہے ہیں؛ اور اس انتہا پسندانہ روش کے نتیجے میں ارادی طور پر سنی مکتب کی علامتوں اور مقدسات کی مسلسل توہیں ہورہی ہے۔ ان مسائل کے پیش نظر بعض سیٹلائٹ چینلز، انٹرنیٹ ویب سائٹس پر علم و دانش سے منسوب بعض افراد کی جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجہ ام المؤمنین عائشہ کے سلسلے میں بھونڈے الفاظ اور صریح اہانت ـ جو ازواج النبی (ص) اور امہات المؤمنین کی شرافت میں خلل ڈالتی ہے ـ کے بارے میں آپ جناب کی رائے کیا ہے؟
چنانچہ ہم آپ جناب سے امید کرتے ہیں کہ آپ اسلامی معاشروں میں اضطراب کا سبب بننے والے مسائل اور مکتب اہل البیت علیہم السلام کی پیروی کرنے والے مسلمانوں سمیت دوسرے مسلمین پر نفسیاتی دباؤ کا موجب بننے والے مسائل کے بارے میں واضح شرعی موقف بیان فرمائیں گے جبکہ آپ جانتے ہیں کہ بعض فتنہ پرور عناصر بعض سیٹلائٹ چینلز اور انٹرنیٹ ویب سائٹس پر اسلامی دنیا کو آشوب زدہ کرکے مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔
آخر میں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کی عزت مستدام رکھے اور آپ کو اسلام اور مسلمین کے لئے ذخیرہ قرار دے”۔
جس کے جواب میں امام السید علی الحسینی الخامنہ ای حفظہ اللہ تعالی نے ذیل کا فتوی صادر فرمایا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ہمارے سنی بھائیوں کی علامتوں اور مقدسات کی توہیں بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجات پر تہمت باندھنا ـ جو ان کے شرف میں خلل پڑنے کا باعث ہو ـ حرام ہے بلکہ یہ امر تمام انبیاء خاص طور پر ان کے سرور و سردار رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ کی زوجات کے لئے محال ہے۔
…………..
{وضاحت:  جو تہمتیں حال ہی میں رسول اللہ (ص) کی زوجہ پر لگائی گئی ہیں شیعہ اعتقادات کے مطابق انبیاء کی زوجات حتی کہ حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں پر بھی نہیں لگائی جاسکتیں اور انبیاء (ع) کا حریم ان تہمتوں سے مکمل طور پر پاک ہے اور آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے فتوے کے دوسرے حصے کا مطلب یہی ہے}۔
…………..
یہ استفتاء سابق کویتی فوجی اور موجودہ نام نہاد شیخ "یاسرالحبیب” کی جانب سے زوجات نبی (ص) کے خلاف نہایت بھونڈی زبان استعمال کئے جانے اور شیعہ اعتقادات کی کلی طور پر پامالی کے بعد بھیجا گیا تھا۔ جس کا رہبر معظم نے جواب دیا اور شیخ الازہر سمیت شیعہ اور سنی علماء نے اس فتوی کا خیر مقدم کیا تا ہم وہابی ذرائع نے اس عظیم اقدام کو نظر انداز کرتے ہوئے یاسر الحبیب کا شکریہ ادا کیا اور سعودی مفتی اعظم نے کہا کہ یاسر الحبیب نے عرب ممالک میں تشیع کے فروغ کا سد باب کیا ہے اور اس نے اہل تشیع کے خفیہ عقائد کو آشکار کردیا۔ اس وہابی مفتی کے رد عمل میں شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی کا جواب ملاحظہ ہو
:
آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی
: یاسر الحبیب، سفیہ ہے اور وہابی اس سے بھی زیادہ نادان ہیں
یہ شخص ایجنٹ یا مأمور یا یا پھر سفیہ اور دیوانہ ہے لیکن اس سے زیادہ نادان بعض وہابی علماء ہیں جنہوں نے اس کی باتوں کو دستاویز بنا کر کہا کہ شیعیان اہل بیت (ع) نے اپنا باطن عیاں کردیا ہے / وہابیوں کی بےمنظقی اور نامعقولیت کی علامت یہ ہے کہ انھوں نے شیعہ علماء کی طرف سے اس قضیئے کی وسیع مذمتوں کو نظر انداز کیا مگر ایک بیوقوف یا ایجنٹ یا مأمور شخص کی باتوں کو اپنے موقف کی بنیاد بنایا / میں نے عقائد، تفسیر اور دیگر علوم میں تقریباً 140 کتابین لکھی ہیں اور کسی ایک کتاب میں بھی رسول اللہ (ص) کی زوجات کو بری نسبت نہیں دی گئی ہے مگر ہماری یہ تمام کتابین بھی دستاویز نہ بن سکیں اور اجنبیوں کے کٹھ پتلی کی یاوہ سرائی دستاویز قرار پائی۔
اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی نے اتوار (3 اکتوبر 2010) کے روز فقہ کے درس خارج میں شریک علماء و فضلاء سے خطاب کرتے ہوئے مذہب شیعہ کے خلاف نئی سازش کی طرف اشارہ کیا اور کہا: "آپ سب نے سنا کہ حال ہی میں لندن میں مقیم ایک ان پڑھ مولوی نما شخص شیعہ کے نام سے بعض مذاہب کے مقدسات کی توہین کا مرتکب ہوا ہے، اس نے زوجات النبی (ص) میں سے ایک کو بعض عجیب ناروا تہمتوں کا نشانہ بنایا ہے اور بعض زوجات کو سب و شتم اور دشنام طرازی کا نشانہ بنایا ہے”۔
انھوں نے کہا: "اس طرح کے افراد مذہب شیعہ کے نمائندے نہیں ہیں، یہ شخص ایجنٹ یا مأمور ہیے یا پھر سفیہ اور دیوانہ ہے مگر اس سے زیادہ نادان وہ وہابی علماء ہیں جنہوں نے اس کی یاوہ سرائیوں کو اپنے موقف کی بنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ "اس شخص کی باتوں سے اہل تشیع کا باطن آشکار ہوگیا ہے” حالانکہ سینکڑوں شیعہ علماء نے ایران، لبنان، عرب ممالک اور یورپ میں اس عالم نما شخص کی باتوں کی مذمت کی ہے اور سب نے یہی کہا ہے کہ وہ ایک سفیہ اور نادان شخص ہے۔
انھوں نے کہا: وہابیوں کی نامعقولیت کی علامت یہی ہے کہ انھوں نے بزرگ شیعہ علماء کی طرف سے اتنی ساری مذمتوں کو نظرانداز کیا اور ایک سفیہ یا اجنبوں کے نوکر یا ایجنٹ کی باتوں کو دستاویز بنایا اور اس کی بنیاد پر تشیع کے خلاف موقف اپنایا! ہم کہتے ہیں کہ اس شخص نے غلط کہا ہے اور جھوٹ بولا ہے اور وہ ان پڑھ ہے لیکن وہابیوں نے اس کی بات کو سینے سے لگا لیا ہے! میں نے عقائد اور تفسیر اور دیگر علوم میں 140 سے زائد کتابیں لکھیں ہیں جن میں زوجات نبی (ص) کے خلاف ناجائز بہتان تراشی دیکھنے کو نہین ملتی مگر وہابیوں کے نزدیک ہماری باتیں سند نہیں ہیں جبکہ وہ اس کٹھ پتلی شخص کی باتوں کو سند مان رہے ہیں۔
آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی نے اسلام کے خلاف استکبار و استعمار کی پیچیدہ سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ممکن ہے کہ لندن میں بود و باش رکھنے والے اس شخص نے بھی اجنبی قوتوں کے کہنے پر یہ اقدام کیا ہو اور حجاز کے وہابیوں نے بھی اسی سازش کے نتیجے میں یہ موقف اپنایا ہو؛ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ دے کر مسلمانوں کو دست بگریباں کردینا چاہتے ہیں تا کہ اجنبی قوتیں اپنے کام میں مصروف ہوجائیں اور اس علاقے سے اپنے مفادات حاصل کرسکیں اور یہاں کے وسائل اور مال و دولت سمیٹ کر لے جاسکیں۔
انھوں نے کہا: وہابیوں نے اپنی تشہیری مہم میں اہل تشیع سے کہا تھا کہ "اگر لندن میں بیٹھے شخص کی باتیں مذموم ہیں تو پھر شیعہ مراجع تقلید نے کیوں رد عمل نہیں دکھایا؟” جبکہ ہم سب نے اس کی مذمت کی اور ہم نے کہا کہ ہم زوجات نبی (ص) کی کسی قسم کی توہین جائز نہیں سمجھتے کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بالواسطہ توہین ہے اور ہمارا یہ موقف ولایت سیٹلائٹ چینل سے بھی نشر ہوا۔
آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی نے سوالیہ انداز میں کہا: کیا وہابی بھول گئے ہیں کہ امام خمینی نے سلمان رشدی کو مرتد قرار دیا؟ کیونکہ اس کی کتاب "شیطانی آیات” کا بڑا حصہ رسول اللہ (ص) کی زوجات کی توہین پر مبنی ہے۔ مگر وہابیوں نے سلمان رشدی کی مذمت نہیں کی بلکہ ہمارے امام راحل (رحمۃاللہ علیہ) نے اس کی مذمت کی؛ اب وہابی ان سب حقائق کو نظرانداز کرتے ہیں اور ایک پاگل شخص کی بات کو دستاویز قرار دیتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہابی منطق سے عاری ہیں۔ جبکہ اہل سنت کے بعض علماء نے ہمارے مذمتی بیانات کو دیکھا اور انہیں دیکھ کر خوشنودی کا اظہار کیا۔
آیت اللہ مکارم شیرازی نے امید ظاہر کی کہ مسلمان متحد ہوجائیں، دشمنوں کی سازشوں کا شکار نہ ہوں جو ہمیں آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ سابق کویتی فوجی اور موجودہ شیخ یاسر ـ جو اس وقت لندن میں بیٹھا ہے اور برطانوی حکومت نے اس کو ہر قسم کی سہولیات بھی دے رکھی ہیں ـ نے سترہ رمضان المبارک کو زوجہ رسول (ص) پر ناروا بہتان تراشی کی تھی چنانچہ شیعہ «شیخ عَمری»، «شیخ حسین معتوق»، «شیخ حسن صفار»، «شيخ علي آل‏محسن»، «شیخ عبدالجليل السمين»، «شیخ نمر» اور «سيد ہاشم السلمان» سمیت بہت سے شیعہ علماء نے اس کے موقف کی شدید مذمت کی اور آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بھی اس توہین زوجات رسول (ص) کی حرمت کا فتوی دیا لیکن برطانوی حکومت اور اس ملک کے نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں اس فتنہ پرور شخص کی حمایت کررہی ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button