مشرق وسطی

بحرین میں پارلیمانی انتخابات قریب، شیعہ مسلمانوں پر شدید دباؤ

Bahrains-parliamentary-electionsبحرین میں جوں جوں پارلیمانی انتخابات قریب آ رہے ہیں بحرین کی حکومت نے اس ملک میں بسنے والے شیعہ مسلمانوں پر دباؤ بڑھانا شروع کردیا ہے ۔ بحرین کی شاہی حکومت نے شیعہ تنظیموں کے اخبارات و جرائد کے اجازت ناموں کو منسوخ کرتے ہوئے ان کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ بحرین میں سرگرم اسلامی قومی وفاقی جماعت اور قومی جمہوری جماعت نے اعلان کیا ہے کہ ہمیں اپنی نشریات کو بند کرنے کا حکومتی حکمنانہ  موصول ہو گیا ہے اور ہمارے جرائد پر پابندی عائد ہو گئی ہے۔
ان دونوں تنظیموں نے بحرین حکومت کے اس فیصلے کو نہ صرف آزادی بیان کے خلاف بلکہ مذہبی اور مسلکی تعصب پر مبنی سیاسی فیصلہ قرار دیا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ شیعہ نشریات پر پابندی کے اس فیصلے سے پہلے بحرین حکومت نے آیت اللہ سیستانی کے نمائندے حسین میرزا عبدالباقی محمد عبدالرزاق المعروف آیت اللہ حسین النجاتی اور انکے اہل خانہ جنکی پیدائش بحرین کی ہے اور وہ اس ملک کے قانونی شہری ہیں کی شہریت منسوخ کر دی ہے۔ اس سے پہلے بحرین کے انٹیلی جنس اور سیکورٹی کے حکام منامہ شہر کی مسجد الہادی کے خطیب شیخ عبدالجلیل مقداد پر الہادی مسجد میں ہر طرح کی تقریر کرنے پر پابندی عائد کر چکے ہیں۔
بحرین میں ایسے حالات میں شیعہ مسلمانوں پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے کہ اس ملک میں جلد ہی یعنی 23 اکتوبر کو پارلیمانی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ بحرین کے گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں شیعہ مسلمانوں نے 40 میں سے 17 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ شیعہ تنظیموں نے اس مرتبہ اعلان کیا ہے کہ وہ حالیہ انتخابات میں 20 سے زائد نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اگر یہ بات عملی ہو جاتی ہے تو اہل تشیع کو بحرین کی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہو جائیگي اور یہ صورتحال حکمران جماعت کے لئے ہر گز خوش آئند اور قابل قبول نہیں۔
بحرین میں 70 فیصد آبادی شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن حکومت عرصے سے آل خلیفہ کے غیر شیعہ خاندان کے ہاتھ میں ہے۔ بحرین کے شیعہ مسلمان گزشتہ تین عشروں سے مسلکی تعصب اور امتیازي رویے کی چکی میں پس رہے ہیں اور اسکا اظہار کئی بار علاقہ میں سرگرم انسانی حقوق کی تنظيموں نے بھی کیا ہے۔
ان تنظیموں نے تشیع کے خلاف حکومت بحرین کے امتیازی رویے کے خلاف آواز بھی اٹھائی ہے۔ قاھرہ میں موجود انسانی حقوق سے متعلق تحقیقاتی مرکز، سعودی عرب کے انسانی حقوق کی جماعت، تیونس میں موجود انسانی حقوق کے دفاع کیلئے سرگرم ادارے سمیت کئی سماجی اور شہری حقوق کا دفاع کرنے والے اداروں نیز اس سے ملتی جلتی درجنوں غیرسرکاری تنظیموں نے بحرین کے اہل تشیع کو کچلنے کی بحرینی حکومت کے اقدامات کے خلاف اپنے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے.
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بعض عرب ممالک اہل تشیع کو دبانے اور انہیں سختی سے کچلنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ بحرین کی حکومت بھی ان عرب حکومتوں میں سے ایک ہے جو بحرین میں شیعہ آبادی کی شرح کو کم کرنے نیز جبر و تشدد سے شیعہ مسلمانوں کو کمزور کرنے کے درپے ہے۔ بحرین میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف جبر و تشدد اور انکے خلاف امتیازي رویہ اس حد تک شدت اختیار کر چکا ہے کہ بحرین کی پارلیمنٹ کے بعض اراکین اور علماء نے بھی اس طرح کے اقدامات کے نتائج اور ملکی سالمیت و استحکام کے حوالے سے حکومت کو خبردار کیا ہے جبکہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والی بعض عالمی تنظیموں نے بھی منامہ حکومت کے ان اقدامات کے خلاف بحرین کی حکومت سے انکی پالیسیوں کی تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہوئے انسانی اقدار اور انسانی حقوق کے تحفظ پر مبنی اقدامات انجام دینے پر تاکید کی ہے۔
بحرین حکومت کی متعصبانہ پالیسیاں اور انکا امتیازي رویہ اپنی جگہ قابل مذمت ہے لیکن اقوام متحدہ سمیت ایسے بیسیوں عالمی ادارے جب مذمت اور قراردادوں پر آتے ہیں تو کسی ملک کے ایک شہری پر ہونے والے مظالم کو بہانہ بنا کر اس ملک کے نظام اور عالمی
حیثیت کو نقصان پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کرتے، لیکن بحرین میں شیعہ ہونے کی وجہ سے انہیں ملک کے ہر شعبے میں پسماندہ رکھا جاتا ہے تو ان اداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
حکومت بحرین کا یہ مسئلہ ہے کہ اس نے اپنے شاہی نظام کو جمہوریت کا نقاب پہنانے کیلئے پارلیمنٹ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت بحرین کے حاکم کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ پارلیمنٹ مستقبل میں انکے گلے کی ہڈی بن جائیگي۔ بہرحال علاقائي تجزیہ کاروں کا یہ کہنا ہے کہ اگر آئندہ پارلیمنٹ میں شیعہ مسلمانوں کے نمائندوں کی اکثریت آ جاتی ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ بحرین کی شاہی حکومت اس لنگڑی لولی پارلیمنٹ کو بھی ختم کر دے۔
آج دنیا میں انسانی بیداری کا عمل تیزي سے جاری ہے۔ دنیا کی سوئی ہوئی قومیں بیدار ہو رہی ہیں، وہ اپنے غصب شدہ حقوق کو حاصل کرنے کیلئے میدان میں آ رہی ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب نیپال کی طرح مختلف عرب ممالک میں بھی شہنشاہیت اور آمریت کے خلاف صدائے احتجاج ایک ایسی سیاسی اور عوامی تحریک میں بدل جائے جو شاہوں کو تخت و تاج سے محروم کر دے۔
لبتہ
امریکہ نے ان عرب شیوخ کو ایک ایسے مخمصے میں گرفتار کر رکھا ہے کہ ایک طرف وہ انہیں عوامی احتجاج کا خوف دلا کر اپنی مرضی کے فیصلے ان پر لاگو کرتا ہے اور دوسری طرف عوامی نمائندوں کو جمہوریت کا دھوکہ دیکر انہیں بھی اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button