عراق

عراق اور امریکہ کے درمیان سیکورٹی معاہدہ

iraq amricaعراق اور امریکہ کے سیکورٹی حکام کے درمیان سیکورٹی اجلاس کو چند دن گزرنے کے بعد بغداد میں امریکی سفارتخانے نے اعلان کیا ہے کہ اس اجلاس میں دونوں ممالک کے درمیان ایک دائمی سیکورٹی معاہدہ طے پایا ہے۔
بغداد میں قائم امریکی سفارتخانے کی جانب سے ایسی حالت میں اس معاہدے کا انکشاف کیا گیا ہے جب عراقی وزارت دفاع نے اس اجلاس اور اس میں طے پائے جانے والے سمجھوتے کے بارے میں کچھ کہنے سے اجتناب کیا ہے۔
 امریکی سفارتخانے کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں آیا ہے کہ دونوں ممالک نے سیکورٹی کے شعبے میں باہمی تعاون میں فروغ،  عراقی کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ،  عراقی فور‎سز کی تشکیل نو اور علاقائی سلامتی کے سلسلے میں دونوں ممالک کے باہمی تعاون کا راستہ ہموار کرنے کے سلسلے میں تبادلۂ خیال کیا ہے۔
عراقی وزیر دفاع سعد دلیمی کی موجودگی میں عراق کے سیکورٹی حکام اور امریکی نائب وزیر دفاع جیمز میلر اور نائب وزیر خارجہ گوتمویلر کے وفد کی ایک میٹنگ ہوئی۔
 اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد عراق کے سیاسی حلقے خصوصا اس ملک کے اراکین پارلیمنٹ چونک سے گۓ۔ جس سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ عراقی حکومت امریکہ کے ساتھ دفاعی اور سیکورٹی کے شعبے میں خفیہ طور پر مذاکرات انجام دے رہی ہے۔ عراقی حکومت کا یہ غیر شفاف اقدام عراق اور خطے کے لۓ منفی نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔
عراق اور امریکہ نے سنہ دو ہزار آٹھ میں بغداد واشنگٹن سیکورٹی معاہدہ کیا تھا جس کے تحت دسمبر سنہ دو ہزار گیارہ کے اختتام تک امریکی فوجیوں کو عراق سے نکلنا تھا۔ لیکن اسی زمانے میں مبصرین اور سیاسی حلقوں کی جانب سے اس کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کیا گیا اور یہ اندیشہ ظاہرکیا گیا کہ امریکہ کے لۓ عراق کی اسٹریٹیجیک اہمیت کے پیش نظر اس سیکورٹی معاہدے کے پس پردہ ایک نئے سیکورٹی معاہدے کے تناظر میں امریکی فوجیوں کی عراق میں موجودگي کی ایک نئی تعریف کی جائے گی۔ عراق میں امریکہ کے طویل المدت مفادات پائے جاتے ہیں۔ امریکہ نے اسٹراٹیجیک لحاظ سے عراق میں اپنے لئے طویل المیعاد مفادات معین کررکھے ہیں جن کے تحفظ کے لئے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی بہانے سے عراق میں اپنے فوجی تعینات رکھے۔ اسی طرح امریکہ عراق کی فوجی ضروریات کے پیش نظر عراق کی فوج کی جدید کاری اور اس ملک کو طرح طرح کے ہتھیار فروخت کرنے کے درپئے ہے۔ اسی تناظر میں یہ خبریں بھی موصول ہوئي ہیں کہ کویت سے امریکہ کے تین ہزار فوجی عراق واپس جاچکے ہیں اور ان میں بیشتر فوجی صوبہ صلاح الدین کی بلد چھاونی اور الاسد ایر بیس میں تعینات ہوچکے ہیں۔ الاسد ایر بیس صوبہ الانبار میں ہے۔رپورٹوں کے مطابق ان فوجیوں میں افسر بھی دیکھے گئے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ سترہ ہزار مزید فوجی خفیہ طریقے سے عراق کے لئے روانہ ہوچکے ہیں۔ ایسے حالات میں عراق اور امریکہ کے دفاعی سکیورٹی معاہدے کی خبریں اس قیاس کو تقویت پہنچاتی ہیں کہ امریکہ عراق میں اپنی فوجی موجودگي کو دائمی شکل دینے کی کوشش کررہا ہے بالخصوص اس وجہ سے بھی ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ بغداد میں امریکی سفارتخانے کے بیان میں اس معاہدے کو دائمی سکیورٹی معاہدے کا نام دیا گيا ہے۔ مبصرین نے امریکہ کے اس بیان پر اظہار خيال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ غیر معینہ مدت تک عراق میں اپنے فوجی تعینات رکھنا اور اس ملک میں اپنی فوجی اور سکیورٹی کاروائيوں میں وسعت لانا چاہتا ہے۔ جو چیز مسلم ہے وہ یہ ہے کہ دفاعی اور سیکورٹی مسائل نیز عوام اور پڑوسی ملکوں کی سلامتی سے جڑے مسائل پر خفیہ معاہدوں کو عوام ہرگز تسلیم نہیں کرتے  اور حکومت عراق کی جانب سے ایسا کوئي بھی معاہدہ عوام کی حمایت سے ہی کامیاب ہوسکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button