عراق

‏عراق میں بدامنی پھیلانے سے آل سعود کے مقاصد کیا ہیں

whabi Saudiaرپورٹ کے مطابق ایک عراقی اخبارنویس نے کہا ہے کہ سعودی عرب عربی بہار کی لہر ریاض تک پہنچنے کے خوف سے عراق کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا ہے۔
عراقی اخبار "السیاسہ” کے چیف ایڈیٹر عادل المانع نے العالم کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عراق میں بدامنی سے عراق کا پہلا مقصد عراق کو نقصان پہنچانا ہے کیونکہ اگر عرب سپرنگ کی لہر ریاض تک پہنچے اور اس ملک سے تیل کی برآمدات بند ہوجائیں تو عراق ہی اس ملک کے واحد متبادل کے طور پر روزانہ ایک کروڑ بیرل تیل برآمد کرے گا چنانچہ سعودی حکمران عراق کو بدامنی اور دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں تا کہ عراق تعمیر کے مرحلے میں ناکام اور سیاسی حوالے سے مستحکم رہے اور دنیا میں یہ توقع وجود میں نہ آنے پائے کہ سعودی تیل کی برآمدات بند ہونے کی صورت میں عراق اس کا نعم البدل ہوسکتا ہے۔
المانع نے کہا کہ جو بم دھماکے اور دہشت گردانہ حملے 2004 سے عراق میں شروع ہوچکے ہیں ان کے اندرونی اور بیرونی اسباب ہیں اور یہ دھماکے اور یہ قتل عام ملک میں سیاسی بحران اور اختلافات سے براہ راست تعلق رکھتا ہے اور یہ اختلافات مکل کی فضا کو بحران اور کشیدگی سے دوچار کررہے ہیں۔
انھوں نے کہا: عراق کی بدامنیاں اس ملک کی صورت حال کو بگاڑنے کے لئے ہیں اور سعودی عرب ان بدامنیوں اور دہشت گردیوں میں ملوث ہے جبکہ بعض عراقی گروہ اور جماعتیں بھی بیرونی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔
المانع نے کہا: قطر اور ترکی سعودی عرب کی قیادت میں دہشت گرد شام میں بھجوا کر دنیا کو جتانا چاہتے تھے کہ گویا شام کی صورت حال بھی عربی بہار کی مانند ہے لیکن جب وہ اس سازش میں مکمل طور پر ناکام ہوئے تو اب عراق میں اسی سازش پر عملدرآمد کرنا چاہتے ہیں تا کہ وہ شام میں اپنے پروگراموں اور منصوبوں کو متوازن بنا دیں۔
ادھر ایک عراقی محقق نے کہا ہے عراق میں بدامنی اور دہشت گردی کا ایک سبب اندرونی جماعتوں اور گروپوں کے درمیان عدم مفاہمت ہے۔
جامعۂ بغداد کے تحقیقاتی مرکز کے رکن اور سیاسی تجزیہ نگار "ستار الجابری” نے عراق میں دہشت گردی اور بدامنی نیز انسداد دہشت گردی کے طریق کار کے بارے میں کہا: عراق کو سیاسی بحران کا سامنا ہے اور اس بحران کا حل کرنا بہت دشوار ہوچکا ہے۔
انھوں نے کہا کہ عراق کو معلومات کے حصول اور دہشت گردوں کے اقدامات کا سراغ لگانے میں کمزور ہے اور اگر ہم ان کمزوریوں کا ازالہ کریں تو تکفیریوں اور دہشت گردوں کی طرف سے کسی بھی کاروائی سے قبل ان کا راستہ روک سکيں گے۔
انھوں نے کہا: سعودی عرب سمیت خلیج فارس کی بعض عرب ریاستیں عراق میں دہشت گردی کی سرپرستی کررہے ہيں جس کا ایک مقصد عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کی حکومت کا تختہ الٹنا یا انہیں کنارہ کشی پر آمادہ کرنا ہے
انھوں نے فارس نیوز ایجنسی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا بغداد میں حالیہ دہشت گردانہ کاروائیوں اور بم دھماکوں کی طرف اشارہ کیا کہ عراق میں بم دھماکوں کا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے اور عراق میں تقریبا ہر روز بم دھماکے ہوتے ہیں جن کا ہدف شیعہ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تکفیری اور سلفی جہاں بھی ممکن ہو، شیعیان آل محمد (ص) کو نشانہ بناتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ شیعیان عراق پر تکفیریوں کے دہشت گردانہ حملوں کا ایک اہم مقصد شیعیان آل محمد (ص) سے انتقام لینا ہے کیونکہ عراق کے شیعہ فطری طور پر انتخابات کے نتیجے میں وہ سب کچھ حاصل کرچکے ہیں جو ان کا فطری اور انسانی حق تھا چنانچہ تکفیری گروپوں نے اپنے تمام حلیفوں کو عراق میں شیعہ باشندوں کے خلاف متحرک کیا ہے اور وہ ان سے انتقام لے رہے ہیں۔
انھوں نے عراق میں ایرانی زائرین پر سعودی عرب کے حمایت یافتہ تکفیری دہشت گردوں کے حملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: کہا جاسکتا ہے کہ عراق میں زيارت کی غرض سے آنے والے ایرانی زائرین کی اکثریت اہل تشیع سے تعلق رکھتی ہے لہذا انہیں نشانہ بنانے کا سبب ہے جس کی بنا پر شیعیان عراق نشانہ بن رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ عراق میں دہشت گردوں کو بیرونی مدد و حمایت حاصل ہے اور عراق میں 2003 سے ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں میں دہشت گردوں کو سعودی عرب سمیت خلیج فارس کی بعض عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے اور یہ ممالک عراق میں تشدد کو فروغ دینے کے لئے ہر روز دہشت گردی کے نت نئے طریقے آزما رہے ہیں۔
الجابری نے عراق میں دہشت گردوں کو حاصل سعودی حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: افسوس کا مقام ہے کہ سعودی عرب واحد ملک ہے جو عراق پر مسلسل دباؤ بڑھا رہا ہے اور عراقی حکومت کو تنہا اور عراق کے سیاست کو کمزور کرنے کی سازشیں کررہا ہے تا کہ نوری المالکی کی حکومت کا تختہ الٹ دیں لیکن میری رائے یہ ہے کہ جب تک اس ملک میں جب تک ایک قوم رہتی ہے جو اپنے اہداف کے حصول کے لئے قربانی دینے کے لئے تیار ہو، وہ ملک پسپا نہیں ہوتا اور ماضی میں نہیں لوٹے گا۔
انھوں نے عراق کی طرف سے شام کی حمایت کو آل سعود کی طرف سے دہشت گردی کو فروغ دینے کا سبب قراردیا اور کہا: کچھ عرصے تک عراق میں دہشت گردی میں کمی آئی تھی لیکن جب شام کے مسئلے میں عراقی حکومت نے دہشت گردوں کی حمایت کرنے سے انکار کیا اور شامی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا تو عراق میں تشدد آمیز کاروائیوں کو ایک بار پھر فروغ ملا کیونکہ عراقی حکومت شام کے مسئلے میں مغربی ممالک کی پالیسی کی حمایت کے بجائے، مغرب کے سامنے ڈٹ گئی چنانچہ مغربی ممالک اپنے علاقائی کٹھ پتلیوں کے ذریعے عراق سے اس فیصلے کا انتقام لے رہے ہیں اور عراق کی حکومت اور عوام کو ان کے مستحکم اور مستقل موقف کی سزا دے رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ عراق کی طرف سے حکومت شام کی حمایت کا محرک صرف اور صرف یہ ہے کہ عراق علاقے میں امن و استحکام چاہتا ہے جبکہ شام کے غیرمستحکم ہونے کی وجہ سے پورا خطہ غیر مستحکم ہوجائے گا۔ اور پھر جب عراق بحران کا شکار تھا تو شام نے عراقی قوم کی حمایت کی اور کئی لاکھ عراقی پناہ گزینوں کو پناہ دی۔ اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ شام علاقے میں اسرائیل مخالفت مزاحمت تحریک کا حصہ ہے اور اس ملک کی بہرحال حمایت کرنی چاہئے۔
سوریه در زمان بحران در عراق در کنار این کشور ایستاد و میلیون‌ها پناهنده عراقی را پذیرفت. سوریه از جمله کشورهای حامی مقاومت در منطقه است که باید از این کشور حمایت کرد.

متعلقہ مضامین

Back to top button