ایران

بہمن یکم فروری کو اپنے وطن واپس پہنچنے پر امام خمینی (رح) کا ایرانی عوام نے زبردست استقبال کیاتھا

shiite_imam_khomeini آج سے اکتیس سال پہلے  13 بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی مطابق دو فروری سنہ انیس اناسی (1979)   کو امریکی وزارت خارجہ نے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) کے ایران پہنچنے کے بعد آپ کے سب سے پہلے عوامی خطاب پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس تقریر کو امریکہ مخالف قرار دیا تھا۔ واضح رہے کہ 12 بہمن یکم فروری کو اپنے وطن واپس پہنچنے پر امام خمینی (رح) کا ایرانی عوام نے زبردست استقبال کیاتھا اور شہدائے انقلاب اسلامی کے قبرستان بہشت زہرا میں ایرانی عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے اپنے خطاب میں حضرت امام خمینی (رح) نے شاہ کی ظالم و جابر حکومت کی سب سے بڑی پشتپناہ امریکی حکومت کے خلاف اپنے کھلے موقف کا اظہار کیا تھا ۔  امریکی وزارت خارجہ کے بیان کے بعد صیہونی حکومت نے بھی حضرت امام خمینی (رح) کی ایران واپسی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ۔کیونکہ وہ بخوبی جانتی تھی کہ ایران کی انقلابی حکومت غاصب صیہونی نظام کی سخت ترین مخالف ہوگی۔امام خمینی (رح) نے اسلامی علوم کو حوزۂ علمیۂ قم میں حاصل کیا اور پہلوی حکومت کے خلاف اپنی جد وجہد اور مجاہدت کا آغاز اس وقت کیا جب رضاخان پہلوی نے سامراجیوں کے حکم سے ایران میں اسلام کی بیخ کنی کی بنیاد ڈالی۔سنہ 1963 ع میں آپ امریکہ اور شاہ پر براہ راست حملے کے الزام میں گرفتار کئے گئے آپ کی گرفتاری کی خبر سن کر عوام میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہروں کو کچلنے کے لئے شاہ کی فوج نے قتل عام کیا جس میں پندرہ ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے۔شاہ آپ کو موت کی سزا سنانے والا تھا مگر دیگر مجتہدین اور عوام کے دباؤ کی وجہ سے اس جرم کا ارتکاب نہ کرسکا بلکہ آپ کو آٹھ ماہ قید میں رکھ کر آزاد کردیا گیا۔سنہ 1964 ع میں آپ کو دوبارہ اسی الزام میں گرفتار کرکے ترکی اور پھر نجف اشرف جلاوطن کردیا گیا ۔ امریکہ اور شاہ پر اس دفعہ آپ کا حملہ پہلے سے زیادہ سخت تھا۔14 سال کی جلاوطنی اور شاہ و امریکہ اور عالمی صیہونیت کے خلاف بے پناہ جدوجہد کے بعد آخرکار امام خمینی (رح) کو 5 ستمبر سنہ 78ع کو عراقی بعثی حکومت نے بھی عراق سے نکال دیا آپ عراق سے پیرس چلے گئے۔رضاشاہ پہلوی نے ایران کو اپنی جاگیر سمجھ لیا تھا، پارلیمنٹ کے نمائندے شاہ کی پارٹی ” رستاخیز” سے چنے جاتے تھے وزیروں کو وہ خود مقرر اور برطرف کرتا تھا اور پولیس اس کے تابع تھی ملک کی اقتصادی اور سیاسی پالیسی بھی وہ وضع کرتا تھا۔ابلاغ عامہ کے ذرائع اس کے ماتحت تھے غرض کہ ملک کا سارا نظم و نسق اس کی مرضي سے چلتا تھا۔ قوم تقریر، تحریر، تنظیم اور اجتماع کے جمہوری حق سے محروم تھی۔ ارباب اختیار نہ عوام کے روبرو جوابدہ تھے نہ عوام ان سے کسی قسم کی بازپرس کرسکتے تھے۔ ایران ایک قید خانہ تھا جس کی چابی شاہ کی حبیب میں تھی۔امریکی تسلط اس جلتی پر تیل کا کام کررہا تھا کوئی ایسا شعبہ نہ تھا جس پر دوچار امریکی مسلّط نہ ہوں ان کی تنخواہیں اپنے ہم رتبہ ایرانیوں سے دس گنا بیس یاگنا زيادہ ہوتی تھیں اور ان کا برتاؤ بھی بڑا حاکمانہ تھا۔ان کو تنخواہ کے علاوہ دوسری مراعات بھی حاصل تھیں مثلا” ان کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا تھا اور نہ ان پر کسی ایرانی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا تھا۔ایران کی صنعت اور تجارت پر امریکی چھائے ہوئے تھے سبب سے اہم اور نفع بخش کاروبار تیل کا تھا جس کا سارا نظام ایک کنسورشیم کے سپرد تھا جس میں پانچ کمپنیاں امریکی تھیں اور ایک ڈچ ایک انگریزي۔تیل کی پیداوار کی آمدنی کا سارا حساب کتاب کنسورشیم کے غیر ملکی حکّام کرتے تھے ان کے بیان کے مطابق سنہ 1977 ع میں 5/ 30 کروڑ ٹن تیل نکالا گیا اس سے 42 ارب ڈالر آمدنی ہوئی مصارف کا تخمینہ 7 ارب ڈالر تھا جس کو وضع کرنے کے بعد 35 ارب ڈالر جو حکومت کو ملے وہ بھی امریکہ ، مغربی جرمنی، برطانیہ ، اور فرانس کے ٹھیکیدارون کی جیب میں گئے ، یا امریکہ سے جنگي ساز و سامان خریدنے میں صرف ہوئے ۔ انقلاب کے دوران اگر ” امریکہ مردہ باد” اور ” امریکیو ملک سے چلے جاؤ اور اپنے پالتو کتّے کو بھی ساتھ لے جاؤ ” کے نعرے لگتے تھے اور امریکی سفارتخانہ کے سامنے مظاہرے ہوتے تھے تو اس نفرت کے ٹھوس اسباب موجود تھے ۔امام خمینی (رح) اسلامی حکومت کے قیام سے پہلے بھی عالم اسلام کے ساتھ فلسطینیوں کے ہمدرد و مددگار اور اسرائیل سے نفرت کرتے تھے۔ اخوان المسلمین کو بھی حضرت امام (رح) اور ان کے پیرووں کی حمایت حاصل تھی ۔ فلسطین کانفرنس میں وہ اپنے نمائندوں کو خاموشی کے ساتھ بھیجتے تھے۔قاہرہ میں دارالتقریب اسلامی کی تشکیل کے سلسلے میں وہ آیت اللہ بروجردی کے ساتھ تھے بلکہ اتحاد اسلامی کے مسئلہ میں وہ اپنے پیشرو سید جمال الدین اسدآبادی سے زیادہ شدت پسند تھے اور وہ وحدت کلمہ کو کلمہ توحید کے ہم پلّہ گردانتے تھے لیکن اس اتحاد کی بنیاد ملیت اورپان اسلامزم پر نہیں اسلام پر تھی۔ یہ ان کا فیصلہ تھا جسے انہوں نے تحقّق بخشا اور ان کی زندگي میں ان کو کامیابی ہوئي ۔اسلامی جمہوریۂ ایران کے اسلامی نظام میں جہاں سامراج دشمنی اپنے عروج پر نظر آتی ہے وہاں عوام کی ملکی معاملات میں شرکت بھی اپنی مثال آپ ہے ۔امام خمینی(رح) عوام کو طاقت اور اقتدار میں شریک سمجھتے تھے آپ فرمایا کرتے تھے معیار عوام کی رائے ہے یعنی عوام جس کو انتخاب کریں عوام جس کو مسترد کریں حقیقی معیار وہی ہے آپ مجلس شورائے اسلامی یعنی قومی پارلیمنٹ کی اہمیت کے بارے میں فرماتے تھے پارلیمنٹ کو سب پر بالادستی ہے۔ اسلامی انقلاب کی تاریخ کا اگر سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سخت ترین بحرانوں میں امام خمینی(رح) نے پارلیمنٹ کی بالادستی پر حرف نہیں آنے دیا۔بنی صدر کی صدارت میں بعض ایسے مسائل سامنے آئے جن میں بعض افراد نے پارلیمنٹ اور قومی اداروں سے بالاتر ہوکر آپ کو بنی صدر کی صدارت کے خلاف اقدامات انجام دینے کا مشورہ دیا لیکن جب تک پارلیمنٹ نے بنی صدر کو صدارت کے لئے نااہل قرار نہیں دیا آپ نے اپنے صوابدیدی اختیارات کے باوجود بنی صدر کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں کی ۔امام خمینی (رح) عوام کی اہمیت اور حکومتی مسائل میں انکی شمولیت پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے سخت ترین حالات میں انتخابات کی روش کو ترک نہیں کیا ایک ایسے وقت جب پارلیمنٹ کے اراکین کی ایک بڑی تعداد اور ملک کا وزير اعظم اور صدر منافقین کے ہاتھوں شہید ہوگئے تھے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے اپنی مرضی کے افراد کو حکومت میں لانا کوئی مشکل امر نہ تھا لیکن آپ نے پارلیمنٹ کے اراکین اور صدر کے انتخابات کو اپنی اوّلین ترجیح قرار دیا اور اسلامی جمہوریۂ ایران کے آئین کے مطابق مقررہ وقت پر انتخابات کرائے۔آج ایران کے اسلامی انقلاب کی اکتیسویں سالگرہ منائی جارہی ہے اور اگر ایران کے گزشتہ تیس سالوں کا سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو ہر سال بلدیاتی، پارلیمانی،مجلس خبرگان یا صدارتی انتخابات میں کوئی نہ کوئی ایک ضرور منعقد ہوا ہے۔ گویا تیس سالوں میں تیس عوامی انتخابات۔امام خمینی (رح) کے جانشین ولی فقیہ قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی امام خمینی (رح) کے راستے کو زندہ رکھا ہوا ہے اور آپ نے بھی اپنی قیادت میں عوام کی رائے ، اقتدار میں عوام کی شرکت اور وقت مقررہ پر صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کے سلسلے کو برقرار رکھا۔ایران کے اسلامی انقلاب کی ان تمام جمہوری خصوصیات اور عوامی شرکت کے باوجود سامراجی طاقتیں اور جمہوریت کی روح سے عاری بعض آمرانہ حکومتیں ایران کے اسلامی نظام پر تنقید کرتی ہیں حالانکہ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے ممالک میں اوّل تو حقیقی جمہوریت کا وجود ہی نہیں ہے اور اگر کہیں ہے بھی تو الیکٹورل کالج اور اراکین پارلیمنٹ کی خرید و فروخت سے اپنے من پسندوں امیدواروں کو اقتدار میں لایا جاتا ہے ۔امریکہ کا انتخابی نظام اور امریکی حمایت سے اقتدار میں موجود بعض بادشاہوں اور آمروں کی مثالیں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button