مقالہ جات

کراچی: رینجرز کی گولیوں کا نشانہ بننے والے مراد علی کے اہل و عیال شدید مشکلات سے دوچار

murad aliکراچی میں گذشتہ دنوں رینجرز کی دہشت گردی کا نشانہ بن کر شہید ہونے والا ٹیکسی ڈرائیور تو چل بسا لیکن اب اس کے اہل وعیال کا مستقبل شدید خطرے سے دوچار نظر آتا ہے۔
زوہیب علی ٹیکسی ڈرائیور مراد علی کا ڈیڑھ سالہ بیٹا ہے جو اپنی زبان سے ٹھیک طرح اپنے باپ کو پکار بھی نہ سکا کہ جب کراچی کے علاقے گلستان جوہر
میں رینجرز نے اس کے والد کے سینے میں چار گولیاں اتار دیں۔ایک دن پہلے کی بات ہے کہ زوہیب علی اپنے والد کے ساتھ تھا لیکن بدھ کے روز کراچی میں رینجرز والوں نے اس کے والد کو دہشت گردی کا شکار بناتے ہوئے شہید کر دیا۔زوہیب کی ماں روتے ہوئے اپنے معصوم بچے کو دیکھ رہی ہے اور کوشش کر رہی ہے کہ کس طرح اپنے بے چین بیٹے کو بتائے کہ جس کی آنکھوں نے اپنے باپ کے سینے میں چار گولیاں اترتے دیکھی ہیں اور کس طرح اس معصوم بچے کو سمجھائے کہ اب وہ زندگی بھر کبھی بھی اپنے والد کو اپنی آنکھوں کے سامنے نہیں دیکھ پائے گا اور کس طرح اپنے اس بیٹے کو سمجھائے کہ جس کی زبان سے ٹھیک سے باباکا لفظ بھی ادا نہیں ہوتا کہ اب تمھارے بابا تمھیں اپنی گود میں نہیں اٹھا پائیں گے۔
اس ہنستے کھیلتے گھرانے کی زندگی ایک ہی دن میں اجر گئی ہے جب بدھ کے روز کراچی میں رینجرز کی دہشت گردی عروج پر پہنچی اور ایک ٹیکسی ڈرائیور کو سینے میں چار گولیاں مار کر شہید کر دیا، واضح رہے کہ شہید ہونے والا ٹیکسی ڈرائیور شیعہ اور عزادار امام حسین علیہ السلام تھا۔
معصوم اور بے گناہ شیعہ ٹیکسی ڈرائیور مراد علی اپنے بچے کی معدے میں تکلیف کے باعث اسے اسپتال لے کر گیا تھا جبکہ واپسی پر افطار کے لئے کچھ پھل خریدنے کے لئے رکا تھا کہ رینجرز اہلکار غلام رسول نے اسے اپنی دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہوئے بیوی اور بچے کے سامنے گولیوں سے بھون ڈالا اور ایک معصوم انسان کے سینے میں اس کے معصوم بچے کے سامنے چار گولیاں مار دیں جس کے نتیجے میں ٹیکسی ڈرائیور شہید ہو گیا۔
مراد علی کے بھائی اور اس کی بیوی کاکہنا ہے کہ جب مراد علی ٹیکسی سے باہر نکل رہا تھا تو اس کا معصوم ڈیڑھ سالہ بیٹا اس کی گود میں تھا تاہم رینجزر کے دہشت گردوں نے اسے معصوم بچے کی آنکھوں کے سامنے ہی دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہوئے گولیوں سے چھلنی کر دیا۔
شہید ہونے والے مراد علی کے ایک چچا زاد بھائی نے بتایاہے کہ شہید مراد علی کو ٹیکسی سے باہر نکال کر گولیاں ماری گئی ہیں کیونکہ ٹیکسی پر کسی قسم کی گولیوں کے نشانات ہیں اور نہ ہے گاڑی کے اندر خون کے دھبے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ رینجرز کے دہشت گردوں نے مراد علی کو ٹیکسی سے باہر گولیوں کا نشانہ بنایا ہے تاہم یہ الزام بے بنیاد ہے کہ وہ تیزی سے جا رہاتھا اور رینجرز کے روکنے پر نہیں رکا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو گاڑی پر پیچھے کی جانب سے یا سائیڈ سے گولیوں کے نشانات ضرور پائے جاتے۔
مراد علی کے گھر والوں کاکہنا ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور مراد علی کا جسد خاکی جناح اسپتال سے لیا گیا ہے تاہم اس وقت معصوم بچہ زوہیب اس کے ہمراہ نہیں تھا تاہم بعد ازاں پولیس تھانے سے بچے کو لیا گیاجب پولیس اہلکار بچے کو کیلے کھلا کر دل بہلانے میں مصروف عمل تھے۔
جامعہ کراچی کے معروف استاد پروفیسر حیدر رضوی جوکہ ماہر نفسیات ہیں کاکہنا ہے کہ اس قسم کے حادثات سے بچوں کے دماغ پر انتہائی گہرا اثر مرتب ہوتا ہے تاہم زوہیب علی کے دماغ سے یہ حادثہ زندگی بھر نہیں نکالا جا سکتا ۔
دوسری جانب مراد علی کی بیوی دعا اپنے معصوم بچوں کے مستقبل کے لئے فکر مند بھی ہے ، ایک بچے نبیل کی عمر آٹھ ماہ ہے جبکہ زوہیب ڈیڑھ سال کا ہے۔دعا کا مطالبہ ہے کہ مراد علی کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والے رینجرز دہشت گردوں کو پھانسی کی سزا دی جائے ۔وہ سوال کر رہی ہے کہ کیا رینجرز میرے شوہر کو واپس لا سکتی ہے؟ کیا رینجرز میرے بچوں کو پال کر بڑا کرے گی ؟ نہیں ایسا نہیں ہے تو پھر میرے بے گناہ شوہر کو کیوں اور کس جرم میں قتل کیا گیا؟
مراد علی کی دعا سے تین سال قبل ہی شادی ہوئی تھی اور امید تھی کہ وہ بچوں اور بیوی کے لئے بہتر مستقبل فراہم کر پائے گا۔وہ ہر قسم کی محنت مشقت کرکے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دینا چاہتا تھالیکن اب سب کچھ ختم ہو گیا ہے، مراد علی کی بیوی سوال کر رہی ہے کہ اب میں یہ سب کیسے کر پاؤں گی؟
ایک طرف شہر کراچی میں کالعدم دہشت گرد گروہ کھلے عام دہشت گردی کرتے پھرتے ہیں لیکن یہی رینجرز اہلکار ان کو گرفتار کرنے کی بجائے ان کی سرپرستی کر کے معصوم اور بے گناہ شہریوں کے قتل کا باعث بن رہے ہیں جبکہ دوسری جانب یہی رینجرز کے دہشتگرد معصوم اور بے گناہ شہریوں کو سڑکوں پر کھلے عام انے گھر والوں کے سامنے گولیوں سے چھلنی کر دیتے ہیں آخر ایسا کیوں؟

متعلقہ مضامین

Back to top button