مقالہ جات

ملت کے رہنماوں کا امتحان

mwm sucملک میں عام انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ پاکستان کی تقریباً تمام چھوٹی بڑی پارٹیاں انتخابی میدان میں کود چکی ہیں۔ جہاں ملک کی سیاسی پارٹیاں الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں، وہاں مذہبی جماعتیں بھی انتخابات میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں اور بہت سے سیاستدان اور مذہبی جماعتوں کے سربراہ اس الیکشن کو ملک کی تاریخ کا انتہائی اہم اور حساس الیکشن قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یقیناً یہ الیکشن انتہائی اہم ہے، کیونکہ ایک طرف جہاں ملک میں مہنگائی کے طوفان نے عوام کو پریشان کر رکھا ہے تو دوسری طرف توانائی کے بحران سے لوگ نالاں ہیں اور ان سب سے بڑھ کر امن و امان کی خراب صورتحال سے لوگ سخت پریشان ہیں۔ اس لیے لوگ اب ایسی حکومت کی آس لگائے بیٹھے ہیں جو ان مسائل کو کنٹرول کر سکے، جس کے پاس مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کا فارمولا ہو، جس کے پاس توانائی کے بحران سے نجات کے لیے راہ حل موجود ہو اور جو امن و امان کی خراب صورتحال پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کا عزم بھی رکھتی ہو۔

الیکشن کی اس اہمیت اور حساسیت کا اندازہ جہاں ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں نے کیا ہے، وہاں ملت جعفریہ کی دو جماعتوں نے بھی آنے والے انتخابات کو اہم اور حساس قرار دیتے ہوئے الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ دوسری طرف بعض لوگ اس الیکشن میں حصہ لینے کو حرام قرار دے رہے ہیں۔ مجھے ان لوگوں کی رائے سے بالکل اتفاق نہیں ہے جو موجودہ نطام کو طاغوتی نظام قرار دے کر لوگوں کو انتخابات میں شرکت سے منع کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ الیکشن میں حصہ لینے والوں کو طاغوتی نظام کا حامی و ناصر قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ ان کی اس منطق کو اگر درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر بات صرف الیکشن میں شرکت کے جائز نہ ہونے تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ اسی حکومت اور نظام کے اندر موجود تمام سرکاری اداروں اور محکموں میں بھی شرکت طاغوتی نظام کی حمایت اور نصرت قرار پائے گی، کیونکہ تمام سرکاری ملازمین اسی نظام اور آئین کے ساتھ وفاداری کے پابند ہوتے ہیں اور وہ اسی نطام کے تحت بر سر اقتدار آنے والی حکومتوں کی ہی پالیسیوں کو مختلف شکلوں میں عملی جامہ پہنانے کا کام انجام دیتے ہیں۔
 
تو یوں کسی مومن اور دیندار شخص کو کسی بھی سطح کی سرکاری نوکری انجام نہیں دینی چاہئے! جبکہ اس کے برعکس میرا خیال یہ ہے کہ آپ کے الیکشن میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے اگر حقیقی طاغوتی نمایندے یا دہشت گرد گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اعلٰی ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں، اور پھر وہ کھل کر آزادانہ طریقے سے ان اداروں کا سہارا لے کر طاغوت کے لیے کام کرتے ہیں یا دہشت گرد گروہوں کو باقاعدہ قانونی تحفظ فراہم کرنے اور مکتب اہلبیت (ع) کے پیروکاروں کی فعالیتوں کو محدود کرنے کے لیے غیر اسلامی قانون سازی کرتے ہیں تو اس کی مسئولیت بھی یقیناً آپ کے کندھوں پر آئے گی، کیونکہ آپ نے میدان کو خالی چھوڑ کر ان عناصر کو آگے آنے کا کھلا موقع فراہم کیا۔

خیر؛ ملت کے بہت سارے افراد کی طرح راقم الحروف کا بھی یہی خیال ہے کہ الیکشن کا بائیکاٹ مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ ہمیں بھرپور انداز میں سیاسی کردار ادا کرتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنی چاہئے، لیکن یہ بات بھی ضرور ملحوظ خاطر رہنی چاہئے کہ الیکشن میں صرف شرکت ہی کافی نہیں ہے بلکہ ٹھوس حکمت عملی اور بصیرت کے ساتھ شرکت ضروری ہے۔ اگر ٹھوس حکمت عملی اور سیاسی بصیرت کے بغیر اس میدان میں اتریں گے تو اس کا مایوس کن نتیجہ سامنے آسکتا ہے۔ اس وقت ملت جعفریہ کی دو جماعتیں انتخابی میدان میں اتر چکی ہیں، اور ملک کے مختلف حلقوں سے اپنے اپنے امیدواروں کا اعلان کر چکی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اسلامی تحریک پاکستان نے مختلف قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے مجموعی طور پر 140 حلقوں سے اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے، جبکہ مجلس وحدت مسلمین نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے مجموعی طور پر 135 حلقوں سے اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے۔ ان جماعتوں کی طرف سے ملت کی نمایندگی کے دعوے کے ساتھ الیکشن میں حصہ لینے کے بڑے فیصلے کے پیچھے یقیناً کچھ قومی اور ملی سطح کے اہداف ہیں کہ جن کے حصول کے لیے یہ جماعتیں الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔
 
لہذا یہاں میں اس کالم کی وساطت سے بصد احترام چند گزارشات ان دونوں جماعتوں کے ذمہ داران کی خدمت میں پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
1۔ انتخابات میں صرف شرکت کر لینا ہی بذات خود آپ کا ہدف اور مقصد بالکل نہیں ہے، بلکہ یہ ایک پل ہے کہ جس کو عبور کرکے آپ نے اپنے اصلی ہدف اور مقصد کے لیے جدوجہد شروع کرنی ہے۔
2۔ انتخابات میں شرکت کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ اس کے ذریعے اعلٰی ایوانوں تک پہنچ کر ملت اسلامیہ بالخصوص ملت جعفریہ کے حقوق کی حفاظت کی جائے اور غریب اور مظلوم عوام کی بلاتفریق رنگ و مذہب خدمت کی جائے۔
3۔ انتخابات میں شرکت کا ایک اور مقصد (جیسا کہ مذکورہ دونوں جماعتوں کے رہنماوں کے بیانات میں بھی مکرر اس بات کا تذکرہ کیا جاتا ہے) دہشتگردوں کے حامی اسلام دشمن تکفیری گروہوں کو اعلٰی ایوانوں تک پہنچنے سے روکنا اور انہیں مین اسٹریم سے باہر کرنا ہے۔
4۔ ایک اور مقصد یہ ہے کہ ووٹ کی طاقت سے ملت جعفریہ کے اندر موجود احساس محرومی کو ختم کیا جائے۔ لہذا دونوں جماعتوں کے ذمہ داران اور ان کے نامزد نمایندوں کو الیکشن کے ان تمام مراحل میں ان اہداف اور مقاصد کو مدنظر رکھنا چاہئے اور کسی بھی مرحلے پر ان بنیادی مقاصد کو نطر انداز کرکے صرف اقتدار کے حصول کو ہی اصلی مقصد بنانے سے اجتناب کرنا چاہئے۔

5۔ ان اہداف اور مقاصد کے حصول کو ضروری سمجھ کر آپ نے الیکشن کے کٹھن مرحلے میں حصہ لیا ہے تو پھر اس بات کی طرف دھیان رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس کٹھن مرحلے کو عبور کرنا ٹھوس حکمت عملی اور بصیرت پر مبنی پالیسی اختیار کیے بغیر ممکن نہیں ہے، لہذا ضروری ہے کہ دونوں جماعتیں ایسی اسٹریٹجک پالیسی بنائیں کہ جس سے اچھا نتیجہ سامنے آسکے۔ جبکہ موجودہ پالیسی کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے کی صورت میں نہ صرف جیت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی بلکہ خدانخواستہ انتہائی شرمناک شکست کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے کہ جس کے بعد نہ صرف مذکورہ اہداف اور مقاصد سے ہاتھ دھونا پڑے گا بلکہ ملت کے اندر ایک شدید مایوسی بھی پیدا ہوسکتی ہے اور دوسری طرف سیاسی میدان میں ملت جعفریہ کی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
6۔ صرف ادائے وظیفہ کی غرض سے انتخابات میں حصہ لینا کافی نہیں ہے، اگرچہ ادائے وظیفہ اچھی چیز ہے لیکن یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جب آپ اچھی حکمت عملی کے ساتھ اپنے وظیفے پر عمل کریں گے تو اس سے ادائے وظیفہ کے ساتھ ساتھ اچھا اور مطلوبہ رزلٹ بھی حاصل ہوسکتا ہے، تو کیوں نہ اچھی حکمت علمی کے ساتھ اپنی ذمہ داری اور وظیفے پر عمل کیا جائے۔

7۔ دونوں جماعتوں کے الگ الگ انتخابی میدان میں وارد ہونے کی صورت میں ملت کے ووٹ کے تقسیم ہونے کا خطرہ ہے، جس سے نہ صرف آپ کے امیدوار ہار جائیں گے بلکہ ممکن ہے کہ آپ کے مخالف تکفیری گروہ کے نمایندے جیت جائیں، کیونکہ اس دفعہ آپ گذشتہ انتخابات کی طرح دوسری جماعتوں کے امیدواروں کو بھی سپورٹ نہیں کر رہے کہ جو آپ کے ووٹ بینک سے جیت جاتے تھے، لہذا یوں ان کا ووٹ بینک بھی متاثر ہوگا کہ جس کا فائدہ تکفیری گروہوں کو پہنچ سکتا ہے۔
8۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تحریک پاکستان اور مجلس وحدت مسلمین آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کرکے مختلف حلقوں سے اپنے اپنے مشترکہ امیدوار سامنے لائیں اور ایک ہی حلقے سے دونوں جماعتوں کے امیدواروں کے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑنے سے ہر حال میں اجتناب کیا جائے، تاکہ آپ کا ووٹ تقسیم ہونے سے بچ سکے کہ جس کا فائدہ یقیناً تیسری پارٹی کے امیدوار کو ہوگا۔

9۔ اس کے لیے دونوں جماعتوں کی اعلٰی قیادت آپس میں مل بیٹھ کر متفقہ فیصلہ کرے اور پھر اسے عوام کے سامنے لائے۔ یہاں جملہ معترضہ کے طور پر یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ دونوں جماعتوں کی اعلٰی قیادت کی ملاقاتوں کا فائدہ نہ صرف الیکشن میں حاصل ہوگا بلکہ اس کے فوائد یقیناً دیرپا ہوں گے۔ جیسا کہ ملت کا درد رکھنے والے سنجیدہ حلقوں کی طرف سے بار بار یہ کہا جاتا ہے جو انتہائی معقول اور منطقی بھی ہے کہ جب یہ رہنما دوسرے مکاتب فکر کے رہنماوں کے ساتھ کھلے دل کے ساتھ ملاقات کرسکتے ہیں تو کیا قومی اور ملی مفادات کی خاطر اپنے ہی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے دوسری جماعتوں کے رہنماوں سے ملاقات کیوں نہیں کرسکتے؟ کہیں آپ نے تنظیمی اختلافات کو دشمنی میں ہی تو نہیں بدل لیا ہے؟! لہذا ملت جعفریہ کے دردمند لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ ہمارے یہ رہنما بے شک اپنی اپنی جماعتوں کے ساتھ منسلک رہتے ہوئے اور اپنے جماعتی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے کم از کم قومی اور ملی ایشوز سے تعلق رکھنے والے معاملات کو سلجھانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کریں۔

10۔ اگر اپنے اپنے تنظیمی مفادات کو قومی اور ملی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے آپ ایسے ہی الگ الگ انتخابی میدان میں اتر گئے اور یوں ملت کا ووٹ تقسیم ہو کر مطلوبہ درست نتائج حاصل نہ کرسکے اور آپ کے وجود کے ہی مخالف طاقتیں کامیاب ہوگئیں تو آپ کے اس غلط فیصلے کا خمیازہ خواہ مخواہ میں پوری ملت کو بھگتنا پڑے گا، جو یقیناً بڑے گناہ کے مترادف ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملت کے تمام لوگ اس اہم اور حساس موقع پر انتہائی بصیرت کے ساتھ حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تنظیمی اور ذاتی مفادات پر قومی اور ملی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے فیصلے کریں۔ تاکہ جذباتی اور نابخردانہ فیصلوں سے ملت کو غلط نتائج کا سامنا نہ کرنا پڑے، کیونکہ یہ انتخابات ملت کے تمام لوگوں خصوصاً ملت کے رہنماوں کے لیے صحیح فیصلے کرنے کا ایک امتحان بھی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button