مقالہ جات

ہم کوئی گروہ یا چھوٹی سے کمیونٹی نہیں بلکہ ایک عظیم ملت ہیں، علامہ حسن ظفر نقوی

hassan zafarعلامہ سید حسن ظفر نقوی کا شمار ملک کے ان ممتاز علمائے کرام میں ہوتا ہے، جن کا فن خطابت ملک کے گوش وکنار سمیت سرحد پار بھی بیحد مقبول ہے، نوجوان طبقہ علامہ صاحب سے خاصہ مانوس ہے اور ان کے خطابات کو بڑے شوق سے سنتا ہے۔ علامہ صاحب کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ اس وقت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں، 24 مارچ کو حیدر آباد بائی پاس پر منعقدہ قرآن و اہلبیت (ع) کانفرنس، پروفیسر سبط جعفر کی شہادت اور پاک ایران گیس پائپ لائن کے موضوع پر ان سے کیا گیا مختصر انٹرویو پیش خدمت ہے۔

سوال : 24 مارچ کو حیدرآباد بائی پاس پر مجلس وحدت مسلمین کا جلسہ عام کس پس منظر کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے۔؟
علامہ حسن ظفر نقوی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ دیکھیں، مجلس وحدت مسلمین کے 24 مارچ کے جلسہ عام کا پس منظر بہت واضح ہے۔ اس کیلئے ہمیں سب سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہئیے کہ گذشتہ سرسٹھ سالوں میں ہماری سیاسی قوت ملت جعفریہ کی حیثیت سے صفر تھی، حالانکہ جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں، ان سب میں ہمارے شیعہ افراد اپنی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، لیکن ہماری ملت نے گذشتہ تیس سالوں میں یہ دیکھا کہ جب بھی ہمارے اوپر کٹھن وقت آیا، ان تمام شیعہ افراد کی پارٹی پالیسیاں ان کے پیروں کی زنجیر بن گئیں اور ہمارے اپنے شیعہ افراد بھی اپنی اپنی پارٹی کی پالیسیوں کے باعث ہماری مدد کو سامنے نہیں آئے۔

جس قومی اسمبلی میں چالیس سے زائد شیعہ مکتب فکر کے افراد ہوں، جس سینیٹ میں تیس سے زائد شیعہ افراد موجود ہوں، انتخابات میں ووٹ لینے کیلئے یہ ہمارے پاس آتے تھے کہ ہم مومن ہیں مگر ووٹ لینے کے بعد کام کے وقت کٹھن وقت میں ان کی پارٹی پالیسیاں آڑے آجاتی ہیں۔ لہٰذا گذشتہ تیس سالوں کے تجربات نے یہ ثابت کیا کہ ہماری اپنی ایک سیاسی قوت ہونی چاہئیے، جو سیاسی قوت اسمبلیوں و پارلیمنٹ میں جا کے، سینیٹ میں جا کے حقیقی معنٰی میں آواز بلند کر سکے۔ دیکھیں نظام جیسا بھی ہو، ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، سب سے پہلی ترجیح یہ ہے کہ ہمیں اپنی ملت کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

جیسا کہ ہم نے لبنان میں دیکھا، جیسا کہ ہم نے عراق میں دیکھا۔ ضروری تھا لبنان میں حزب اللہ ایک سیاسی قوت بن کر ابھرتی اور پھر پارلیمنٹ میں ایسی طاقت بن کے ابھر جاتی کہ حکومتیں اس کی محتاج ہو جاتیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دہشت گردوں کے کچھ سرپرست مختلف ناموں کے تحت اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں، تین چار نشستیں ہوتی ہیں اور وہ پانچ سال تک حکومتوں کو بلیک میل کرتے رہتے ہیں، جبکہ ہمارا ایسا اب تک کوئی سلسلہ نہیں ہے کہ ہم احسن طریقے سے اسمبلیوں میں بھرپور آواز بلند کرسکیں۔ تو ظاہر ہے کہ یہ ہمارا پہلا قدم ہے اور ضروری تھا کہ ملت کو یہ احساس دلا دیا جائے کہ وہ بہت بڑی قوت ہیں۔ ساڑھے چار پانچ کروڑ ملت تشیع کے افراد بہت بڑی قوت ہیں۔

دہشت گردوں کے پاس اتنی افرادی قوت نہیں ہے جتنی ہمارے پاس ہے۔ ہماری نظریاتی جڑیں ہیں، ہمارے پاس نعرے ہیں، ہمارے پاس حوصلہ و جذبہ ہے۔ لہٰذا اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکل رہا ہے کہ ملت تشیع کے افراد دوسری سیاسی جماعتوں میں اپنی خدمات پیش کر رہے تھے، انہوں نے ہم سے رابطہ کیا کہ وہ تیار ہیں۔ ان کا موقف یہ تھا کہ چونکہ ملت تشیع کا کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں تھا تو ہم دوسری سیاسی جماعتوں میں شامل تھے۔ لہٰذا وہ بڑی تعداد میں ہم سے رجوع کر رہے ہیں۔ یہ ضروری بھی تھا اور ملت تشیع پاکستان کو بھی یہ احساس ہوگیا ہے کہ ہماری آواز اگر گذشتہ سالوں میں نہیں اٹھائی گئی اور کوئی سیاسی و مذہبی جماعت ہمارے لئے کوئی بات ہی نہیں کرتی تھی۔

یہ تو ہمارے شہداء کے پاکیزہ خون کا صدقہ ہے کہ آج جماعتیں ہمیں مظلوم سمجھتے ہوئے ہماری جانب دوڑ رہی ہیں، مگر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ عام انتخابات بھی آنے والے ہیں، انہیں ووٹ بھی لینے ہیں۔ جب یہ سلسلہ چند دنوں کیلئے ہوسکتا ہے تو ہم اس کو پائیدار صورت میں تبدیل کیوں نہیں کرسکتے۔ جب یہ پائیدار صورت حال میں تبدیل ہوجائے گا اور ہم گھٹنوں گھٹنوں چلنے کے بجائے، کسی کا سہارا لے کر چلنے کے بجائے اب ہمیں اپنے پیروں پر چلنے کی کوشش کرنا ہے۔ ٹھیک ہے کہ یہ پہلا موقع ہے، شاید ہم وہ نتائج حاصل نہ کرسکیں کہ جو ہمارا ہدف ہے۔ یہ کوئی ایک دن کی بات تو نہیں ہے، اگلے پانچ سال ہھر ہمارے پاس ہونگے کام کرنے کیلئے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ملت کو سمجھ لینا چاہئیے کہ اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا۔

اب ہم یہ نہیں ہونے دیں گے کہ کوئی آئے اور ہمیں ڈرا دھمکا کے، دوسرے کا خوف دلا کے ہمارے ووٹ لے جائے۔ ہمیں بلیک میل کرے، کوئی شہروں میں ہمارے لئے ہوا بنائے، کوئی دیہاتوں میں ہمارے لئے ہوا بنائے، جبکہ ہم اتنی بڑی ایک ملت ہیں، قوم ہیں، کوئی گروہ یا چھوٹی سی کمیونٹی نہیں ہیں۔ تو ہمیں یہ احساس بیدار کرنا ہے اپنی قوم میں اور اسی مقصد کیلئے 24 مارچ کا جلسہ عام منعقد کیا جا رہا ہے۔

سوال : ایک اعتراض کیا جا رہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں پیپلز پارٹی کی ہمت بڑھانے کیلئے یا اس کی حمایت کیلئے وہاں یہ جلسہ عام منعقد کیا جا ریا ہے۔؟
علامہ حسن ظفر نقوی: اگر کوئی یہ اعتراض کر رہا ہے تو وہ بہت دلچسپ اعتراض کر رہا ہے۔ دیکھیں اگر یہ جلسہ پیپلز پارٹی کی حمایت میں ہو رہا ہوتا تو اسے تو کراچی میں منعقد ہونا چاہئیے تھا۔ کیونکہ کراچی میں وہ کمزور ہیں۔ حیدرآباد اور سندھ میں کرنے کا مطلب تو یہ ہے کہ ان کی طاقت کو توڑنا ہوا۔ یہ تو بالکل ہی الٹا اعتراض ہوا۔ دیکھیں سندھ میں جلسہ عام کرنے کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم ان کے ووٹ بینک پر حملہ کر رہے ہیں، تو یہ بڑا عجیب سا سوال ہے۔ دیکھیں ہمارا 2008ء سے عوامی جلسوں کا ایک سلسلہ چلا ہوا ہے۔ اسلام آباد میں تین سال ہوتا رہا۔ پھر ہم نے پچھلے سال 25 مارچ کو نشتر پارک کراچی میں ساڑھے چار لاکھ افراد کا جلسہ کیا، تو اس وقت بھی یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ شہریوں کو توڑنے کیلئے جلسہ کیا جا رہا ہے۔ پھر ہم نے مینار پاکستان لاہور میں کیا تو اس وقت بھی اعتراض تھا، اب حیدر آباد میں کر رہے ہیں پھر اعتراض کیا جا رہا ہے، ملتان میں کریں گے پھر اعتراض ہوگا، سکھر میں کریں گے پھر دوبارہ اعتراض ہوگا۔ یہ جلسے تو ہم منعقد کرتے رہیں گے۔

ہم تو پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ پاکستان کے جتنے بڑے بڑے شہر ہیں، وہاں جلسہ عام منعقد کریں گے۔ حیدرآباد کا یہ جلسہ عام خود ہمارے اندرون سندھ کے مولائیوں کی آواز پر منعقد ہو رہا ہے۔ ہمارے ان مولائیوں نے ہم سے شکایت کی تھی کہ آپ بڑے بڑے شہروں میں جلسہ عام منعقد کر رہے ہیں، اندرون سندھ میں آپ نہیں کر رہے ہیں۔ لہٰذا یہ تو ہر شہر میں ہوگا، تو کہاں کہاں اعتراض ہوگا۔ تو ہم ملت کے مشن کو لے کر اٹھے ہیں، سفر کر رہے ہیں تو ہمیں اس قسم کے اعتراضات کی نہ کبھی پہلے پرواہ تھی اور نہ اب ہوگی، کیونکہ ہمارے مدنظر ایک عظیم مقصد ہے۔

سوال : مرکزی شوریٰ نے سیاسی حوالے سے جو فیصلے کئے ہیں وہ کب منظر عام پر آئیں گے۔؟
علامہ حسن ظفر نقوی: مجلس وحدت مسلمین کی مرکزی شوریٰ نے فیصلے کئے ہیں وہ انشاء اللہ 24 مارچ کے جلسہ میں بیان کر دئیے جائیں گے۔ اس کے لئے آپ کو تھوڑا سا انتظار کرنا ہوگا۔

سوال : کیا ایم ڈبلیو ایم عام انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے کرے گی۔؟ سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے حوالے سے کیا پالیسی ہوگی۔؟
علامہ حسن ظفر نقوی: ایم ڈبلیو ایم علاقائی اور معروضی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے، عام انتخابات کے حوالے سے اقدامات اٹھائیں گی۔ انشاء4 اللہ ہمارے اپنے امیدوار بھی چاروں صوبوں سے کوشش ہے کہ کھڑے کئے جائیں۔ سندھ اور پنجاب میں یقیناً ہم اپنے امیدوار کھڑے کریں گے۔ اتحاد کے حوالے سے یہ کہوں گا کہ کسی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد ہم یوں نہیں کرسکتے کہ ہماری جو قومی صورتحال ہے وہ ایسی ہے کہ ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ شیعہ افراد موجود ہیں۔ تو کسی ایک سیاسی جماعت سے اتحاد ممکن نہیں ہوگا۔ جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا کہ علاقائی، سیاسی و معروضی حالات اور قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلے کریں گے۔

سوال : حال ہی میں شیعہ علماء کونسل کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی سے علامہ ناصر عباس جعفری مرکزی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین کی جو ملاقات ہوئی ہے، کیا اس میں سیاسی حوالے سے بھی بات ہوئی ہے۔؟
علامہ حسن ظفر نقوی: پہلے تو میں یہ بتا دوں کہ یہ ملت تشیع پاکستان کیلئے خوش خبری ہے۔ الحمداللہ کسی بھی حوالے سے ان سے ملاقات ہوئی۔ ان کے بھتیجے محاذ جنگ میں دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ وہاں ان کی تعزیت کیلئے گئے۔ وہاں تبلیغاتی امور پر اتفاق بھی ہوا۔ میری معلومات کے مطابق وہاں سے تین افراد پر مشتمل ایک ٹیم بھی ترتیب دے دی گئی ہے، جو علامہ ناصر عباس جعفری صاحب سے، مجلس وحدت مسلمین سے ملاقاتیں جاری رکھے گی اور مجھے امید ہے اور پوری قوم کو امید ہوگی، انشاء4 اللہ اس کے بہت اچھے نتائج نکلیں گے۔ یہی ہماری کوشش تھی اور انشاء4 اللہ ہم ان کوششوں میں یقیناً کامیاب ہونگے۔ دونوں طرف خلوص رہے گا، قومی مفادات کو، ملت کے مفادات کو پیش نظر رکھا جائے گا تو میں سمجھتا ہوں کہ عنقریب اچھی خبریں سنیں کو ملیں گی انشاء4 اللہ۔ اس حوالے سے پورے پاکستان میں کوششیں ہو رہی ہیں۔ میں ابھی اندرون سندھ گیا تھا تو وہاں میں نے دیکھا کہ سب مل کر کام کر رہے ہیں۔ کراچی میں بھی جب مسائل پیدا ہوتے ہیں تو ہم سب مل کر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ تو یہ کام آگے بڑھ رہا ہے۔ لوگوں کی سمجھ میں آ رہا ہے کہ ہم اتحاد و وحدت کے بغیر نہیں چل سکتے۔ ہمیں بہت خوشی ہے کہ ایسا ہو رہا ہے اور ایسا ہونا چاہئیے۔ خدا نے چاہا تو عنقریب یہ تمام کوششیں ملت کے مفاد میں جائیں گی۔

سوال : پروفیسر سید سبط جعفر زیدی کی شہادت کے حوالے سے آپ کے کیا احساسات ہیں۔؟
علامہ حسن ظفر نقوی: میں آپ کی خدمت میں کیا عرض کروں کہ میرا اور شہید پروفیسر سبط جعفر زیدی کا پینتیس چالیس سال کا ساتھ تھا۔ میرا ایک عزیز دوست، میرا بھائی، میرا ہم فکر، میرا ہمدرد مجھ سے دور ہوا ہے، مجھ سے روٹھا ہے اور میں جانتا ہوں کہ میں کس کرب میں ہوں، کس اذیت اور تکلیف میں ہوں۔ مجھے اب تک یقین نہیں آ رہا ہے اس کے جانے کا۔ لیکن جتنی عظیم شہادت ہے اس کا خون رنگ دکھا رہا ہے۔ جس طرح کراچی میں ہمارے اہلسنت بھائیوں نے، اساتذہ کی تنظیموں نے، وکلاء کی تنظیموں نے، نعت خوانوں کی تنظیموں نے حتیٰ کہ آپ کو حیرت ہوگی کہ پاکستان میں قوالوں کی پوری ایک تنظیم ہے، ان کے نمائندوں نے یہاں شرکت کی۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ یہاں آرہے ہیں اور دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں۔

دشمن جو یہ چاہتا ہے کہ ان حادثات، سانحات کے ذریعے سے فرقہ وارانہ فساد کرائے، وہ اس لئے مایوس ہو رہا ہے کہ سانحہ عباس ٹا?ن اور سانحات کوئٹہ میں بھی شیعہ سنیوں کا خون ساتھ شامل ہوا، شہداء4 کے خون میں خون ملا، ہمارے خون میں ان کا خون ملا۔ پروفیسر سبط جعفر کی شہادت پر ہماری اہلسنت برادری نے جس غم و غصہ کا اظہار کیا، ان کے رہنما?ں نے، ان کے لوگوں نے، ان کے شاگردوں نے، ان کے ساتھی اساتذہ نے اور جس طرح وہ سب رو رہے تھے، میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا ایک عظیم دوست تو بچھڑا ہے، لیکن اس شہید کے خون نے پیغام محبت و امن کو مزید بڑھایا ہے، نفرتوں کو مزید کم کیا ہے۔ یہ شہادت اپنا مزید اثر دکھائے گی، لوگ ایک دوسرے کے اور قریب آئیں گے اور ہمیں یقین ہے کہ اس سے دہشت گرد مزید تنہا ہوگا، دہشت گرد اکیلا ہو جائے گا اور ہم سنی شیعہ بھائی جیسے پہلے رہتے تھے، اسی طرح آپس میں مل جل کر رہیں گے انشاء اللہ۔

سوال : پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے پر پاکستان کو امریکی دھمکیوں اور مداخلت کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ حسن ظفر نقوی: بھائی اس حوالے سے میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ میں تو صرف یہ دیکھ رہا ہوں کہ جب پہلے ایران میں معاہدہ ہونے لگا تو کوئٹہ میں دھماکہ ہوا۔ جب پاک ایران سرحد پر افتتاح ہونے لگا تو سانحہ عباس ٹاؤن ہوا۔ تو ظاہر ہے صاف کنکشن ہے۔ امریکی پینٹاگون صاف کہہ چکا، ان کے وزیر دفاع، وزیر خارجہ کہہ چکے ہیں کہ وہ پاک ایران معاہدے کسی صورت برداشت نہیں کرینگے۔ میں نے اسی وقت کہا تھا کہ آپ تیار رہیں کلنگ کیلئے۔ یہاں بلیک واٹر موجود ہے، دیگر ایجنٹ موجود ہیں، موساد و سی آئی اے کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔ امریکی قونصل خانے اور ایمبیسی دہشت گردی میں ملوث ہے تو لہٰذا کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں، کراچی میں ہو رہے ہیں، ملک بھر میں واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

امریکہ کسی بھی طرح نہیں چاہتا کہ پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات ہوں۔ بس پاکستانی ارباب اختیار اگر عقل مندی سے کام لیں اور قریبی تعلقات استوار کریں۔ بہرحال جاتے جاتے چند دن رہ گئے تو ان کے سمجھ میں آیا کہ ایران ہمارا ہمسایہ ہے۔ ایسے ہی چین بھی ہمارا ہمسایہ ہے۔ چین سے ہم نے دوستی کی تو اس نے پاکستان کو کہاں پہنچایا وہ سب کے سامنے ہے۔ پاک چین گوادر پورٹ معاہدہ آپ کے سامنے ہے، امریکہ پاکستان کے چین سے اچھے تعلقات کے بھی خلاف ہے۔ دوسری جانب امریکہ کی دوستی نے پاکستان کو کس طرح تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا، وہ بھی ساری دنیا کے سامنے ہے۔ امریکہ کے کہنے پر ہم نے اپنے پڑوسی ممالک سے تعلقات خراب کئے۔ یہی دوستی اگر اپنے ہمسائیوں سے ہوتی، چین کے ساتھ ہوتی، چین کو بھی ہم نے ناراض کیا، ان کے کتنے انجینئرز یہاں مارے گئے، یہ بھی امریکہ سے دوستی کا شاخسانہ ہے۔ چینی تو شیعہ سنی نہیں تھے۔ انہیں جو اتنا مارا گیا، اغواء4 کیا گیا، اس کا کیا مطلب ہے۔ اس سب کے پیچھے امریکہ ہے، امریکی لابی ہے۔

یہ جو دہشت گرد خود کو امریکہ مخالف کہتے ہیں، دراصل وہ امریکہ کیلئے ہی لڑ رہے ہیں، وہ امریکہ کے خلاف نہیں لڑ رہے ہیں۔ ہمیں مار رہے ہیں، پاکستانیوں کو مار رہے ہیں۔ سنیوں کو مار رہے ہیں، شیعوں کو مار رہے ہیں۔ تو لہٰذا صاف نظر آ رہا ہے کہ امریکہ پاکستان میں کوئی کام ایسا نہیں ہونے دینا چاہے گا کہ جو اس کی مرضی کے خلاف ہو۔ تو نئی آنے والی پاکستانی حکومت بھی اگر دانشمندی سے کام لے گی اور اپنے ہمسائیوں سے مثالی تعلقات قائم کرے گی، کیونکہ پہلے تو ہمسائے آتے ہیں۔ ہمسائیوں کو تو ناراض کیا ہوا ہے، دشمن بنا کے رکھا ہوا ہے امریکہ کے چکر میں۔ لہٰذا پاکستان کے ارباب اختیار ہوشمندی سے کام لیں اور امریکی چنگل سے باہر نکل کر ہمسائیوں سے تعلقات کو بہتر بنائیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button