مقالہ جات

حکام غریبوں کو کہاں پوچھتے ہیں، ہمارا بیٹا سیدالشہداء (ع) کے بیٹے سے بڑھ کر تو نہیں تھا، والدین شہید لائق حسین

shaheed nike hussainپرنٹ میڈیا و الیکٹرانک میڈیا کے دیگر زرائع نے دہشت گردی اور طالبان کے مظالم کا شکار مظلوموں اور شہداء کے لواحقین کو نظر انداز کیا لیکن پاکستان کی بقاء اور سالمیت پر قربان ہونے والے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے اسلام ٹائمز کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اس نے پاک افغان بارڈر پر واقع قبائلی علاقوں سے لے کر ڈی آئی خان اور دور دراز گلگت بلتستان، کوئٹہ و کراچی حتیٰ کہ ملک کے ہر گوشے سے مظلوموں کی آواز عوام الناس اور متعلقہ حکام تک پہنچانے کی کوشش کی۔ انہی کوششوں کی ایک کڑی کے طور پر نمائندوکی ٹیم نے 27 اگست 2012ء بروز سوموار کرم ایجنسی پارا چنار کے مضافات میں واقع زیڑان کے دور افتادہ گائوں ملا باغ برکلے جو مشہور کوہ سفید سپین غر پہاڑ کے دامن میں ہے اور اسی پہاڑ کا دوسرا حصہ افغانستان کے مشہور تورا بورا پہاڑی سلسلہ جو افغان صوبہ ننگرہار سے منسلک ہے اور ملاباغ سے ننگرہار تک پیدل دس تا بارہ گھنٹے کی مسافت ہے کا دورہ کیا، گزشتہ چار سالوں سے طالبان کے محاصرے اور ٹل پارا چنار پشاور روڈ کی بندش کی وجہ سے زیڑان اور ملاباغ گاؤں کے بعض افراد انتہاتی ضرورت کے پیش نظر ملا باغ سے کوہ سفید اور پھر افغانستان کے تورا بورا سلسلے سے ہوتے ہوئے ننگرہار پا پیادہ یا گدھے و خچر پر بیٹھ کر پہاڑی راستوں سے جاتے تھے اور پھر ننگرہار سے طورخم تا پشاور مسافر گاڑیوں میں بیٹھ جاتے تھے، اسی طرح افغانستان کی سائیڈ پر رہنے والے ننگر ہاری بھی کئی سالوں سے مسلسل اپنے گھریلو راشن آٹا اور گندم و چاول وغیرہ ملا باغ اور زیڑان سے حاصل کرنے کے لئے یہاں آتے ہیں، اور بھائی چارے و حسن سلوک کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
نمائندو نے ملاباغ گاؤں میں آنے والے ننگرہار کے غریب باشندوں جو گدھوں پر آٹا لادے ہوئے تھے بات چیت کی تو انہوں نے افغانستان اور پاکستان میں تباہی اور دہشت گردی کی ذمہ داری امریکہ اور طالبان دونوں پر عائد کرتے ہوئے انہیں بے گناہ غریب عوام کا قاتل گردانتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور طالبان دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ ایک طرف امریکہ نے ہمارے ملک پر قبضہ کیا ہے اور دوسری طرف طالبان امریکیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی بجائے غریب افغان عوام کو مار کر اپنی مرضی کا جبر کا وہابی و سلفی نطام مسلط کرنا چاہتے ہیں، تاہم ننگرہار کے لوگوں نے پارا چنار اور زیڑان و ملاباغ کے لوگوں کی طرح طالبان کو اپنی سرزمین پر پناہ دینے سے انکار کیا ہے، کوہ سفید کے دامن میں واقع شہید لانس نائک لائق حسین کے جھونپڑی نما گھر میں شہید کے والدین سے گائوں کے دو افراد کی موجودگی میں ملاقات کرکے بات چیت کے زریعے حال احوال پوچھا۔ اور حقائق سے بھرپور رونگٹے کھڑے کرنے والی اس بات چیت اور سوال و جواب کو انٹرویو کی شکل میں شائع کرکے پاکستان کے عوام اور حکام کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ اس ملک کے لئے قربانیاں دینے والے سپوتوں اور ان کے پسماندگان کے ساتھ متعلقہ حکام کیسا سلوک کرتے ہیں۔14 اگست 2007ء کو شہید ہونے والے لانس نائیک لائق حسین کے پسماندگان پانچ سال گزرنے کے باوجود اپنے حقوق، مناسب پیکج اور وعدے کے مطابق ایف سی و پولٹیکل اتنظا میہ کی طرف سے شہید کے پسماندگان بیوہ و والدین مکان کی تعمیر سے اب تک محروم ہیں۔ اور شہید کے پسماندگان نہایت کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں، جن کا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ ہے پاکستان کے لئے قربانیاں دینے والوں کے ساتھ حکام کا سوتیلی ماں جیسا سلوک اور رونگٹے کھڑے کرنے والا حقائق سے بھرپور انٹرویو، شائد اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد متعلقہ حکام مادر وطن پر قربان ہونے والے شہید لانس نائیک لائق حسین کے پسماندگان کو اپنا حق اور سہولیات دے دیں، وگرنہ ایک دن روز حساب و کتاب اس جرم کا جواب ضرور دینا پڑے گا۔

شہید لانس نائیک لائق حسین ولد محمد ابراہیم کا تعلق کرم ایجنسی پارا چنار کے مضافات میں واقع زیڑان کے دور افتادہ گائوں ملاباغ کے ایک غریب گھرانے سے تھا۔ لائق حسین کے گھر میں موجود قومی شناختی کارڈ نمبر 2130330264053 پر تاریخ پیدائش 12 مئی 1979ء درج ہے، جب کہ لائق حسین کی قبر پر درج کوائف کے مطابق لائق حسین اٹھارہ سال کی عمر میں 3 مارچ 1997ء کو کرم ملیشیاء ایف سی میں بطور سپاہی شمولیت اختیار کرکے جنوبی وزیرستان جنڈولہ میں فرائض انجام دینے لگے اور وہاں اگست 2007ء میں ایف سی کے پندرہ دیگر ارکان سمیت چٹھیاں ہونے پر اپنے اپنے گھر واپس جاتے ہوئے جنڈولہ وزیرستان میں ہی طالبان کے ہاتھوں اغوا ہوئے۔ سفاک طالبان نے ایف سی کے دیگر پندرہ افراد کو تو رہا کر دیا لیکن لانس نائیک لائق حسین کو محض اس وجہ سے بے دردی سے 14 اگست 2007ء کو ذبح کردیا کہ شہید لائق حسین کے سامان میں نماز جعفریہ باتصویر کتاب کے علاوہ مجتہد و رہبر کبیر امام خمینیؒ کی تصویر موجود تھی۔ شہید لائق حسین کے ہمراہ اغواء ہونے والے دیگر ساتھیوں کے بتائے ہوئے احوال کے مطابق طالبان نے شہید لائق حسین کو حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے گھرانے اہلبیت اطہار علیھم سلام اور امام خمینیؒ کو برا بھلا (نعوز باللہ) کہنے کی شرط پر رہائی کا عندیہ دیا تھا، لیکن شہید لائق حسین نے انکار کردیا اور طالبان نے دو بچوں کی مدد سے شہید لائق حسین کو بے دردی سے ذبح کردیا۔ اور اس بیہمانہ فعل کی ویڈیو بھی پہلے پشاور میں بی بی سی آفس بھیج دی، اور پھر طالبان نے یہ ویڈیو سی ڈیز کی شکل میں مختلف علاقوں میں پھیلائی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت پاکستان اور قائد اعظم محمد علی جناح نے کرم ایجنسی کے طوری بنگش قبائل پر مشتمل کرم ملیشیاء ایف سی کو پاراچنار اور پاک افغان بارڈر کی حفاظت کے لئے علاقے کے حالات و واقعات اور جغرافیہ سے واقفیت کی بناء پر مستقل طور پر پارا چنار مین تعینات کیا تھا۔ لیکن قائد اعظم کی رحلت کے بعد آنے والی حکومتوں اور فوجی ڈکٹیٹرز نے قائد اعظم کے اس وعدے اور پیمان کو پامال کرتے ہوئے کرم ملیشاء میں شامل طوری و بنگش پلاٹونوں کو وزیرستان اور باجوڑ منتقل کردیا۔ اور وزیرستان و دیگر علاقوں سے طالبان نواز قبائل پر مشتمل ایف سی کے پلاٹونوں کو کرم ایجنسی تعینات کردیا۔ جس کی وجہ سے ایک طرف شہید لائق حسین جیسے پارا چنار کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والے درجنوں سپوت وزیرستان میں طالبان کی ٹارگٹ کلنگ و بربریت کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کرگئے تو دوسری طرف کرم ایجنسی میں وزیرستان سے آنے والے طالبان نواز ایف سی اہلکاروں کی وجہ سے پارا چنار اور دیگر علاقوں پر طالبان کی یلغار اور خاموش تماشائی ایف سی کی موجودگی میں جون 2008ء صدہ و پر قیوم میں نہتے طوری بنگش مسافروں کو ذبح کرکے زندہ جلانے سمیت فروری 2012ء پارا چنار کرمی بازار خودکش حملے کے بعد ایف سی کے ٹینکوں سے پرامن و نہتے مظاہرین کو روند کر اور فائرنگ کرکے بدترین قتل عام جیسے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر حکومت کرم ایجنسی میں دیرپا امن اور مقامی قبائل کا اعتماد بحال کرنا چاہتی ہے تو فی الفور طوری بنگش قبائل پر مشتمل کرم ملیشیاء کو وزیرستان سے واپس بلاکر کرم ایجنسی میں تعینات کرکے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے وعدے کو ایفا کرے۔ (ادارہ)

نمائندہ: سب سے پہلے تو پاکستان کی بقاء کی خاطر 14 اگست 2007ء کے دن شہید ہونے والے لانس نائیک لائق حسین کو ہم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، آپ ہمیں بتائیں کہ شہید کے پسماندگان میں کون کون شامل ہیں۔؟
والدین شہید لائق حسین: آپ کے ادارے کا شکریہ کہ اس دور دراز گاؤں میں ہمارا حال احوال پوچھنے آئے، شہید لائق حسین کے پسماندگان میں ایک بیوہ، شہید کی دو اولاد ایک بیٹا ندیم عباس جو لائق حسین کی شہادت کے وقت صرف چھ ماہ کا تھا اور اب ماشااللہ ساڑھے پانچ سال کا ہو چکا ہے، نو سال کی ایک بیٹی بی بی آسیہ، ہم ماں باپ (محمد ابراہیم و میر خاتون دونوں کی عمر پچاس سال سے ذیادہ ہیں)۔ لائق کے دو بھائی پچیس سالہ اقبال حسین جو ایف سی میں ٹیلر ماسٹر جب کہ سترہ سالہ منتظر حسین جو ذہنی اور جسمانی طور پر معذور ہے کے علاوہ لائق کی چھ بہنوں میں سے تین اسی جھونپڑی نماء گھر میں ہمارے ساتھ جب کہ تین کی شادی ہو چکی ہے۔

نمائندہ: آپ کو اپنے بیٹے کی دوران ملازمت گمشدگی، اغواء اور پھر شہادت کی خبر کیسے اور کب ملی، اور بیٹے کی شہادت پر آپ کے کیا احساسات تھے۔؟
والدین شہید لائق حسین: ہمیں اپنے لخت جگر کے اغواء اور گمشدگی کی کوئی خبر نہیں تھی، اور نہ ہی کسی نے ہمیں بتایا البتہ شہادت کے بعد تدفین کے لئے جب لاش لائی گئی تو ہمیں اسی وقت پتہ چلا۔ (شہید لائق حسین کے والد شہید کا تذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے لیکن ساتھ ہی بیٹھی شہید کی بہادر ماں کے حوصلے کے بعد شہید کی ماں اور باپ نے پرعزم لہجے میں کہا کہ) ہمار ابیٹا نواسہ رسول سیید الشہدا امام حسینؑ کے کڑیل جوان علی اکبرؑ سے بڑھ کر تو نہیں تھا، شہادت ہماری راہ اور ہماری میراث ہے۔ شہید کی والدہ نے پرعزم اور فخریہ انداز میں کہا کہ شہید لائق حسین کے ہمراہ اغواء ہونے والے دیگر ساتھیوں کے بتائے ہوئے احوال کے مطابق طالبان نے شہید لائق حسین کو حضرت محمد مصطفی ص کے گھرانے اہلبیت اطہار علیھم سلام اور امام خمینیؒ کو برا بھلا (نعوز باللہ) کہنے کی شرط پر رہائی کا عندیہ دیا تھا، لیکن شہید لائق حسین نے انکار کردیا اور طالبان نے کمسن بچوں کی مدد سے شہید لائق حسین کو بے دردی سے ذبح کردیا، ہمیں اپنے بیٹے پر فخر ہے۔

نمائندہ: اپنے وطن پاکستان پر 14 اگست 2007ء کے دن قربان ہونے والے شہید لائق حسین کے پسماندگان کو پانچ سال کے دوران حکومت پاکستان، ایف سی حکام اور سول و پولٹیکل انتظامیہ نے اب تک کیا سہولیات و مراعات دی ہیں۔؟
والدین شہید لائق حسین: اس سوال پر شہید لائق کے والد محمد ابراہیم نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ اس ملک میں غریبوں کو کون پوچھتا ہے۔ پانچ سال گزرنے کے باوجود حکومت پاکستان ایف سی حکام اور سول و پولٹیکل انتظامیہ نے کوئی بھی مالی امداد اور مراعات و پیکج تو دور کی بات وعدے کے مطابق پارا چنار شہر میں مکان کی تعمیر بھی اب تک نہیں کرائی، حالانکہ شہید لائق کی شہادت کے بعد ہمیں کہا گیا کہ پارا چنار شہر میں زمین خرید لو جس پر مکان تعمیر کیا جائیگا، ہم نے شہید لائق کی گریجوٹی اور پنشن کی رقم سے زمین خرید کر دی لیکن اب تک اس پر ایک اینٹ بھی نہیں لگی اور نہ ہی کام شروع ہو سکا۔ شہید لائق کے والد کے قریب ہی بیٹھے گاؤں کے دوسرے فرد نے کہا کہ اگر کوئی سیکورٹی فورسز کا سپوت ملک کے لئے قربانی دیتا ہے تو ملک کے دیگر حصوں حتیٰ کہ دیگر قبائلی علاقوں میں ان کے لئے حکومت ایف سی حکام و پولٹیکل انتظامیہ سرکاری خرچے پر زمین اور تعمیر شدہ گھر دینے کے علاوہ خیبر پختنونخوا حکومت 10 لاکھ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت 30 لاکھ پیکج دیتی ہے، جب کہ شہید لائق حسین کے پسماندگان کو پانچ سال گزرنے کے باوجود اب اتک ایسی کوئی بھی مراعات و پیکج نہیں دیئے گئے۔

شہید لائق کے والد نے کہا کہ ہاں البتہ شہید لائق کی بیوہ کے لئے فیملی پنشن کا اجراء ہو چکا ہے جو ہر سرکاری عہدیدار کی موت پر چاہے طبعی ہو یا حادثاتی اس کی بیوہ کے لئے جاری ہوتا ہے اور یہ پاکستان میں فوت ہونے والے ہر سرکاری اہلکار کی بیوہ کا حق بنتا ہے۔ شہید لائق کے باپ نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ چند دن پہلے میں خود اپنے بیٹے کے ہمراہ علاج معالجہ کے لئے پشاور گیا تھا اور اٹھارہ ہزار روپے پرائیوٹ کلینک و لیبارٹریوں ٹییسٹ اور پارا چنار تا پشاور آنے جانے کا خرچہ ہمارے گاؤں کے لوگوں اور رشتہ داروں نے برداشت کیا، جب کہ حکومت نے ہمارے ساتھ کوئی مدد نہیں کی اور نہ ہی سرکاری علاج معالجہ کی سہولت دی۔ شہید لائق کے والد نے پشاور جانے کی وجہ اور فزیشن کے پرچے لیبارٹریوں کے ٹیسٹ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ڈیڑھ ماہ سے میری گردن، گلے، کندھوں، کہنیوں اور بدن کے دیگر مقامات پر غدود نکل آئے تھے۔ اس لئے پشاور جانا پڑا۔

لائق کے والد کے دکھائے جانے والے پرچے کے مطابق فزیشن ڈاکٹر سید محمد حیدر جنرل اینڈ پلاسٹک سرجن کے پرائیوٹ کلینک پر محمد ابراہیم کا نام اور 23 اگست 2012ء مورخہ درج ہے، جب کہ اسی پرچے پر تجویز کردہ لیبارٹری اور شوکت خانم کے ٹیسٹوں اور شیہد لائق کے والد کے مطابق ان کے کچھ غدود کاٹ کر شوکت خانم کینسر ہسپتال کے پشاور کلیکشن سنڑ میں پانچ ہزار روپے کی فیس درج ہے، اور شہید لائق کے والد کے ان ٹیسٹوں کا شوکت خانم لیبارٹری سے رزلٹ ستمبر کے دوسرے ہفتے میں آئیگا۔ تاہم شہید لائق کے قریب ہی بیٹھے گاؤں کے دوسرے فرد نے آہستہ اور اشارے سے کہا کہ یہ غدود و علامات کینسر کی ہیں۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ دکھوں و دردوں کا مارا غریب خاندان کیسے کینسر جیسے موذی مرض کے اخراجات برداشت کرے گا۔

نمائندہ: ایف سی کے ہسپتال یا سی ایم ایچ وغیرہ یا پھر سول و پولٹیکل اتنطامیہ کے زیر اہتمام سرکاری خیراتی اداروں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، بیت المال و زکواۃ کے اداروں نے بھی آپ کی مدد نہیں کی۔؟
والدین شہید لائق حسین: آج تک آپ کے ادارے (اس انٹرویو) کے علاوہ کسی نے ہمارے گاؤں اور اس جھونپڑی نماء گھر تک کو نہیں دیکھا، بھلا غریبوں کو کون پوچھتا ہے، شہید لائق کے والد نے آہ لیتے ہوئے اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ آج تک ایف سی کے ہسپتال یا سی ایم ایچ وغیرہ یا پھر سول و پولٹیکل اتنطامیہ کے زیر اہتمام سرکاری خیراتی اداروں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، بیت المال و زکواۃ کے اداروں نے نہ ہی کوئی مدد کی اور نہ ہی مفت علاج و معالجہ۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے شہید لائق کی ماں نے کہا کہ کئی سالوں سے میرے گردوں و پتے میں پتھریاں ہیں اور یہاں پارا چنار شہر کے پرائیوٹ کلینک میں ایک سرجن بارہا مجھے آپریشن تجویز کر چکا ہے، لیکن پیسے نہ ہونے اور غربت کی وجہ سے علاج معالجے سے محروم ہوں۔

نمائندہ: آپ لوگوں نے شہید لائق کے ساڑھے پانچ سالہ بیٹے ندیم عباس اور نو سالہ بیٹی بی بی آسیہ کا ذکر کیا، یہ بتائیے کہ وہ دونوں سکول جاتے ہیں اور کیا حکومت نے اس حوالے سے آپ سے کوئی تعاون کیا ہے۔؟
والدین شہید لائق حسین: غربت اور لاچاری کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی سکول نہیں جاتا اور نہ ہی حکومت نے اس حوالے سے ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے۔ ہاں ہماری خواہش ہے کہ شہید لائق کے بچے پارا چنار شہر کے کسی اچھے تعلیمی ادارے میں سرکاری خرچے پر پڑھے اور ان کے لئے روزانہ گاؤں تا پارا چنار ٹرانسپورٹ کا خرچہ بھی ہو تاکہ بچے رات ہمارے ساتھ ہی گزاریں کیونکہ ہم انہیں اپنی نظروں سے دور نہیں کر سکتے۔ یا پھر اگر حکام اپنے وعدے کے مطابق شہید لائق حسین کے گھرانے کے لئے پارا چنار شہر میں رہائش گاہ یا کوارٹر تعمیر کریں تو کم ازکم شہید کے بیٹوں کا مستقبل روشن ہو جائے۔نمائندہ: شہید لائق کی اہم یادیں یا شہادت سے پہلے و بعد کے کوئی خواب و واقعہ اگر آپ قارئین کو بتانا پسند کریں۔؟

والدین شہید لائق حسین: یوں تو شہید کی بہت سے یادیں ہیں اور ہمیں ہر وقت اس کی یاد آتی رہتی ہے تاہم چند قابل ذکر یادیں اور خواب یہ ہیں۔ ہمارے گاؤں کی ایک بوڑھی خاتون نور خانم کے مطابق ایک بار جب لائق حسین چھٹیوں پر گاؤں آئے تھے تو باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ حق اور امام حسینؑ کی راہ پر چلنا بہت مشکل اور قربانی کا متقاضی ہے، اور ہمارے گاؤں کے قبرستان میں آج تک ایک بھی شیہید کی قبر نہیں۔ اس پر نور خانم نے جواب میں کہا کہ ایسی باتیں نہ کروں تم ابھی جوان ہو تو لائق حسین نے کہا کہ یہی ہماری راہ اور منزل ہے۔ واقعی لائق حسین اپنے گاؤں ملاباغ کے قبرستان کے پہلے شہید بنے ہاں البتہ بعد میں پارا چنار اور دیگر علاقوں پر طالبان کی جارحیت کا دفاع کرتے ہوئے گاؤں کے کئی جوان جام شہادت نوش کرکے قبرستان میں دفن ہو چکے ہیں، لیکن شہید لائق حسین نے شروعات کی۔

شہید لائق کے والد محمد ابراہیم نے اپنا خواب رو رو کر بیان کرتے ہوئے کہا کہ شہادت کہ چند ماہ بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے شہید لائق کو ایک بڑے صحرا میں سینے سے لگا کر مضبوطی سے تھامے رکھا ہے۔ کہ اچانک میرے بیٹا لائق مجھے چھوڑ کر جا رہا ہے اور میں نے اسے روکا تو لائق نے مجھے صحرا کے دوسرے طرف سیاہ لباس اور ننگے سر لوگوں کے جم غفیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بابا مجھے چھوڑ دیئے میں ان لوگوں کی طرف جا رہا ہوں ایسے میں میری آنکھ کھول گئی۔ شہید لائق کی ماں نے شہید لائق کی زوجہ اور اپنی بہو کا خواب سناتے ہوئے کہا کہ شہید لائق کی زوجہ کے مطابق شادی سے پہلے جب منگنی ہوئی تھی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ گاؤں کی پہاڑی پر واقع قبرستان میں میرے شوہر شہید لائق انتہائی چمکتے ہوئے نور کی حالت میں آسمان کی طرف روشنی پھیلائے ہوئے ہیں۔
اسی طرح شہید لائق کی ماں نے بتایا کہ میری بڑی بیٹی اور شہید لائق کی بڑی بہن بی بی سلمہ نے شہید لائق کی شہادت کے بعد خواب میں دیکھا کہ شہید لائق حسین اپنی بہن سے کہہ رہے تھے کہ میرے گھر والے اور میرے رشتہ دار میرے گلے کے کاٹنے یعنی ذبح ہونے کے منظر اور ویڈیو کے لئے پریشان نہ ہوں کیونکہ جب مجھے ذبح کرتے ہوئے چھری چل رہی تھی تو اس وقت مجھے کوئی تکلیف و درد محسوس نہیں ہو رہا تھا، کیونکہ چھری چلنے سے پہلے ہی میری روح پرواز کر گئی تھی اور مجھے لینے دختر رسول ص خاتون جنت بی بی فاطمتہ الزھرا سلام اللہ علیہ آئی تھیں۔ (لائق حسین شہید کی ماں کے مطابق ان کے گھر والوں یا خاندان کے کسی فرد بشمول خواب دیکھنی والی بیٹی نے اب تک یہ ویڈیو نہیں دیکھی اور نہ ہی دیکھنے کی ہمت ہے۔ تاہم شہید لائق کی شہادت کے بعد گاؤں اور علاقے کے لوگوں کی طرف سے اس ویڈیو میں بیان کردہ ظلم سے اس کے گھرانے کے افراد غمگین ہوتے تھے، ایسے میں لائق کا اپنی بہن کو خواب میں یہ بیان کرنا ہمارے لئے تسلی کا باعث اور معجزے سے کم نہیں)۔

لائق حسین کے گاؤں کے ایک جوان نے یہ بھی بتایا کہ وزیرستان میں موجود ہمارے گاؤں کے ایک اور تعینات ایف سی اہلکار کو وزیرستان کے لوگوں نے یہ بات بتائی کہ سفاک طالبان نے شہید لائق حسین کو ذبح کرنے کے لئے بچوں کے ہاتھ میں چھری تھما کر نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی گونج میں ذبح کروا کر عمر نامی سٹوڈیو سے یہ ویڈیو سی ڈی جاری کی تھی۔ ویڈیو میں دکھائے جانے والے بچے جنہوں نے لائق حسین کو ذبح کیا تھا اب ذہنی و نفسیاتی مرض کا شکار ہو کر پاگلوں کی طرح ذندگی گزار رہے ہیں۔

نمائندہ: آپ کے بیٹے شہید لائق کو آپ نے کیسا پایا۔ اس کے کیا ارمان تھے اور آپ کو کیا کہا کرتے تھے۔؟
والدین شہید لائق حسین: والدین اپنے بیٹے کے بارے میں نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا بیٹا لائق حسین نہ صرف ہمیں بلکہ پورے ملا باغ گاؤں میں اخلاق حسنہ اور فرائض کی ادائیگی شریعت کا پیرو اور امام حسینؑ کے سچے عاشق کے طور پر مشہور تھا، شاید یہی وجہ ہے کہ اسے شہادت کے لئے چنا گیا۔ شہید لائق کے اتنے ارمان و خواہشیں تو نہیں تھیں البتہ بارہا اپنے گھر والوں اور والدین کو استطاعت ملنے پر کربلائے معلی کی زیارات اور حج و عمرہ اور جنت البقیع و مدینہ کی زیارات لے جانے کا خواہش مند تھا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button