مقالہ جات

علامہ سید عارف حسین الحسینی اور اتحاد بین المسلمین

shaheed hussauni پانچ اگست قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی کو ہم سے جدا ہوئے چوبیس برس بیت جائیں گے آپ ۵ اگست ۱۹۸۸ء بروز جمعہ پشاور میں اپنے مدرسہ جامعہ معارف الاسلامیہ بعد ازاں جامعہ عارف الھسینی میں دم فجر اسلام و پاکستان دشمنوں کی گولی کا نشانہ بنائے گئے،

آپ نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور قیادت میں ملت کی رہنمائی کا حق جس طرح ادا کیا آج تک کسی اور نے آپ کی کمی کو پورا نہیں کیا، شہید قائد نے اپنے دور قیادت میں ملک کے کونے کونے میں جا کر لوگوں کی فکری، شعوری، مذہبی، اجتماعی، ملی تربیت و بیداری کیلئے نیز مختلف قومی و بین الاقوامی مسائل پر اپنا مؤقف بڑی صراحت کے ساتھ پیش کیا،انہوں نے پہلی بار ملت تشیع کوپاکستان کے سیاسی افق پر دوسری اقوام و ملل کے مقابل لانے کی جدوجہد کی اور ۶جولائی ۱۹۸۷ کے دن مینار پاکستان کے وسیع گراؤنڈ میں عضیم الشان قرآن و سنت کانفرنس منعقدکر کے اپنی قوت کا بھرپور اظہار کیا۔یہ پاکستان پر بدترین مارشل لاء کا دور تھا عوامی حقوق پائمال تھے اور سیاسی جماعتیں عملا کالعدم تھیں ایسے میں آپ نے پاکستان کوآمریت سے نجات دلانے اور عوامی حقوق کی بازیابی کیلئے بھر پور جدوجہد کی ملک بھر میں ایک ایک علاقہ میں جا کر سوئی ہوئی ملت کو بیدار کیا۔علامہ عارف الحسینی پاکستان میں حضرت امام خمینی کے نمائندے بھی قرار پائے تھے لہذا ان میں پاکستان کے خمینی کی جھلک ہر انقلاب پسند نوجوان کو دکھائی دے رہی تھی اور وہ جوق در جوق ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو رہے تھے پاکستان میں پہلی بار یہ نعرہ سنائی دے رہا تھا قائد کے فرمان پر جان بھی قربان ہے،ان کی فعالیت ،نظریات اور باتقویٰ شخصیت میں استعمار نے مستقبل کی شکل دیکھ لی تھی لہذا اس نے آپ کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا عالمی استعمار خمینی کے اس معنوی فرزند کو اپنے زر خریدوں کے ذریعے ۵ اگست ۱۹۸۸ کو دم فجر شہید کرنے میں کامیاب ہو گیا۔آپکی خدمت میں پیش ہیں شہید کے چند منتخب افکار پیش کرتے ہیں تاکہ ان کی شخصیت اور افکار سے آگاہی ہو سکے ان خوبصورت افکار کو پڑھ کر یقیناً یہ احساس ہو گا کہ کتنی بڑی ہستی ہم اہلیان پاکستان سے چھین لی گئی۔۔۔۔!
شترکہ دشمن :

شیعہ اور سنی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے تاریخی اختلافات کو حدود میں رکھیں ،ہمارے مشترکہ دشمن امریکہ ،روس اور اسرائیل ہیں جو ہمیں نابود کرنے کے درپے ہیں ایسے میں ضروری ہے کہ ہم اپنے فروعی اختلافات کو بھلا کر اسلام کے دشمنوں کے خلاف مشترکہ مؤقف اختیار کریں۔(شیعہ جامع مسجد بھکر میں خطاب "مارچ 1984ء ")

اپنی اپنی فقہ پر قائم رہتے ہوئے اتحاد:

در حقیقت اپنے اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے بھی زندگی میں مل جل کررہا جاسکتا ہے ۔ آخر یہ کیوں ضروری ہے کہ میں کسی کے یا کوئی میرے مذہبی جذبات مجروح کرے ۔ اسلام میں اسی وجہ سے کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی ممانعت ہے کہ اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ نفرت ہی موجب فساد بنتی ہے البتہ کسی کی دل آزاری کئے بغیر اپنے عقائد پر سختی سے کاربند رہنا اسلام میں بہت ضروری ہے۔ ایران میں شروع شروع میں بعض بیرونی طاقتوں نے کرد قبائل کو عقائد کی بنا پر بغاوت پر ابھار ا لیکن جب دوسری طرف سے ان کے مذہبی جذبات کے احترام کا وطیرہ اختیار کیا گیا تو شیعہ سنی اتحاد کی شاندار مثال دیکھنے میں آئی۔ (شہید باقر الصدر ؒ اور سیدہ بنت الہدیٰ کی چوتھی برسی کے موقع پر پیغامات "اپریل1984ء ")
ہمارا پیغام اخوت:

وقت آگیا ہے کہ وحی الٰہی کے ذریعے پہنچے ہوئے ہمارے عظیم پیغام حیات اسلام کی صداقتوں پر یقین رکھنے والے تمام انسان باہم متحد ہوکر اُٹھ کھڑے ہوں تاکہ انسانوں کو فریب دے کر لوٹنے والی استعماری اور شیطانی قوتوں پر بھر پور ضرب لگائی جاسکے اور دنیا میں عدل و انصاف ،الفت و محبت اور حقیقی امن و آشتی کی فضا قائم کی جاسکے ۔بندوں پر بندوں کی حکمرانی ختم کر کے فقط مالک حقیقی کی حکمرانی کا نفاذ ہی ان شہدائے راہ حق کی تمنا ہے اور یہ انسانی کامرانیوں کی منزل ہے ۔ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم پیغام شہداء کے امین بنیں اور ہر طرح کی قربانی دے کر اس امانت کی حفاظت کریں ۔وطن عزیز پاکستان میں حقیقی اسلامی معاشرے کا قیام ہماری اولین خواہش بھی ہے اور ذمہ داری بھی ۔ اس مقصد کے حصول کیلئے میں ہر مسلمان محب وطن پاکستانی کو دعوت اتحاد عمل دیتا ہوں۔

آج اتحاد اُمت کی اشد ضرورت ہے :

آج کا مسلمان بیدار ہوچکا ہے ۔ مسلمانوں کو معلوم ہوچکا ہے کہ ہمارا مرکز اور ہماری بقاء صر ف اور صرف اسلام سے ہے اور ہمیں اتحاد بین المسلمین کے جھنڈے تلے جمع ہوکر روسی اور امریکی گماشتوں کی سازشوں کوناکام بنانا ہوگا ۔ آج مسئلہ شیعہ سنی کا نہیں ہے بلکہ اسلام و کفر کا مسئلہ درپیش ہے ۔ مسلمان متحد ہوکر ہی قومیتوں کے بتوں کو توڑ سکتے ہیں۔ ہمیں ناصرف سازشی عناصر پر کڑی نظر رکھنا ہوگی بلکہ فسادات برپا کرنے والوں کے ہاتھ کاٹنا ہوں گے۔

وہ دن دور نہیں جب بین الاقوامی استحصال قوتوں کو امت کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوسکے گی:
اسلام کے دشمنوں پر عیاں کردینا چاہیے کہ فلسطین ،لبنان،افغانستان،ہندوستان ،اری ٹیڈیا اور دنیا کے دیگر ممالک میں مسلمانوں پر جو وحشت و بربریت کا بازار گرم کیا جارہا ہے اور اسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران اور لیبیا کے خلاف جو دیدہ و دانستہ اشتعال انگیز کارروائیاں کی جارہی ہیں وہ اس بات کی متقاضی ہیں کہ پوری امت مسلمہ ایک جسد واحد کی طرح اپنے تمام وسائل کے ساتھ دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے۔

اور اگر ایسا ممکن ہوسکا اور انشاء اللہ ایک دن ضرور ایسا ہوگا تو پھر کسی بین الاقوامی استحصالی قوت کو امت مسلمہ کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوسکے گی ۔ہم آپ سے توقع رکھتے ہیں کہ آپ امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کیلئے سرگرم عمل ہوجائیں گے اور باطل قوتوں کے خلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل کو اپنانے کیلئے عملی اقدامات کی طرف توجہ فرمائیں گے ،نہ یہ کہ بعض حکومتوں کے ایماء پر آپ اسلامی کانفرنس کی طرف سے ایسی کانفرنس کا انعقاد کروائیں جو امت مسلمہ کے مفادات کو زک پہنچانے کے درپے ہو۔(اسلامی کانفرنس کے سیکرٹری جنرل شریف الدین پیرزادہ کے نام کھلا خط 21″فروری 1986ء ")

وقت کے تقاضے :

میں تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وقت کے تقاضوں کا ادراک حاصل کریں جو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ مسلمان متحد ہوکر عالمی سامراج کے خلاف اپنا کردار ادا کریں ۔ سامراجی قوتوں کی کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندرموجود فروعی اختلافات کو ہوا دے کر انہیں کمزور کریں۔ (گلزار صادق بہاولپور میں ایک عظیم اجتماع سے خطاب”مارچ 1986ء”)

شرعی و ایمانی فریضہ :

میں تمام مسلمانوں سے بار بار یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہر ممکن طریقے سے امریکہ ،روس اور اسرائیل کی اسلام دشمن پالیسیوں کی بھر پو ر مذمت اور ان سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے رہیں کہ یہ ان کا شرعی و ایمانی فریضہ ہے ۔ ( گلگت، بلتستان کے دورے کے موقع پر خطاب "جون1986ء ")
تنگ نظری کی بجائے وسعت نظری:

بعض عناصر نے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے فتویٰ سازی کے کارخانے قائم کر لئے ہیں ۔تنگ نظری اہل تشیع میں ہو یا اہل تسنن میں اس سے فقط اسلام کو نقصان پہنچے گا ۔ فتویٰ سازی اور تعصب بیرونی جارحیت سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ اس کا فائدہ صرف اسلام دشمن قوتیں ہ اُٹھا سکتی ہیں ۔ دنیا بھر کے باضمیر اور حریت پسند مسلمان متحد ہوکر ہی سامراجی تسلط ،تنگ نظری اور تعصب سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں. (لاہور میں قرآن و سنت کانفرنس سے خطاب 6″ جولائی 1986ء ")

پاکستان سب کا ہے :

پاکستان کے قیام کیلئے تمام مکتب فکر کے مسلمانوں نے بھر پور جدوجہد کی ہے۔ آج کسی ایک مکتب فکر کے نظرئیے کو دوسروں پر مسلط کرنے کا مقصد نظریہ پاکستان سے انحراف کے مترادف ہوگا۔ (بھکر میں عظیم الشان اجتماع سے خطاب "جولائی 1986ء ")

ہماری بقاء ،اسوہ حسینیؑ :

بعض طاقتیں اور اُن کے حواری اتحاد بین المسلمین کو پارہ پارہ کرنے کیلئے تمام تر ہتھکنڈوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ یہ طاقتیں لبنان ،لیبیا،ایران اور افغانستان میں مجاہدین کے ہاتھوں ملنے والی ذلت آمیز شکستوں کا بدلہ اسلامیان پاکستان بالخصوص ملت جعفریہ پاکستا ن سے لینے کی حکمت عملی پر عمل پیر ا ہیں۔ ان حالات میں ملت جعفریہ کو سوچنا ہوگا کہ طاغوت کے مقابلے میں حسینی کردار کی تقلید کرنے ہے یا پھر ظلم و تشدد کے آگے سرجھکانا ہے ۔ ملت کے غیور افراد اپنے خلاف ہونے والی ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے حکومت اور اس کے حواری امریکہ کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کے ہراول دستے نوجوانان ملت جعفریہ سے خوفزدہ ہیں۔

حالیہ فسادات کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ملت کے اس فعال حصے کو اپنی تخریبی کارروائیوں کے ذریعے خوفزدہ کر سکیں لیکن وہ اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکے۔
(سحر تک نفاذ فقہ جعفریہ کی سپریم کونسل اور مرکزی کونسل کے اجلاس سے لاہو ر میں خطاب "اکتوبر 1986ء ")

ہم داعی اتحاد بین المسلمین ہیں:

ہم اتحاد بین المسلمین کیلئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔ہم نہیں چاہتے کہ مخصوص سوچ اور مفادات کا حامل طبقہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو ان کے جائز حقوق سے محروم کردے ۔ملت جعفریہ پر ہونے والے مظالم اور پروپیگنڈے میں سامراجی ایجنٹ ملوث ہیں۔ ان قوتوں نے مذہبی اور سیاسی تنظیموں میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے انتشار پیدا کر کے مختلف طبقوں کے درمیان فسادات کی راہ ہموار کی ہے تاکہ استعماری قوتوں کو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
(بھوانہ میں ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب "دسمبر 1986ء ")

اتحاد امت کے خلاف ملک کی فضا کو مکدر کیا جارہا ہے:
اتحاد امت مسلمہ کی بقاء کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا اور باہمی اتحاد و اتفاق کو اپنی صفوں میں قائم رکھتے ہوئے پاکستان سے سامراجی دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ مظلوم پاکستانیوں بالخصوص ستم رسیدہ شیعہ عوام کے خلاف اُٹھنے والا ہر ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ ملک عزیز پاکستان میں معاشرتی زندگی کو طبقاتی کشمکش نسلی،لسانی و علاقائی عصبیت ،مذہبی منافرت اور سیاسی رسہ کشی میں مبتلا کیا جارہا ہے ۔ منظم منصوبے کے تحت بے گناہ اور معصوم شہیدوں کا لہو بہایا جارہا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ انسانی حقوق کے دعویداران تمام مظالم پر خاموش بیٹھے ہوئے ہیں۔
(امام بارگاہ کاشانہ زینبیہ بدین میں خطاب "دسمبر "1986)

اسلامی اہداف:

ہماری دعوت اسلامی اقدار کے احیاء کیلئے ہے۔ اتحاد بین المسلمین کے شعار کو بلند کرتے ہوئے ہم اپنے اسلامی اہداف کی تکمیل کیلئے آگے بڑھیں گے ۔ ہماری راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کیلئے مخصوص مکتب فکر کے لوگ آئے دن غلیظ پروپیگنڈے کے حربے آزما رہے ہیں اسی پر بس نہیں یہاں تک کہ کفر کے فتوے صادر کئے جارہے ہیں مگر یہی فتویٰ اسلام کے اصلی دشمن امریکہ کے لئے نہیں بلکہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کیلئے ہیں ۔ ایک دوسرے کے خلا ف فتوے بازی کی بجائے اسلام کے حقیقی دشمنوں کے خلاف اجتماعی جدوجہد کی جانی چاہیے ہم کشادہ دلی کے ساتھ تمام مکاتب فکر کی غیور اور مظلوم مسلمانوں کو متحد اور منظم کرنے کے لئے کوشاں رہیں گے۔
(انجمن حیدریہ کے زیر اہتمام امام بارگاہ حیدری سانگھڑ میں خطاب "دسمبر 1986ء”)

اتحاد ملت:

جس طرح شیعیان حیدر کرارؑ نے برادران اہلسنت کے ساتھ مل کر اور اپنے مقدس لہو کی قربانی دے کر اس مملکت کے حصول کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا اسی محبت اور یگانگت کے جذبے کے ساتھ آج بھی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی جائیگی۔

تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں کو جزئی و فروعی اختلافات کو بھلا کر فرقہ واریت ،صوبائی تعصب اور گروہی سیاست سے بلند ہوکر وسیع تر دینی مفاد کے لئے متحد ہوجانا چاہیے۔
(جناح ہال جیکب آباد میں خطاب "دسمبر 1986ء”)

پاکستان کی بقاء اسلامی نظام میں مضمر ہے:

تمام مکاتب فکر کے علماء اور دانشور ملک میں نظام اسلام کے قیام کیلئے اکٹھے ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ بے شمار قربانیوں کی بدولت حاصل ہونے والی آزادی 40برس گزر جانے پر بھی کہیں محسوس نہیں ہوتی ،سامراجی آقاؤں سے حاصل ہونیوالی آزادی کے باوجود ان کے چھوڑے ہوئے نظام کی بدولت آزادی کے احساس سے ہم آج بھی محروم ہیں۔

ایوان اقتدار کے اندر اور باہر کی بعض قوتوں نے اپنے سرپرستوں کی عزائم کی تکمیل کیلئے اسلام کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ ثقافتی طائفوں اور جدید نظریات کی آڑ میں نوجوان نسل کو دین سے دور کرنے کی سازشوں کو در پردہ حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔

ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی بقاء اور سا لمیت صرف اور صرف اسلام کے انقلابی نظام پر ہی منحصر ہے دوسرا کوئی بھی نظام جو قیام پاکستان کے بنیادی نظریات سے متصادم ہو ملکی اتحاد و یکجہتی کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا کردار بھی حد درجہ غیر اسلامی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اسلامیان پاکستان کو اس فکری اور عملی بربادی سے بچانے کیلئے ذرائع ابلاغ عامہ کو اسلامی تہذیب و تمدن کا مبلغ بنا جائے۔ (گڑھی خیرو سندھ میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب "فروری1987ء "
سیاست ہمارا راستہ:

ہم اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں گے حتیٰ کہ اپنے خون کا آخری قطرہ تک اس جد و جہد میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے لیکن اپنے مقصد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

* ہم کاسہ لیسی کی سیاست کو نہ اپنائیں گے بلکہ اپنے دینی تشخص کے ساتھ حصول مقصد کیلئے سیاست میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ ایسی سیاست جس میں مطالبات دین غالب ہوں۔ ہم کسی سیاسی جماعت کے تابع نہیں ہیں۔
* ہم وقار اور عزت کی زندگی کو غلامی پر ہر قیمت میں ترجیح دیں گے۔
* صرف وحدت اسلامی سے ہی ملک میں نفاذ اسلام کا عمل کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔

علماء سیاست میں امام خمینیؒ کی پیروی کریں:

طاغوتی طاقتوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ علماء کو سیاست سے دور رکھیں۔ اس سلسلے میں آپ امام خمینی کی رہبری و رہنمائی میں ان استعماری سازشوں کا مقابلہ کریں کسی کو خیال نہیں کرنا چاہئے کہ امریکہ مردہ باد کہنا ایک خارجی مسئلہ ہے اور ہمیں صرف اپنے داخلی اور اندرونی معاملات کے بارے میں سوچنا چاہئے بلکہ ہمیں داخلی و خارجی تمام معاملات سے نبرد آزما ہونا چاہئے۔

*علمائے کرام کے بغیر اسلام اور انقلاب کا تصور سرے سے ہی ممکن نہیں۔ میں نوجوانوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ علمائے کرام سے خصوصی رابطہ رکھیں۔ میں علمائے کرام سے زور دیکر یہ کہوں گا کہ وہ نوجوانوں کی بھر پور تربیت کریں۔ اور اس سلسلے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں تاکہ اسلام دشمن قوتیں ان کی توانائیوں سے استفادہ نہ کر سکیں۔
دوستی اور دشمنی صرف اللہ کیلئے۔

موجودہ دور میں تشیع کا تشخص اہم ترین مسئلہ ہے ہماری دوستی اور دشمنی صرف اللہ تعالیٰ کیلئے ہے۔ ہم سب کا مقصد اور ہدف ایک ہے۔ اسلامی نظام حیات کی بالا دستی کیلئے شیعہ سنی سے بالا تر ہو کر مغربی نظام حکومت، علاقائیت اور دیگر مادی مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ ہم اتحاد و وحدت کی طاقت سے ہی دشمن کی مکاریوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
مکتبِ انبیاء:

مکتبِ انبیاء راحت و آرام طلبی نہیں بلکہ تکالیف و زحمات کا مسلسل مقابلہ ہے۔ لہٰذا حق کی خاطر ہمیں یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑے گا۔

تحفظِ عزاداری:

میرے نزدیک عزاداری سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام افضل العبادات اور شعائر اللہ میں سے ہے عزاداری ہی کی برکت سے شیعہ قوم دنیا میں باقی ہے اور اسی لئے تحفظِ عزاداری کو ہم اپنا اولین دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔
اسلام محمدیؐ اور امریکی اسلام:

دنیا میں اسلام دو طرح کے ہیں۔ ایک اسلام حضرت محمدؐ کا اسلام ہے اور دوسرا امریکہ اور روس کے مفادات کا تحفظ کرنے والا ہے شریعت آرڈیننس دینے والوں نے اسلام اور قرآن کی بالا دستی کی بجائے امریکی نظریات سے قریب خود ساختہ اسلام کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کی سازش کی ہے کیونکہ وہ اسلام قبول نہیں ہے جس میں جذبہء جہاد ہو۔

ہمارے نوجوان اور اسلام:

نوجوان اسلام کے پاسبان ہیں۔ یہ آجکل کا طالبعلم ہے بلکہ معاشرے میں خاص کر یونیورسٹیوں میں اسلام کا ایک نمائندہ اور پاسبان بھی ہے وہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے اعلیٰ افکار کی رسالت کا بھی ذمہ دار ہے جو نہ فقط تحریر و تقریر کے ذریعے بلکہ اپنے کردار و عمل کے ذریعے دوسروں کو خیر کی دعوت دینے کی مسؤلیت بھی رکھتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button