مقالہ جات

جولائی میں بہار، قرآن و سنت کانفرنس

quran o sunat چھ جولائی 1987ء کو لاکھوں حسینی، فرزند سیدالشہداء کی قیادت میں مینار پاکستان کے سائے تلے جمع تھے، ہر طرف حضرت عباس ع کے علم لہرا رہے تھے اور علامہ اقبال کے لاہور کی فضائیں فقط ایک ہی نعرے سے گونج رہی تھیں ..
طاغوت کا دل کھبرائے گا غازی کا علم لہرائے گا
شہید مظلوم علامہ عارف حسین الحسینی کی پر سوز آواز دلوں کو معطر کر رہی تھی، بار بار فرماتے! اے برادران عزیز، اے مومنین کرام، اے حیدر کرار کے متوالو، اے حسینیو۔۔ جونہی قائد شہید مومنین کو اس محبت و عقیدت سے مخاطب فرماتے، مجمع میں اکثریت کی آنکھیں پر نم ہو جاتیں۔ ہر سننے والے کو خود اپنی ذات سے بھی زیادہ اس بات کا یقین ہونے لگتا کہ یہ آواز اور یہ خطاب فقط زبانی نہیں اور نہ ہی عام لیڈروں کی طرح یہ الفاظ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے ادا کیے جا رہے ہیں، بلکہ ہمارا قائد خود ہم عوام کو اس سے کہیں زیادہ محبوب رکھتا ہے، جتنا ہم اپنے قائد سے محبت کرتے ہیں۔ شہید عارف حسین الحسینی کا ایک ایک لفظ اتنا پر اثر تھا کہ افسردہ دل گلاب کی مانند کھل اٹھتے۔

آج سے تقریباً ربع صدی قبل عام لوگوں میں اتنا سیاسی اور اجتماعی شعور نہیں تھا جتنا اب ہے۔ لیکن شہید عارف حسین الحسینی کی ذات میں ایسا کمال تھا کہ ہر ایک نہ فقط بالغ نظر ہوگیا بلکہ متحرک اور فعال بھی۔ یہ کیفیت دراصل قائد شہید کی ذات پر یقین اور اعتماد کی وجہ سے تھی، جیسا کہ قائداعظم محمد علی جناح کے متعلق مشہور ہے کہ کسی جلسہ میں شریک ایک شخص سے پوچھا گیا کہ آپ کو قائداعظم کی تقریر سمجھ آ رہی ہے کہ نہیں؟ تو وہ شخص بلا تردد پورے اطمینان کے ساتھ بولا کہ زبان و الفاظ کا تو مجھے پتہ نہیں، لیکن یہ شخص یعنی قائداعظم جو کچھ کہہ رہا ہے مجھے پورا یقین ہے کہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اسی کو عدالت کہتے ہیں کہ حق اور سچ کا جتنا علم انسان کے پاس ہو وہ اتنا ہی اس کے عمل میں منعکس ہو۔ اور اس زمانے میں اگر کوئی اس کا حقیقی مصداق ہو سکتا ہے تو وہ فقط شہید عارف حسین الحسینی ہیں۔

جس طرح مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے متعلق ہے کہ آپ کی ذات گرامی قدر متضاد کمالات کا مجموعہ ہے، شہید عارف حسین الحسینی ایسے ہی معجز نما تھے، جولائی کے مہینے میں موسم کی حدت اور گرمی کی شدت اپنے عروج پر ہوتی ہے اور ہوتی ہوگی! لیکن 6 جولائی 1987ء کو مینار پاکستان لاہور، قرآن و سنت کانفرنس کے موقع پر ایسی بہار تھی کہ جنت کا گماں ہوتا تھا۔ شہید عارف حسین الحسینی کی موجودگی دلوں کے لئے ٹھنڈک اور آنکھوں کے لیے سرور کا سبب تھی۔

یکم جولائی 2012ء کو بھی ہو سکتا ہے کہ سورج کی تپیش اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہو، لیکن قرآن و سنت کانفرنس کے پنڈالوں میں نہیں ہوگی کیونکہ وہاں تو قائد شہید عارف حسین الحسینی کی روح حکمران ہوگی، ہر طرف علی علی کی صدائیں، لبیک یاحسین ع کے نعرے اور زندہ ہے حسینی زندہ ہے کے شعار گونج رہے ہوں گے، اور ایک بار پھر لاہور کی فضائیں جولائی کے مہینے میں بہار کا موسم محسوس کریں گی۔

ہاں ہاں ہمارا یہ ایمان ہے کہ آج کی گرمی کربلا کی گرمی سے زیادہ نہیں اور ہمارے لیے تو شہیدین (یعنی شہید عارف حسین الحسینی اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی) نے حجت قائم کر دی ہے کہ وہ نسلیں جنہوں نے آئمہ معصومین ع کا زمانہ دیکھا اور وہ لوگ کہ جنہوں نے سید روح اللہ خمینی رہ کا انقلاب دیکھا ہے وہ فرشتوں کو بھی کوئی عذر پیش نہیں کرسکتے کہ ہمارے لئے ظلم کے سامنے قیام کرنے اور قسط و عدالت قائم کرنے کے لئے جدوجہد کا کوئی نمونہ نہیں تھا۔ قراداد پاکستان کی یادگار اور شاہی مسجد لاہور کے مینار اس بات کے گواہ ہیں کہ انگریزی استعمار سے لیکر داخلی استبداد تک، اگر کسی نے ظالموں اور جابروں کو للکارا ہے تو وہ حسینی ہیں فقط حسینی۔

قرآن و سنت کانفرنس اس بات کا اعلان ہے کہ ہم شہید عارف حسین الحسینی کی آرزو کو ضرور پورا کریں گے۔ اے قائد مظلوم شہید عارف حسین الحسینی کی مقدس روح، ہم آپ سے توسل کرتے ہیں اور آپ کے نقوش پا ہمارے دلوں کا تعویذ ہیں۔ ہم اس عہد پہ قائم ہیں کہ جب تک پاکستان کی سرزمین پر ایک بھی حسینی باقی ہے، اس مقدس سر زمین پر یزید وقت امریکہ کے قدم نہیں جمنے دیں گے، پرچم عباس ع بلند رہے گا، زندگی کی آخری سانس اور خون کی آخری بوند تک آپ کے مشن کو جاری رکھیں گے، اے ہماری عزتوں اور ناموس کی خاطر جان قربان کرنے والے شہید، آپ کے پاکیزہ لہو کی قسم!
ہم ایک ہیں، ایک رہیں گے!
مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازش ناکام بنائیں گے،
اے خمینی بت شکن کی ذات میں اپنے آپ کو ضم کر دینے والے شہید!
ہماری جانیں تو ہیں ہی ولایت کے حکم پہ قربان ہونے کے لئے اے ہماری عقیدتوں اور محبتوں کے محور شہید
قرآن و سنت کانفرنس آپ کا پرچم تھامے
منزل کی طرف جاری سفر میں ایک سنگ میل ہے۔
ہمارے جذبے جواں، حوصلے بلند اور ارادے پختہ ہیں۔ موسم کی سختیاں اور امریکی و اسرائیلی تکفیری گروہوں کی دہشتگردی ہمارے بڑھتے ہوئے قدموں کو نہیں روک سکیں گی۔ ہم ایک زندہ و پائندہ قوم ہیں اور بہ یک زباں اعلان کرتے ہیں!
کہو کہ اب اگر کوئی قاتل ادھر آیا
تو ہر قدم پہ زمیں تنگ ہوتی جائے گی

متعلقہ مضامین

Back to top button