مقالہ جات

شیطان بزرگ امریکہ۔۔۔ رہبر معظم کی نگاہ میں

shiitenews rehabr ali khamnوہ لوگ جو امریکہ کو نجات دہندہ تصور کرتے ہیں وہ سراسر غلطی پر ہیں، امریکہ تو بہانے سے گھستا ہے اور آپ کے تمام وسائل اور آزادی کو صلب کر لیتا ہے، کیا آج بھی امریکہ کو اسلام دشمن ثابت کرنے کیلئے کسی دلیل کی ضرورت ہے۔؟ کیا آج بھی ایسے سادہ لوح افراد موجود ہیں جو امریکہ کو اپنا نجات دہندہ مانیں۔؟ میرے خیال میں ایسے لوگ نہیں ہیں، لیکن بزدل لوگ ضرور اس معاشرے میں موجود ہیں، جو استقامت کا مظاہرہ کرنے سے ڈرتے ہیں، جو امریکہ کی جھوٹی طاقت سے مرعوب ہیں، جو امریکہ سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔؟؟؟
امریکہ کی اسلام دشمنی اور تسلط پسندی کی دیرینہ آرزو اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ہاں یہ بات اور ہے کہ جب امام خمینی (رہ) نے ملت مسلمہ کی تمام تر مشکلات کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیا تھا تو بہت سے لوگوں کے ہاتھ جیسے ایک موضوع آگیا تھا اور ہر کسی نے اس موضوع پر اپنے اپنے انداز سے لب کشائی کی، لیکن زیادہ تر لوگوں کی رائے میں ابہام تھا اور وہ اس رائے پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھے لیکن وقت نے بتا دیا کہ امام بزرگ خمینی بت شکن (رہ) کا تجزیہ بالکل صحیح تھا۔

امام خمینی (رہ) کی جانب سے امریکہ کو اسلام کا دشمن قرار دینے کے بعد پاکستان میں فرزند امام خمینی (رہ) قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رح) نے 16 مئی کو یوم مردہ باد امریکہ کے عنوان سے منانے کا اعلان کیا اور پاکستان بھر میں امریکہ مخالف ریلیاں، سیمینار اور پروگراموں کا انعقاد ہوتا رہا، تاکہ عوام الناس کو امریکہ کی جنایت کاریوں سے آگاہ کیا جائے اور امریکہ کا اصل اسلام دشمن مکروہ چہرہ عوام کے سامنے پیش کیا جائے اور انسانی حقوق اور جمہوریت کی نقاب کو امریکہ کے کریہہ چہرے سے اتار پھینکی جائے۔

رہبر معظم کی مدبرانہ قیادت نے ہمیں ہر قدم پر امریکہ اور اس کے حواریوں کی سازشوں سے نہ صرف آگاہ رکھا بلکہ ان سازشوں کو ناکام بھی بنایا، آج پورے عالم اسلام میں بیداری اور امریکہ سے نفرت دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکہ کے چہرے سے نقاب ہٹ چکی ہے اور اسے پہچانا جا چکا ہے۔ ہم یہاں اختصار کے ساتھ امریکہ کے بارے میں رہبر معظم کا نظریہ پیش کریں گے۔

رہبر معظم امریکہ کی استکباری سوچ اور طرز فکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’افسوس کي بات يہ ہے کہ آج پوري دنيا ميں بني نوع انسان کي زندگي استکباري غنڈوں کے حصار ميں ہے، ان ميں سرفہرست امريکہ ہے۔ اس وقت دنيا ميں ايک ايسي حکومت ہے جو اپنا حق سمجھتي ہے کہ مختلف قوموں اور ملتوں کے ذخائر کے ذريعے اپنا منافع حاصل کرے۔ يہ وہي استکباري فکر و روح ہے اور کچھ نہيں۔ اگر ايک حکومت اپنا يہ حق سمجھے اور بغير شرم و حيا کے يہ اعلان کرے کہ جو حکومت ميري مخالفت کرے گي، ميں اس کا خاتمہ کر دوں گي، يہ استکباري روح ہے، يہي وہ چيز ہے جس کا امريکہ، لاطيني امريکي حکومتوں اور دنيا کي دوسري حکومتوں کے متعلق اظہار کر چکا ہے۔
 
استکبار کے اپنے مسائل کا کوئي حل نہيں۔ اس کے منافع خطرے ميں ہيں اور جتني زيادہ حکومتوں کو وہ تباہ و برباد کرے گا اتنا ہي اس کے لئے سود مند ہے، لہذا وہ يہ صورتحال وجود ميں لاتا ہے۔ جيسا کہ آپ مشاہدہ کر رہے ہيں کہ امريکائي مکمل بے حسي کے ساتھ ہزاروں انسانوں کے قتل عام کي بات کرتے ہيں، يا ہيرو شيما ميں ايٹم بم کے ذريعے ہزاروں انسانوں کے قتل عام کو معمولي شمار کرتے ہيں اور کہتے ہيں کہ ہمارا يہ اقدام مصلحت کي بناء پر تھا، ہم اس کام کو ضروري سمجھتے تھے!‘‘

ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’ميں نے بارہا يہ نکتہ بيان کيا ہے کہ استکبار کا انحصار اپني طاقت اور قدرت سے زيادہ اپني ہيبت اور زور و زبردستي پر ہے، استکبار يعني اپني ہيبت بٹھانے والا، ڈرانے دھمکانے والا، شک و ترديد ايجاد کرنے والا، اور ان جيسے دوسرے کاموں سے آج تک زندہ ہے يہ طاقت جس کي بڑي طاقتوں نے نمائش کي ہے معلوم ہوا کہ افسانہ ہے، من گھڑت ہے، البتہ ہم پہلے بھي جانتے تھے، يہ وہ حقيقت ہے جو رہبر کبير انقلاب امام خميني (رہ) کي زبان پر جاري ہوئي کہ ’’امريکا ہرگز ہمارا کچھ نہيں بگاڑ سکتا‘‘ يہ حقيقت آشکار ہو گئي۔‘‘

ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’جب ميں پاکستان گيا تھا تو امام خميني (رہ) نے مجھ سے یہ فرمايا کہ آپ پاکستان کے علماء کو بتائيں کہ شرق و مغرب اور امريکا کي جانب سے ہم پر جو دبائو ہے وہ اس لئے نہيں ہے کہ ہم ايراني ہيں، بلکہ اس کي بنياد اسلام ہے، نعوذ باللہ جس دن دنيا يہ احساس کرے کہ ہم اسلام کے لئے سنجيدہ نہيں ہيں، اسلام کے اصولوں کا سودا کر سکتے ہيں، اسلام کو اہمیت نہیں دے رہے ہيں، اسي دن يہ سارے دباو ختم ہو جائيں گے۔ عالمي استکبار اور سر فہرست امريکا اور دنيا پر مسلط ان کي شيطاني مشينري يا وہ ممالک جو مسلط نہيں بھي ہيں ليکن استکبار کے منابع کے لئے کام کرتے ہيں، يہ تمام طاقتيں ايران کي صرف اس وجہ سے دشمن ہيں کہ ايران ميں اسلام ہے اور اس کے علاوہ کوئي وجہ نہيں ہے۔‘‘

انسانی حقوق کی پامالی کہ حوالے سے رہبر معظم نے ارشاد فرمایا:
’’امريکي جو حقوق بشر کا دعويٰ کرتے ہيں وہ ان طاقتوں کے ساتھ جن کے درميان انساني حقوق، آزادي اور ڈيموکریسي درحقيقت وجود ہي نہيں رکھتي، گہرے دوست ہيں، ان پر اعتراض نہيں کرتے، کچھ ممالک ميں حتٰي پارليمينٹ وجود نہيں رکھتي، اور عوام سياست ميں کوئي کردار ادا نہيں کرسکتے، ليکن ان تمام عيوب کے باوجود امريکي حکمران اسے عيب نہيں سمجھتے، اسلام کے ساتھ سخت مخالف ہيں، درحقيقت جس چيز سے وہ مقابلہ پر ہیں، وہ اسلام ہے۔

دنيا کي مظلوم قوموں کے لئے باعث گريہ بھي ہے اور ہنسنے کا مقام بھي، يعني امريکہ کي جانب سے یہ انسانی حقوق کی علمبرداری کا دعويٰ مضحکہ خيز ہے، کيونکہ سرفہرست وہ خود ہي انساني حقوق کي خلاف ورزي کرنے والے ہيں، سينہ ٹھوک کر حقوق بشر کا دعويٰ کرنے والے کون ہيں! وہ لوگ جن کے (پنجوں) ہاتھوں سے آج بھي فلسطينيوں کا خون بہہ رہا ہے۔ مشرق و مغرب، افريقا و ايشيا اور دنيا ميں جہاں کہيں بھي کسي قوم کا قتل عام کرنا ہو يا کسي ملت کو نابود کرنا ہو، یہ انھيں لوگوں کا کام ہے جو خود حقوق بشر کا مذاق اڑاتے ہيں، آج صہيوني طاقت نے امريکہ اور دوسري طاقتوں کي پشت پناہي کي بدولت فلسطيني قوم کو بدترين حالت ميں تبديل کر ديا ہے اور ان پر بے پناہ دبائو ڈال رہي ہے۔ فلسطين کے شہداء کا خون اس کي گردن پر ہے اور ايسے سفاک انسان حقوق بشر کا نعرہ لگاتے ہيں! کيا يہ بات مضحکہ خيز نہيں ؟!‘‘

اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی ڈگڈگی بجانے والا خود ہی انسانی حقوق کی پامالی کا ذمہ دار ہے، عراق ہو یا افغانستان، سوڈان ہو یا صومالیہ، بحرین ہو یا شام، پاکستان ہو یا کوئی اور ملک، چہرے بدل کر، اپنے چیلوں کے ذریعے معصوم لوگوں کے قتل عام میں ملوث ہے، پہلے قتل کرتا ہے پھر نجات دہندہ بن کر آ جاتا ہے کہ ہم تمہیں مشکل سے نجات دلائیں گے۔ وہ افراد جو آج بھی امریکہ کی دھوکہ دہی کے آگے امریکہ کو اب بھی دوستی یا اعتبار کے قابل سمجھتے ہیں وہ سراسر نادانی کی باتیں کرتے ہیں اور غلطی پر ہیں۔
 
رہبر معظإ فرماتے ہیں کہ :
’’جہاں کہيں بھي جنگ ہے ان کا (امریکہ اور اس کے حواریوں) کا پائوں درميان ميں ضرور ہو گا۔ جہاں بھي عوام، حکومت يا کسي بھي قوم کے خلاف سازش ہو رہي ہو، وہاں امريکہ اور اس جيسے ممالک ضرور شامل ہوں گے، ليکن جہاں حقيقت ميں حق کي بات ہو تو وہاں ان کا کوئي کردار نہيں ہو گا اور ايسی حالت میں بھی بے شرمي اور ڈھٹائی کے ساتھ حقوق بشر کے دعويدار ہيں۔ امريکہ کے موجودہ صدر نے اپني انتخابي تحريک ميں اور منتخب ہونے کے بعد اپني حکومت ميں، جس چيز کا اہميت دي اور جو وعدہ کيا وہ يہ تھا کہ حقوق بشر کو زيادہ اہميت دينگے۔ کيا پ جانتے ہيں کہ حقوق بشر کا کيا مطلب ہے؟ تف ہو اس شخص کے لئے جو امريکہ کے جھوٹے پروپيگنڈے اور صہيونيت کي جھوٹي تبليغات کي بدولت ان کي اندھي تقليد کرے۔‘‘

اسلامی ممالک کی غفلت اور حکمرانوں کی خیانت کے باعث اسلامی ممالک میں امریکی نفوذ کے بارے میں رہبر معظم فرماتے ہیں کہ:
’’مسلمانوں کي غفلت ہميشہ سبب بني ہے کہ اسلام دشمن مختلف بہانوں سے اسلامي ممالک کے خزانوں پر مسلط ہو جائيں اور مسلمانوں کي تقدير ان کے ہاتھ ميں ہو، موجودہ زمانے ميں کفر و استکبار کي (فوجي) طاقتيں، خاص طور پر امريکہ کي ظالم اور کينہ پرور طاقت، اسلامي ممالک پر قابض ہو کر اپني مرضي کے مطابق مسلمانوں کي جان و مال و عزت و آبرو پر دست درازي کر رہے ہيں۔ آج امريکہ کي استکباري طاقت ان علاقوں ميں مسلمانوں کي کمزوري سے بھرپور فائدہ اٹھا رہي ہے، کيوں اور کس لئے يہ خالص اسلامي ممالک ميں داخل ہوں اور اپنے فوائد کو حاصل کرنے کے بہانے بدترين اور رقت آميز صورت حال پيدا کرے؟ کيوں امريکہ کي اتني جرآت ہو کہ وہ يہ کارنامے انجام دے؟ اگر تمام مسلمان قوميں اٹھ کھڑي ہوتيں تو يہ بدترين واقعہ ہرگز پيش نہيں آتا۔‘‘

مسلم حکمرانوں کی خیانت کے علاوہ ایک اور حربہ جو امریکہ نے اسلامی ممالک کو کمزور کرنے اور متحد نہ ہونے دینے کیلئے اپنایا وہ تھا فرقہ واریت کا فروغ، رہبر فرماتے ہیں:
بعض ملا روحاينت کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کے بعض فرقوں کے متعلق آشکار طور پر کفر کا فتويٰ صادر کرتے ہيں، حالانکہ يہ فرقے اسلام کي حقاينت سے وابستہ ہيں، مسلمان قوم پر لازم ہے کہ وہ بڑے شيطان کے خفيہ ہاتھوں او جنایتوں کو پہنچانے اور خيانت کاروں کو منظر عام پر لائيں۔

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
استعمار نے اپني ديرينہ خواہش کے مطابق اپنا مقصد بنايا ہوا تھا کہ مسلمانوں کے درميان تفرقہ پھيلائے، ليکن انقلاب اسلامي کي کاميابي کے بعد ايجاد ہونے والي مسلمانوں کے درمیان وحدت کی فضا نے امريکہ اور اس کےحواریوں کي کوششوں کو تيزکر دیا، برادر کشي کو مسلمانوں کے درميان پھيلايا، آج پوري اسلامي دنيا ميں ايسے افراد موجود ہيں جنھوں نے اپنے قلم استعمار کي خدمت کے لئے وقف کر ديئے ہيں، جس کے عوض وہ امريکي ڈالر سے نوازے جاتے ہيں اور ان کا مقصد و ہدف يہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے درميان اختلاف ايجاد کريں۔

استعمار جانتا ہے کہ انقلاب دنيا بھر کي توجہ اپني جانب مبذول کر لے گا تو استعمار کو يہ خطرہ محسوس ہوا کہ اب تک کي جانے والي سرمايہ گذاري جو مسلمين ميں اختلاف کا بيج بونے کے لئے کي گئي ہے وہ برباد ہو جائے گي۔ لہٰذا انھوں نے اپني کوشش تيز کر دي اور آج وہ دنيا ميں مسجد ضرار کي تعمير پر سرمايہ خرچ کر رہے ہيں اور ايسے ادارے بنا رہے ہيں، جن کي بدولت وحدت مسلمين کو ختم کيا جا سکے اور اسلامي فرقے آپس کے اختلاف ميں دست بہ گريباں ہو جائيں۔

دوری جانب طالبان کی تشکیل اور اس کی حمایت پر رہبر معظم فرماتے ہیں کہ؛
قابل افسوس بات يہ ہے کہ ايران کے پڑوسی ملک ميں اسلام کے نام پر بہت سے کام انجام ديئے جا رہے ہيں، طالبان جن کے متعلق معلوم نہيں کتنا اسلام سے آگاہي رکھتے ہيں، انھوں نے ايسے کام انجام ديئے ہيں جن کا اسلام سے کوئي تعلق نہيں اور جنھيں اسلام قبول نہيں کرتا۔ لیکن دنیا شاہد تھي کہ امريکہ نے طالبان کي ستائش کي، نہ صرف یہ کہ سرزنش نہيں کي بلکہ اس کي بھرپور حمايت کي تھي، تاکہ وہ اپنے مخالفين کو کچل سکے، اس بات سے ہي امريکي تبلغات کي دھوکہ دہي اور حقوق بشر سے متعلق اس کا نعرے کا اصل چہرہ آشکار و واضح ہو جاتا ہے۔

امریکہ نواز لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
بعض عرب ممالک کے بادشاہ اپنے خدا امريکہ کي رضايت حاصل کرنے کے لئے اپني عرب قوم کے جذبات کہ جس کا ہميشہ دم بھرتے ہيں، کو بھي اسرائيل کے مقابلے ميں بھلا بيٹھے… ان خيانت کار حکمرانوں کي نظر ميں عربوں کي وحدت اور قوميت صرف اس وقت مطرح ہے کہ جب امريکہ چاہے کہ ان کے (عربوں) ذريعے سے اسلامي جمہوريہ ايران اور حقيقي اسلام کے خلاف سوء استفادہ کرے۔ تف ہے مردہ ضميروں اور ناپاک دلوں پر، جو امريکہ کي رضايت حاصل کرنیکے لئے ہر چيز قربان کرنے کو تيار ہيں، چاہے وہ خداداد طبيعي ذخائر ہوں يا انساني عزت و کرامت، يا اسلامي ايمان و آبرو ہو۔

وہ لوگ جو امریکہ کو نجات دہندہ تصور کرتے ہیں وہ سراسر غلطی پر ہیں، امریکہ تو بہانے سے گھستا ہے اور آپ کے تمام وسائل اور آزادی کو صلب کر لیتا ہے، کیا آج بھی امریکہ کو اسلام دشمن ثابت کرنے کیلئے کسی دلیل کی ضرورت ہے۔؟ کیا آج بھی ایسے سادہ لوح افراد موجود ہیں جو امریکہ کو اپنا نجات دہندہ مانیں۔؟ میرے خیال میں ایسے لوگ نہیں ہیں، لیکن بزدل لوگ ضرور اس معاشرے میں موجود ہیں، جو استقامت کا مظاہرہ کرنے سے ڈرتے ہیں، جو امریکہ کی جھوٹی طاقت سے مرعوب ہیں، جو امریکہ سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔؟؟؟
تحریر: سید رضا نقوی

متعلقہ مضامین

Back to top button