مقالہ جات

سانحہ خانپور ملک اسحاق کی رہائی کا نتیجہ؟

nadirمبصرین خانپور واقعہ کی بڑی وجہ پنجاب حکومت کے کالعدم تنظیموں سے رابطوں اور سرپرستی کو قرار دیتے ہیں۔ سٹی تھانہ خانپور میں ملک اسحاق سمیت سولہ افراد پر مقدمہ درج ہو چکا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ گڈگورننس کا راگ الاپنے والی پنجاب حکومت، ملک اسحاق کو کیسے گرفتار کرتی ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر ملک

اسحاق کو گرفتار نہ کیا گیا اور اس پر مقدمہ نہ چلایا گیا تو یہ تاثر ملت تشیع میں زور پکڑے گا کہ اُن کا ناحق خون بہانے میں پنجاب حکومت برابر کی شریک ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلٰی، جو اپنے آپ کو خادم اعلٰی پنجاب کہتے ہیں، وہ ایف آئی آر میں نامزد ملزمان کی گرفتاری کیلئے کیا اقدامات کرتے ہیں۔
زمین سخت ہے اور آسمان بھی دور، انسان جائے بھی تو کہاں؟ ہر روز ایک نئی داستان رقم ہو رہی ہے اور آنے والا ہر دن کئی گھروں کے چراغ گل ہونے کی خبر دے رہا ہے، کہیں بم دھماکے ہوتے ہیں تو کہیں ٹارگٹ کلنگ، کوئی اغوا ہو رہا ہے تو کسی کو فقط اس جرم کی پاداش میں موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے کہ اس کے نام کیساتھ لفظ علی، حسن یا حسین آتا ہے اور شائد اس سے بڑھ کر یہ جرم ہے کہ ان کے آباو اجداد نے اس ملک کی خاطر اتنی بڑی قربانیاں دیں، کسی کی باری لگ گئی ہے تو کوئی اگلے نشانے پر ہے، اس ملک میں کوئی پوچھنے والا نہیں، حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے، وہ تو فقط اپنی حکومت کے پانچ سال مکمل کرنے کیلئے تمام توانائیاں صرف کر رہے ہیں، بھلے ملک میں خون کی ہولی کھیلی جاتی رہے۔ جب کبھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس کو طالبان اور دہشتگردی کا نام دیکر اگلے واقعہ کا انتظار کیا جاتا ہے، خون اتنا ارزاں ہے کہ جب اور جہاں جس فرقہ پرست کو موقعہ ملتا ہے وہ اپنا کام کر دکھاتا ہے۔
سانحہ مستونگ میں چھبیس شہداء کا واقعہ ہو یا سانحہ اختر آباد، آج تک عوام یہ خبر سننے کو ترس گئے ہیں کہ واقعہ کے اصل محرکات کیا تھے۔؟ کس نے مجرموں کو پناہ دی اور کس نے لاجسٹک سپورٹ فراہم کی، آج تک کسی کو پتہ نہیں چل سکا، یہاں مجرموں کی گرفتاری تو دور کی بات ہے ایف آئی آر تک درج نہیں کی جاتی، پاسبان جعفریہ کے سربراہ عسکری رضا کی شہادت اور ملزموں کیخلاف جس انداز میں ایف آئی آر درج ہوئی وہ پوری قوم جانتی ہے، بلوچستان ہائی کورٹ نے سانحہ مستونگ کا ازخود نوٹس لیا، لیکن تحقیقاتی رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی، اس کی وجہ کیا ہے؟ کسی کو معلوم نہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ عوام کا عدالتوں سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے اور دہشتگرد پراعتماد ہوتے جا رہے ہیں، کیونکہ ان کے دھمکانے سے جج اپنے فیصلے فوراً تبدیل کر لیتے ہیں، مستبقل میں حالات مزید خراب ہونگے، سانحہ خانپور انہی واقعات کا تسلسل ہے۔
گڈگورننس کا راگ الاپنے والے جب دہشتگردوں کے سرغنہ ملک اسحاق کی رہائی کا سامان مہیا کریں گے اور چند ووٹوں کی خاطر پنجاب حکومت کے وزیر قانون دہشتگردوں کے جلوس میں ہار پہنے فاتح کے انداز میں شریک ہونگے تو پھر حالات کے ٹھیک ہونے کی توقع کرنا قیاس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ پندرہ جنوری کو چہلم امام حسین ع کے موقعہ پر رحیم یار خان کی تحصیل خانپور کے دلخراش واقعہ نے پوری قوم کو غمزدہ کر دیا۔ اس واقعہ میں 23 عزادار شہید اور 35 زخمی ہوئے، زخمیوں میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ زخمیوں کو ٹھیک ہونے میں مزید چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب امام بارگاہ دربار حسین ع سے چہلم امام حسین علیہ السلام کا جلوس برآمد ہوا اور ابھی چند فرلانگ کے فاصلہ پر پہنچا ہی تھا کہ کھمبے کیساتھ بوسیدہ قرآنی اوراق اور مقدس کاغذات کے ڈبے میں نصب کیا گیا بم پھٹ گیا۔ اس واقعہ میں سب سے زیادہ شہادتیں بستی حاجن سے تعلق رکھنی والی بلوچ فیملی کی ہوئیں، جن کے گیارہ افراد شہید ہوئے، جن میں دو بچے بھی شامل ہیں، بستی حاجن کا نام تبدیل کر کے اب بستی شہداء رکھ دیا گیا ہے۔ جب اس بستی کا نام ذہن میں آتا ہے تو بے ساختہ آنکھوں سے اشک رواں ہو جاتے ہیں۔
قارئین محترم ! راقم گزشتہ کئی روز سے اس سانحہ پر کچھ لکھنا چاہ رہا تھا لیکن اصل مسئلہ یہی تھا کہ لکھیں بھی تو کیا؟ اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے مناظر کو قرطاس پر اُتارنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ میں نے یہ مناظر اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھے ہیں کہ شہداء کے ورثاء شدت غم سے نڈھال تھے، اکثر لوگوں کی آنکھیں رو رو کر پتھرا گئی تھیں، کہیں سے آواز آ رہی تھی کہ ہم نے اپنا بیٹا حضرت علی اکبر ع کے صدقے میں دیا ہے، کہیں سے صدائیں آ رہی تھیں کہ اے میرے بچے جا تجھے ہم نے علی قاسم ع کے صدقے میں دے دیا، کوئی ماں کہہ رہی تھی اے فاطمہ الزہرہ سلام اللہ علیہا مجھ سے راضی ہو جانا میں نے اپنے دو جوان بیٹے تیرے حسین ع کے صدقے میں قربان کر دئیے ہیں۔
اسی بستی کے ایک گھر سے جب چار جنازے اُٹھے تو کہرام مچ گیا اور وہ مناظر قیامت صغرا سے کم نہیں تھے، برابر والے گھر سے تین اور اس کے ساتھ والے گھر سے دو جنازے اٹھے۔ خدا گواہ ہے کہ دو شہید ہو جانے والے بھائیوں کا بچ جانے والا بھائی لوگوں کے گلے لگ کر دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور اس کے لبوں سے ایک ہی صدا تھی کہ میرے دو بھائی تو جنت میں پہنچ گئے مگر میں بدنصیب شہادت سے محروم رہا، شہداء کے خانوادوں کے عزم و ہمت کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے، ورثاء نے ثابت کر دیا کہ عزاداری کے دشمن جتنا مرضی خون بہا لیں لیکن عزاداری سیدالشہداء ع پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔
اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی لیاقت پور، ظاہر پیر، رکن پور، اوچ شریف، احمد پور شرقیہ، بہاولپور، ملتان، مظفر گڑھ، علی پور، سیت پور، صادق آباد سمیت لاہور، اسلام آباد سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جنازے میں شرکت کیلئے پہنچ گئے۔ اکثر لوگ ذہنی طور پر آمادہ ہو کر آئے تھے کہ وہ مطالبات کی منظوری تک وہاں دھرنا دیں گے اور جس طرح پاسبان جعفریہ کے سربراہ عسکری رضا شہید کے نامزد ملزم اورنگ زیب فاروقی کے خلاف پچاس ہزار سے زائد لوگوں نے گورنر ہاؤس کراچی کے سامنے احتجاجی دھرنا دیکر اپنے مطالبات منظور کرا لئے تھے وہ بھی عزت کا راستہ اپناتے ہوئے خانپور تھانہ صدر کے باہر نئی تاریخ رقم کریں گے اور دنیا کو بتا دیں گے کہ تشیع کا خون اتنا ارزاں نہیں، مگر اُن کی یہ سب تدبیریں کارآمد ثابت نہ ہوئیں۔
اسٹیج سے نہ تو حکومت سے مطالبات پیش کیے گئے اور نہ ہی دھرنا جاری رکھنے اور پنجاب حکومت کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا گیا۔ مستقبل کے لائحہ عمل اور نئی حکمت عملی کا اعلان سننے کے لئے کھڑے بیتاب افراد کو کہا گیا کہ وہ جنازے اٹھائیں اور دفنانے کیلئے آگے بڑھیں۔ ایف آئی آر سے متعلق ایک چھے رکنی کمیٹی کا اعلان کیا گیا مگر اس کمیٹی کے ارکان کے نام صیغہ راز میں رکھے گئے اور پھر شائد یہی وجہ بنی کہ پندرہ جنوری کو ہونے والے واقعہ کی ایف آئی آر بھی پانچ روز بعد درج ہوئی۔
پنجاب پولیس کی لاپرواہی اور غفلت کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ خانپور میں جیسے ہی بم بلاسٹ ہوا تو ایس ایچ او اظہر خان نے آر پی او بہاولپور کو بتایا کہ دھماکہ ٹرانسفارمر پھٹ جانے کا نتیجہ ہے، جس کے باعث آر پی او بہاولپور نے فوراً میڈیا پر بیان داغ دیا کہ یہ واقعہ ٹرانسفارمر کے پھٹنے سے ہوا ہے۔ ایس ایچ او نے غلط بیانی کی، مگر یہ بات حیران کن ہے کہ دوسرا برآمد ہونے والا بم جسے ناکارہ بنایا گیا وہ ٹرانسفارمر والی جگہ سے ہی برآمد ہوا، اسے اتفاق کہیں یا پھر یہ کہیں کہ اس واقعہ میں ایس ایچ او ملوث ہے۔ خانپور کے اکثر مومینین اسے محض اتفاق قرار دیتے پر تیار نہیں۔
ایم ڈبلیو ایم ضلع رحیم یار خان کے سیکرٹری جنرل اصغر تقی سے اس حوالے سے بات ہوئی تو انہوں نے اس سانحہ کی ذمہ داری کالعدم دہشتگرد تنظیم لشکر جھنگوی کے رہنماء ملک اسحاق پر عائد کی، اسی طرح شیعہ علماء کونسل کے ضلعی رہنما مولانا ضمیر حسین بھی اس واقعہ میں ملک اسحاق کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت کو بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ واضح رہے کہ ملک اسحاق ضلع رحیم یار کے علاقے ٹرنڈا سوئے خان سے تعلق رکھتا ہے جو تحصیل خانپور سے فقط بیس سے پچیس کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ ملک اسحاق کی رہائی کے بعد خانپور میں ایک ریلی بھی نکالی گئی تھی، جس میں ہزاروں کی تعداد میں افراد اکھٹے ہوئے، اس ریلی میں ملک اسحاق کا استقبال کیا گیا اور شہر میں باقاعدہ تقریر کا اہتمام کیا گیا، جس میں آن ریکارڈ شیعہ کافر کے نعرے لگائے گئے اور ملک اسحاق کی تمام تقریر ملت تشیع کے خلاف تھی۔
ملک اسحاق نے ایک بار نہیں، بلکہ کئی مرتبہ اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ پہلے والا کام کرے گا، دنیا جانتی ہے کہ وہ پہلے کیا کام کرتا تھا، اس ساری صورتحال کے پیش نظر ضلع رحیم یار خان کی مختلف شخصیات نے ڈی پی او رحیم یار خان کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا کہ ملک اسحاق اس علاقے کیلئے خطرہ ہے، لہٰذا اس دہشتگرد کو پابند سلاسل کیا جائے۔ ملک اسحاق نے رہائی کے فوراً بعد ہی مختلف علاقوں میں دورے شروع کر دئیے تھے، جس میں علی پور گھلواں کا دورہ بھی شامل ہے، جس کے بعد اس دہشتگرد کو نظر بند کر دیا گیا اور لاہور ہائیکورٹ نے دوبارہ نظر بندی کے ختم کرنے کے احکامات جاری کئے، اس وقت ملک اسحاق آزادانہ نقل و حرکت کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ ضلع رحیم یار خان میں تریسٹھ برسوں میں اس طرح کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ مبصرین خانپور واقعہ کی بڑی وجہ پنجاب حکومت کے کالعدم تنظیموں سے رابطوں اور سرپرستی کو قرار دیتے ہیں۔ سٹی تھانہ خانپور میں ملک اسحاق سمیت سولہ افراد پر مقدمہ درج ہو چکا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ گڈگورننس کا راگ الاپنے والی پنجاب حکومت، ملک اسحاق کو کیسے گرفتار کرتی ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر ملک اسحاق کو گرفتار نہ کیا گیا اور اس پر مقدمہ نہ چلایا گیا تو یہ تاثر ملت تشیع میں زور پکڑے گا کہ اُن کا ناحق خون بہانے میں پنجاب حکومت برابر کی شریک ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلٰی، جو اپنے آپ کو خادم اعلٰی پنجاب کہتے ہیں، وہ ایف آئی آر میں نامزد ملزمان کی گرفتاری کیلئے کیا اقدامات کرتے ہیں۔
تحریر: نادر بلوچ

متعلقہ مضامین

یہ بھی ملاحظہ کریں
Close
Back to top button