مقالہ جات

سعودی سفیر پر حملے کا ڈرامہ؛ امریکی منظر نامہ فلاپ ہوگیا

shiitenews bedari امریکہ کے عالمی تسلط کو خطرات لاحق ہونے اور امریکہ میں بیداری کی تحریک اٹھنے کے بعد اس ملک کی انتظامیہ بقولے "کھمبا نوچنے” لگا ہے جو درحقیقت بیداری کی اسلامی اور عالمی تحریک کے سامنے اس کی بے بسی کی دلیل ہے۔
نئے ڈرامے میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت نے ایک ایرانی نژاد امریکی باشندے کو گرفتار کرکے اس سے اعتراف لیا ہے کہ وہ اور ایران میں مقیم ایک شخص سعودی سفیر کو قتل کرنا چاہتا تھا

اور سعودی ر صہیونی سفارتخانوں کو بم سے اڑانا چاہتا تھا۔
یہ الگ سوال ہے کہ امریکیوں نے سعودی اور اسرائیلی سفارتخانوں کو اس ڈرامے میں کردار کیوں دیا ہے اور ان دو کا تعلق کیا ہے؟
شاید اس سے ان کا مقصد یہ ہو کہ چونکہ کوئی بھی ایران کی طرف سے سعودی سفارتخانے پر کسی حملے کا یقین نہیں کرے گا چنانچہ انھوں نے اسلام کے دشمن نمبر ایک اسرائیل کے سفارتخانے کو سعودی سفارتخانے کے ساتھ نتھی کرکے کوشش کی ہے کہ اس ڈرامے پر یقین کی سطح کو بلند کریں گو کہ یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی۔
خود امریکیوں نے بھی اس کا یقین نہیں کیا اور یہ بات بھی ثابت ہوگئي کہ اب امریکہ اس طرح کی کوئی بین الاقوامی لہر کھڑی کرنے کے قابل بھی نہيں رہا اور اب وہ نہایت اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔
دیکھتے ہیں امریکی اور غیر امریکی اس ڈرامے کے بارے میں امریکی اور دوسرے کیا کہتے ہیں:
مشرق وسطی میں طاقت کا توازن (power equation) بگاڑنے کی امریکی کوشش
امریکن اینٹی وار کائولیشن (Act Now to Stop War and End Racism A.N.S.W.E.R) کے ویسٹرن ریجن کوآرڈی نیٹر رچرڈ بیکر (( Richard Becker نے ایران کے خلاف نئے امریکی ڈرامے کے بارے میں کہا ہے کہ امریکہ مشرق وسطی میں طاقت کا توازن بگاڑنے کے علاوہ سعودی حکام کو ایران سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
انھوں نے جمعہ کے روز العالم کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ایران کی طرف سے سعودی سفیر پر قاتلانہ حملے کو ناقابل یقین قرار دیا۔
ان سے پوچھا گیا کہ "ایران کو سعودی سفیر کے قتل سے کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا؟” تو انھوں نے کہا: اس ڈرامہ بازی سے سب سے زیادہ فائدہ امریکہ کے لاڈلے بچے "اسرائیل” کو پہنچتا ہے کیونکہ اسرائیلی ریاست ایران کو اپنے وجود کے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ مشرق وسطی کے ممالک بالخصوص ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں تناؤ کی صورت حال امریکی مفاد میں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایران کے خلاف وہائٹ ہاؤس کے دعوے کو مشکوک قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کے سفیر پر ایرانیوں کے حملے کے ڈرامے سے سب سے پہلا اور سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو پہنچے گا۔
ایران کے خلاف امریکی الزامات سراسر جھوٹے ہیں
امریکی تجزیہ نگار جوسٹین رائمونڈو (Justin Raimondo) نے کہا کہ "ایران سے منسوب سازش سرے سے جھوٹی ہے”۔
انھوں نے کہا کہ یہ افسانہ سرائی ایک ناقابل قبول دعوی ہے۔
انھوں نے کہا: اگر ہم اس الزام میں جھوٹ کی مقدار دیکھنا چاہیں تو ہمیں نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کو ایک نظر دیکھنا پڑے گا۔
انھوں نے کہا: نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق نیویارک کے اٹارنی جنرل ایرک اشنائدرمین (Eric Schneiderman) نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "کہیں بھی کوئی دھماکہ نہیں ہوا اور کسی کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا ہے”۔
انھوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا یہی بیان ثابت کرتا ہے یہ یہ الزام اول سے آخر تک جھوٹا ہے۔
مصری روزنامہ نویس: امریکی الزامات جعلی اور مصنوعی ہیں
قاہرہ میں روزنامہ "الانوار” کے چیف ایڈیٹر نے کہا: امریکہ اور سعودی حکومت کو شدید اندرونی مشکلات کا سامنا ہے چنانچہ انھوں نے مل کر ایک جعلی ڈرامہ رچایا ہے اور دعوی کیا کہ ایران امریکہ میں سعودی سفیر پر قاتلانہ حملہ کروانا چاہتا تھا۔
عادل الجوجري نے ہفتے کے روز العالم کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب خاص طور پر الشرقیہ کے علاقے ميں عرب انقلابات کی بہار کے نشانے واضح ہوگئے ہیں اور امریکہ میں سرمایہ داری نظام اور عالمگیریت کے خلاف عوامی احتجاجات زوروں سے جاری ہیں چنانچہ انھوں نے ان تحریکوں کو منحرف کرنے کے لئے اس جھوٹے ڈرامے کا سہارا لیا ہے۔
انھوں نے کہا: ایران لبنان اور فلسطین میں مزاحمت اور عرب انقلابات کا حامی ہے جبکہ سعودی حکمران لبنان اور فلسطین کی مزاحمت اور عرب انقلابات کے سخت خلاف ہیں چنانچہ امریکہ، اسرائیل اور آل سعود اس ڈرامے میں ایک دوسرے کے حلیف ہیں اور ان کی ہم پیمانی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
انھوں نے کہا: ایران کی خارجہ پالیسی میں انقلاب اسلامی سے لے کر اب تک، دہشت گردی کا عنصر شامل نہیں رہا ہے جبکہ دہشت گردی ہمیشہ سے امریکی خارجہ پالیسی کا حصہ تھی اور امریکہ تسلسل کے ساتھ دنیا کے سیاسی راہنماؤں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر قتل کرتا رہا ہے۔
انھوں نے کہا: علاقے میں ایک نیا محاذ بن رہا ہے جو ایران اور علاقے کے عرب انقلابات سے معرض وجود میں آرہا ہے اور یہ نیا نظام قدامت پسند عرب حکومتوں کے خلاف ہے اور افسوس کا مقام ہے کہ سعودی عرب امریکہ جال میں پھنسا ہوا ہے جبکہ اس حکومت کو لمحہ بھر سوچنا چاہئے تھا اور اس کو موقف اپنانے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہئے۔
انھوں نے عرب لیگ کی جانب سے بھی سعودی عرب کی حمایت میں جلدبازی تر تنقید کی اور کہا: عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل "نبیل العربی” نے کئی بار اس سے قبل ایران – مصر اور ایران – عرب تعلقات کے فروغ  پر زور دیا تھا لیکن ان کا نیا موقف سعودی عرب کی اس حکومت کی جانبداری سمجھی جاتی ہے جس نے مصر سمیت دیگر عرب ممالک کے انقلابات کے خلاف تخریبکارانہ کردار ادا کیا ہے اور آج بھی یہی کردار ادا کررہا ہے۔
انھوں نے کہا: یہ الزام اس لئے بھی غلط ہے کہ اس سے ایران کو کوئی فائدہ نہيں پہنچتا۔
امریکی ماہرین متردد ہیں
مغرب کے کئی تجزیہ نگاروں نے امریکی دعوے کے بارے میں شک و تردد کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے: ایک طرف سے اعلی امریکی حکام کی طرف نے یہ الزامات مسلسل دہرادیئے مگر ان میں سے کوئی بیھ کسی قسم کا ثبوت نہ پیش کرسکا اور دوسری طرف سے جن لوگوں کو اس ڈرامے میں ملزم قرار دیا ہے ان کو تخریبکاری کے حوالے سے کسی قسم کی مہارت حاصل نہیں ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران ایسا اقدام نہيں کرسکتا۔
ایران کی طرف سے ایسا اقدام بعید از قیاس ہے
بروکنز تھنک ٹینک میں مشرق وسطی کے امور کی ماہرہ سوزان مالونی کا کہنا تھا کہ "یہ بہت بعید از قیاس امر ہے کہ ایران نے ٹیکساس میں پرانی گاڑیاں خرید و فروخت کرنے والے کسی شخص اور منشیات کے بڑے بڑے سوداگر گروپوں کے عناصر سے سعودی سفیر کے خلاف اقدام قتل کرنے جیسا اقدام اقدام کرانے کی کوشش کی ہو”۔
انھوں نے کہا کہ اس قسم کا اقدام ایران کے خفیہ اداروں کے کام کی نوعیت سے جوڑ نہیں کھاتا۔
امریکی حکام: ثبوت کافی نہیں ہیں
امریکہ کے اعلی اہلکاروں نے کہا کہ "قتل کا یہ نقشہ بہت ماہرانہ نہیں ہے اور اس سلسلے میں ان کے لئے ثبوتوں کی ضرورت ہے”۔
کانگریس کی ریسرچ تھنک ٹینک میں مشرق وسطی کے امور کے ماہر کینتھ کیٹزمین (Kenneth Katzman) نے کہا کہ یہ نقشہ ایران کی سیکورٹی ایجنسیوں کے طرز عمل سے مطابقت نہیں رکھتا۔
انھوں نے کہا: اس سلسلے میں فراہم کردہ معلومات ناقص اور غیرمنطقی ہیں کیونکہ ایسے شخص سے ایسے سے اس سلسلے میں ایسے شخص کا استعمال جو امریکہ میں گاڑیوں کا کاروبار کرتا ہے اور کئی برسوں سے امریکہ میں مقیم ہے، معقول نہیں ہے۔
اس کے علاوہ مغربی ذرائع ابلاغ نے بھی اس سلسلے میں شک و تردید کا اعلان کیا ہے۔
امریکہ ایران کے خلاف اپنے نئے اقدام میں بھی ناکام ہوگیا
سیاسی مبصرین نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف امریکہ کی ڈرامہ سازی اور ڈرامہ بازی بیہودہ عمل کے نتیجے میں امریکی حکومت کے نزدیک رسوا ہورہی ہے۔
ان مبصرین نے سعودی سفیر کے خلاف کسی سازش میں ایران کے ملوث ہونے کے امریکی دعوے کی تردید کی ہے۔
الزام سرد جنگ کا حصہ ہے
رائٹرز کے رپورٹر ڈامینک ایوانز (Dominic Evans ) نے لکھا ہے: امریکہ نے ایران پر سعودی عرب کے سفیر کے قتل کے لئے منصوبہ بندی کا الزام لگایا ہے جو درحقیقت خلیج فارس کے علاقے میں اثر و رسوخ بڑھانے کے سلسلے میں ایران اور سعودی عرب کی سرد جنگ کا حصہ ہے۔
دستاویزات مشکوک ہیں
دریں اثناء مشرق وسطی کے امور کے دوسرے تجزیہ نگار اس سلسلے میں امریکی حکام کی طرف سے فراہم کردہ دستاویزات کو مشکوک قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امریکی حکام نے "اس خاص وقت میں” یہ دعوی کرکے اس نمائش کو مزید مشکوک بنادیا ہے۔
امریکی الزام ناقابل قبول ہے
مصر کے الاھرام سیاسی تحقیقات کے مرکز کے ماہر محمد قدری السعید نے کہا ہے کہ ایرانیوں کی جانب سے سعودی سفیر کے خلاف کسی قسم کے اقدام کا الزام قابل قبول نہیں ہے اور یہ امریکی دعوی سیاسی لحاظ سے غلط ہے اور اس کی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔
اس خاص وقت میں یہ دعوی مشکوک ہے
لبنان کے روزنامے المستقبل کے فارن ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر "ميشل نوفل” نے کہا کہ یہ جو امریکہ نے اس خاص وقت میں اس الزام کا اعلان کیا ہے اس سے کئی شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں؛ امریکیوں نے دعوی کیا ہے کہ اس واقعے سے کئی مہینے قبل با خبر تھے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اب اس کا اعلان کیوں کررہے ہیں؟ اوباما نے کہا ہے کہ وہ گذشتہ جون سے اس قضیئے سے باخبر ہیں۔
امریکی ثبوت کمزور ہیں
لبنان کے سیاسی تجزیہ نگار "نبيل بومنصف” نے کہا ہے کہ امریکیوں کی جانب سے ایران پر الزام کے اثبات کے لئے فراہم کردہ ثبوت کمزور اور ناقابل اعتماد ہیں۔
اس خاص موقع پر ان الزامات کا سبب کیا ہے؟
بیروت کی امریکن یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاد "وليد مبارک” نے کہا: دیکھنا یہ ہے کہ اس خاص موقع پر امریکیوں کی جانب سے اس قسم کے موضوعات آگے لانے کے اسباب کیا ہیں اور اس کا پس منظر اور پیش منظر کیا ہے؟ کیا امریکہ ایران کے خلاف کسی اقدام کے لئے بہانہ تراشی کررہا ہے؟
ہم نے کہا:
اس امریکی منظرنامے سے ثابت ہوگیا ہے کہ یہ بڑی طاقت جس کی بات کبھی پتھر پر لکیر سمجھی جاتی ہے اب وہ حیثیت کھوچکی ہے اور اس کے سیاسی ڈرامہ نگاروں کے پاس بھی منطق کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے اور اسلامی انقلاب کے بعد خطے میں اسلامی بیداری کی تحریکوں نیز امریکہ اور یورپ میں عوام کی بیداری اور لبرل سرمایہ داری کے خلاف عظیم تحریکوں نے تیل اور دولت کے مالک سیاستدانوں سے سوچنے کی قوت چھین لی ہے چـنانچہ کہنا یہی چاہئے کہ ابھی تو ابتدائے راہ ہے
بقول شاعر
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button