مقالہ جات

سعودی عرب اوراسلامی بیداری کی مخالفت

abd obama 1سامعین کسی شاعر نے کیا خوب کیا ہے کہ جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ یہ ایک حقیقت ہےکہ بعض اوقات جن افراد یا قوموں اور ملکوں پر بھروسہ کرنے کو دل چاہتا ہے وہی دھوکہ دے جاتےہیں اور دین و امت کے ساتھ خیانت کرجاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ حال حرمین شریفین پر قابض ملک سعودی عرب کا ہے۔ سعودی عرب اگر امریکی اسلام کو چھوڑ کر حقیقی اسلام کا دامن تھام لیتا تو آج عالم اسلام کی صورتحال ہی کچھ اور ہوتی۔

حرمین شریفین اور ضیوف الرحمان کی خدمت گزاری کے دعویدار اس ملک پر ایک خاندان کی حکومت ہے جو نہ صرف اس ملک کی دولت و ثروت اور ذخائر کو اپنی خاص ملکیت سمجھتا ہے بلکہ اس میں حسب منشا تصرف بھی کرتا ہے ۔ اگر سعودی عرب کی قوم کی دولت مغربی بینکوں سے نکال لی جائے تو بڑے بڑے نام نہاد اقتصادی سوپر پاور دیوالیہ ہوجائيں گے اور ان کے بھیک مانگنے کی نوبت آجاے گي لیکن افسوس کہ ملت حجاز کی یہ دولت جو رفاہ عامہ اور امت مسلمہ کے مفادات میں خرج ہونی چاہیے امریکہ اور یورپ میں بڑے بڑے جوے خانوں اور شراب و شباب پرخرچ ہورہی ہے اور کوئي یہ پوچھنےوالا بھی نہیں ہے کہ عالم اسلام کی قیادت کے اس دعویدار ملک کے شہزادے مغربی ملکوں کے شراب خانوں اور عیاشیوں کے اڈوں میں کیا کررہے ہیں؟ سامعین جب سے سرزمین مکہ و مدینہ پر آل سعود کا قبضہ ہوا ہے عالم اسلام کی حالت ہی بدل گئي ہے۔ اسکے بعد سے عالم اسلام کی سیاسی حالت اچھی نہیں روز بروز بری ہوتی چلی گئي، امت اسلامی میں روز بروز اختلاف بڑھتا گيا اور مسلمان ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کو حکم خداوندی سمجھنے لگے ،یہ سعودی عرب پرحاکم انتھا پسندانہ فکر یعنی وہابیت کی ترویج کی بناپر ہوا۔ آج بھی آپ کو اس کے نمونے مل جائيں گے، طالبان اور القاعدہ جیسی تنظیموں کی فکری رہنما سعودی عرب میں پلنے پھولنےوالی یہی انتھا پسندانہ فکر ہے جس نے اسلام کو اس قدر بدنام کیا ہے جتنا یہودی بھی بدنام نہ کرسکے۔ سعودی اسلام بلکہ امریکی اسلام کے پیروں نے افغانستان اور پاکستان کے ایک بڑے حصے میں اسلام کے نام پر وہ طوفان بدتمیزی پھیلایا ہے جسے دنیا کا کوئي بھی دین دار تو کجا مہذب انسان بھی قبول نہیں کرسکتا۔ ملا‏عام میں عورتوں کو کوڑے مارنا، انہیں گولیاں مار کرہلاک کردینا، انہیں تعلیم سے محروم کردینا اور ضرورت کے لئے بھی گھر سے نکلنے کی اجازت نہ دینا یہ سب سعودی عرب یا بالفاظ ديگر امریکی اسلام کی دین ہے۔ دینی سطح پر سعودی عرب کا تفرقہ انگيز کردار کسی سے چھپانہیں ہے، حال ہی میں چند دنوں قبل مسجد النبی کے وہابی امام جماعت نے شیعہ مسلمانوں کو اسلام سے خارج قراردیا تھا۔ امام مسجد النبی کے اس گستاخانہ اور نہایت شرمناک بیان کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں یا یہ کہ انہیں اسلام سے ذرا سی واقفیت نہیں ہے یا انہیں دربار کے اشاروں پرچلناپڑتاہے دونوں صورتوں میں ان کی جہالت ثابت ہوجاتی ہے۔ کیا مسجد النبی کے اس امام کو معلوم نہیں ہے شیعہ مسلمان امت اسلامی کا ایک بڑا حصہ تشکیل دیتے ہیں اور خلوص دل سے شہادتین جاری کرتےہیں۔ سعودی عرب نے اپنے مغربی آقاؤں کے حکم پر پاکستان میں وہابیت کی ترویج میں کوئي دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے۔ پاکستان میں مشروم کی طرح اگتے ہوئے مدرسوں کی کہانی کس سے پوشیدہ ہے کیا ان مدرسوں میں سعودی عرب کے پیسے سے طالبان اور القاعدہ کے لئے افرادی قوت تیار نہیں کی گئي جو آج بھی علاقے میں ستم ڈھا رہے ہیں اور وقتا فوقتا نہتے اور بے گناہ لوگوں کو خود کش حملوں کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
سیاسی سطح پر سعودی عرب کا گھناونا اور منافقانہ کردار سب کے سامنے ہے۔ کیا سعودی حکام اس سوال کا جواب دیے سکتے ہیں کہ کس بناپر اسلامی بیداری کی مخالفت کررہے ہیں۔ سعودی عرب کے پاس اس کا کوئي جواب نہيں ہے کیونکہ وہ اپنے مغربی آقاوں کی خوشنودی اور اپنے تخت و تاج کی بقا کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچتے۔ آل سعودکی نظرمیں اسلام تو بنی امیہ کی طرح صرف حکومت کا ایک بہانہ ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے سعودی عرب نے جس قدر اسلامی انقلاب کی مخالفت کی ہے اس سے سب واقف ہیں، اسلام کے دعویدار ہونے کا مطلب تو یہی ہے کہ آپ ساری دنیا میں امت اسلامی کی مدد کریں پھر اسلامی انقلاب کی مخالفت کے کیا معنی ہیں؟ یا تو آپ اسلامی نہیں ہیں یا پھر آپ کو اسلامی انقلاب سے خطرہ لاحق ہے اور اگر آپ کو اسلامی انقلاب سے خطرہ لاحق ہے تو آپ امریکہ کے کیمپ میں ہیں اگر آپ امریکہ کے کیمپ میں ہیں تو آپ کا اسلام سے کوئي واسطہ نہیں خواہ آپ ہزاروں ریڈیو اور ٹیلی ویژن چینلوں سے مسلمان ہونے کی تشہیر کرتے رہیں اور لاکھوں کروڑوں قرآن کے نسخے چھپوا کر ساری دینا میں بٹواتے رہیں اور اپنے قومی پرچم پر شہادت توحید کندہ کروالیں۔
علاقے کے معروضی حالات میں سعودی عرب کے کردار پرایک طائرانہ نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہےکہ ریاض کے حکام کونہ اسلام سے دلچسپی ہے نہ ہی مسلمانوں سے۔ فلسطین کی صورتحال سب سے چیخ چیخ کر کھ رہی ہے کہ اس کے ساتھ عربوں نے سعودی عرب کی سربراہی میں خیانت کی ہے۔ بحرین ، مصر، یمن، پاکستان، افغانستان اور عراق نیز دیگر ملکوں میں سعودی عرب کی مداخلت سے ہی عوام اپنے حقوق حاصل کرنے میں ناکام ہیں اور سعودی عرب کو اپنے راستے میں سب سےبڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ایران کےتعلق سے سعودی عرب کا رویہ کبھی بھی مثبت نہیں رہا۔ ریاض نے ہمیشہ ایران کو اپنی راہ میں کانٹا سمجھا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ علاقائي ملکوں کےساتھ مل کر علاقے میں امن وامان قائم کرنے کی کوشش کی امت اسلامی کے اتحاد پر تاکید کرتا رہتا ہے للیکن یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے سب سے پہلے بیرونی ملکوں کو اپنی سرزمیں پر فوجی اڈے قائم کرنے کی دعوت دی۔ ا سلام کے دعویدار سرزمین وحی پر کفر و شرک کے فوجی اڈے بنواتےہیں یہ ان کا اسلامی تشخص ہے یا اسلام صرف ایک بہانہ ہے جس کے سہارے وہ دنیا کو فریب دے رہے ہیں۔ سعودی حکام لاکھ چاہ لیں وہ اپنا منافقانہ چہرا چھپا نہیں سکتے بلکہ اب ان کا یہ مکروہ چہرہ سب کے سامنے آ گيا ہے اور دنیا سمجھ چکی ہےکہ سعودی حکام گرچہ قبلہ اسلام پر قابض ہیں لیکن ان کاقبلہ واشنگٹن ہے اور وہ اپنے مغربی آقاوں کی مرضی کےبغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھاتے۔ اسلامی بیداری سے آل سعود کی وحشت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہےکہ آل سعود نے قطیف میں عوامی مظاہروں سے مقابلہ کرنے کےلئے ٹینک اور جنگي توپیں بھیجی ہیں۔ کیا نہتے پرامن مظاہرین کی سرکوبی کےلئے یہ چیزیں ضروری ہیں؟ ایسی بات نہيں ہے بلکہ یہ اس حکومت کے خوف وہراس کو ظاہر کرتی ہے جس کی نظر میں عوام کی کوئي وقعت نہيں ہے بلکہ وہ دوسرے ملکوں کے عوام کو کچلنے کے لئے بھی اپنی فوجیں بھیجتی ہے۔ بحرین اور یمن اس بات کے شاہد ہیں۔ سعودی عرب اور امریکہ اور صیہونی حکومت کی پالیسیوں میں ایک طرح سے مماثلت پائی جاتی ہے وہ یہ کہ امریکہ اور صیہونی حکومت بھی ڈکٹیٹروں اور ظالموں کےحامی ہیں اور سعودی عرب نے بھی ہمیشہ اپنے ہاں قوموں کےغضب کا شکار ہونے والے آمروں کوپناہ دی ہے۔
اسلامی بیداری کی لہریں اب سعودی عرب کی سرحدوں بلکہ خود سعودی عرب میں پہنچ گئي ہيں ، مشرق علاقوں میں آل سعود کی ظالمانہ حکومت کےخلاف مظاہرے شروع ہوچکے ہیں اور بہت جلد یہ سلسلہ دوسرے شہروں میں بھی شروع ہوجائے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button