مقالہ جات

تین جمادی الثانی ، دختر رسول (ص) کے یوم شہادت کی مناسبت سے

baqiتین جمادی الثانی ، دختر رسول (ص) کے یوم شہادت کی مناسبت سے

 

” فاطمہ زہرا(س) محافظ دین و ولایت "

مدینہ ظلمت شب کی نذر ہوچکاہے ، مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت خواب غفلت میں پڑی آرام کی نیند سورہی ہے رات کا وحشت انگیز سناٹا داماد رسول (ص) کے لبوں کی جنبش پر کان لگائے ہوئے ہے وہ کہ جن کو ان کے گھر میں اکیلا کردیاگیاہے جو شہر میں بھی تنہا ہیں اور گھر میں بھی ، رسول اسلام (ص) کی جدائی اور ان کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کا درد فراق سینے پر لئے کسی پہاڑ کی مانند فاطمہ(س) کی تربت پر بیٹھے ہوئے ، غمگین و افسردہ تاریکی شب سے زمزمہ کررہے ہیں ۔ لگتاہے الفاظ علی (ع) کا ساتھ چھوڑتے جارہے ہیں

 

 ، لبوں کی جنبش ایک طویل سکوت میں تبدیل ہوجاتی ہے قبر فاطمہ (س) سے اٹھتے ہیں اور نسیم نیمۂ شب کے جھونکوں کے سہارے چند قدم بڑھاتے ہیں اور پھر قبر رسول(ص) پر بیٹھ جاتے ہیں : خدا کے رسول ! میری طرف سے اور اپنی بیٹی کی طرف سے، جو آپ کے شوق دیدار میں مجھ سے جدا ہوکر زیرخاک آپ کے بقعۂ نور میں پہنچ چکی ہے ، سلام قبول کیجئے ۔ خدا نے کتنا جلدی اس کو آپ کے پاس پہنچادیا ، اے خدا کے رسول ! آپ کی چہیتی کے فراق نے میرا صبر مجھ سے چھین لیا اور میرے بس میں آپ کی پیروی کے سوا جو میں نے آپ کی جدائی میں تحمل کی ہے ، کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ میں نے جس وقت آپ کو آپ کی لحد میں آرام کے لئے لٹایاتھا آپ کی مقدس روح میرے گلے اور سینے کے درمیان سے نکلی ہے ( جی ہاں ! قبض روح کے وقت آپ کا سر مبارک میرے سینے سے لگا ہواتھا) خدا کی کتاب کے یہ کلمے کس قدر صبر آزماہیں : انّا للہ و انا الیہ راجعون ۔یقینا” امانت مجھ سے واپس لیلی گئی اور زہرا(س) میرے ہاتھوں سے چھین لی گئی ہیں ۔اے خدا کے رسول ! اب یہ نیلگوں آسمان اور خاکی زمین کس قدر پست نظر آنے لگی ہے میرا غم ، غم جاوداں بن گیاہے ، راتیں اب جاگ کر بسر ہوں گی اور میرا غم ، دل میں ہمیشہ باقی رہے گا یہاں تک کہ وہ گھرجہاں آپ مقیم ہیں خدا میرے لئے بھی قرار دیدے میرا رنج دل کو خون کردینے والا اور میرا اندوہ (دماغ کو) مشتعل کردینے والاہے ۔ کس قدر جلد ہمارے درمیان جدائی پڑگئی ، میں اپنا شکوہ صرف اپنے خدا کے حوالے کرتاہوں،  اس بیٹی سے پوچھئے گا وہ بتائیں گی کیونکہ کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ دل کے درد آگ کی مانند سینے میں شعلہ ور ہوتے ہیں اور دنیا کے سامنے اس کے کہنے اور شرح کرنے کی راہ نظر نہیں آتی لیکن اب وہ کہیں گی اور خدا انصاف کرے گا جو بہترین انصاف کرنے والاہے ۔

 

مختصر لیکن برکتوں سے سرشار عمر

 جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کا ایک ممتاز پہلو یہ ہے کہ آپ کا سن مبارک اکثر مورخین نے صرف اٹھارہ سال لکھاہے اٹھارہ سال کی مختصر لیکن برکتوں اور سعادتوں سے سرشار عمر ، اس قدر زیبا ، پر شکوہ اور فعال و پیغام آفریں ہے کہ اب تک آپ کی ذات مبارک پر بے شمار کتابیں اور مقالے محققین قلمبند کر چکے ہیں پھر بھی ارباب فکر و نظر کا خیال ہے کہ اب بھی سیدۃ النساء العالمین کی انقلاب آفریں شخصیت و عظمت کے بارے میں حق مطلب ادا نہیں ہوسکاہے آپ کے فضائل و کمالات کے ذکر و بیان سے نہ صرف ہمارے قلم و زبان عاجز و ناتواں ہیں بلکہ معصومین کو بھی بیان و اظہار میں مشکل کا سامنا رہاہے ۔ پھر بھی علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحارالانوار کی چھٹی جلد میں معصومۂ عالم کی ولادت سے متعلق احادیث و روایات میں نقل شدہ جن تمہیدوں اور تذکروں کو قلمبند کیاہے وہ خود ایک مبارک و مسعود وجود اور غیر معمولی انسان کے ظہور پر دلالت کرتے ہیں ۔ اس طرح کی روایات حتی اہلبیت پیغمبر(س) میں بھی کسی اور کے لئے نقل نہیں ہوئی ہیں ۔ خانۂ وحی و رسالت میں جس وقت جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تشریف لائی ہیں ، حضور اکرم (ص) اولاد نرینہ سے محروم تھے خود یہ مسئلہ غور طلب ہے کہ نبی اکرم (ص) کو خدا نے کوئی بیٹا طول عمر کے ساتھ کیوں عطا نہیں فرمایا جو بھی بیٹے دئے بچپنے میں ہی خاک قبر میں پہنچ گئے ۔ حتی ایک مرحلہ وہ بھی آیا جب بعثت کے بعد قریش کے اسلام دشمن کفار و مشرکین نے آپ کو ” ابتر” اور لاولد ہونے کا طعنہ دینا شروع کردیا اور کہنے لگے آپ تو  ” بے جانشین ”  اور ” بے چراغ ”  ہیں ۔ زمانۂ جاہلیت میں عربوں کے نزدیک بیٹی کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھنا تو دور کی بات ہے ان کے حقیر اور ننگ و عار ہونے کا تصور اس طرح معاشرے میں رائج تھا کہ وہ بیٹیوں کو زندہ در گور کردیا کرتے تھے ۔ ایک ایسے ماحول میں جناب فاطمہ زہرا (س) خانہ نبوت و رسالت کی زینت بنیں اور اپنے نور وجود سے انہوں نے نہ صرف رسول اسلام (ص) کا گھر بلکہ تاریخ بشریت کے بام و در روشن و منور کردئے اور خداوند تبارک و تعالی نے آپ کی شان میں سورۂ  کوثر نازل کردیا ۔  ” اے نبی ! ہم نے آپ کو کوثر عطا کیاہے ” سورۂ کوثر کے علاوہ جیسا کہ مفسرین و مورخین نے لکھاہے سورۂ نور کی پنتیسویں آیت بھی آپ کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں ایک دن ہم مسجدالنبی میں بیٹھے تھے ایک قاری نے آیت فی بیوت اذن اللہ ۔۔۔ کی تلاوت کی میں نے سوال کیا : اے خدا کے رسول یہ گھر کون سے گھر ہیں ؟ حضرت نے جواب میں  فرمایا : ” انبیا(ع) کے گھر ہیں پھر اپنے ہاتھ سے فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کی طرف اشارہ فرمایا ۔” مورخین نے جیسا کہ لکھاہے : جناب فاطمۂ زہرا سلام اللہ علیہا کی پوری زندگی ، سخت ترین مصیبتوں سے روبرو رہی ہے اور آپ نے ہمیشہ اپنی بے مثال معنوی قوتوں اور جذبوں سے کام لیکر نہ صرف یہ کہ مشکلات کا صبر و تحمل کے ساتھ مقابلہ کیا بلکہ ہر مرحلے میں اپنے مدبرانہ عمل و رفتار اور محکم و استوار عزم سے بڑے بڑے فتنوں اور سازشوں کا سد باب کیاہے ۔ گویا ان آزمائشوں سے گزرنے کے لئے قدرت نے ان کا انتخاب کیاتھا کیونکہ کوئی اور ان کو تحمل نہیں کرسکتاتھا اور یہ وہ حقیقت ہے جو صدر اسلام کی تاریخ پر نظر رکھنے والا ہر محقق جانتا اور تائید کرتاہے ۔ معصومۂ عالم کا کردار ولادت سے شہادت تک اس قدر نورانی ، پر شکوہ اور جاذب قلب و نظر ہے کہ خود رسول اسلام(ص) نے کہ جن کی سیرت قرآن نے ہر مسلمان کے لئے اسوہ قرار دی ہے، جناب فاطمہ (س) کی حیات کو دنیا بھر کی عورتوں کے لئے ہر دور اور ہر زمانے میں سچا اسوہ اور نمونۂ عمل قرار دیاہے ۔ ام المؤمنین عائشہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جتنی محبت اپنی بیٹی فاطمہ(س) سے کرتے تھے اتنی محبت کسی سے نہیں کرتے تھے سفر سے جب بھی پلٹٹے بڑی بیتابی اور اشتیاق کے ساتھ سب سے پہلے فاطمہ(س) کی احوال پرسی کرتے تھے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے جناب فاطمہ(س) کی تعریف کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا : خدانے فاطمہ کا نور زمین و آسمان کی خلقت سے بھی پہلے خلق کیا ، کسی نے سوال کیا : پس فاطمہ انسان کی جنس سے نہیں ہیں ؟! تو رسول اکرم (ص) نے جواب دیا : ” فاطمہ انسانی لبادہ میں ایک حور ہیں ”  

پچہتر یا پچانوے دن

 معصومۂ عالم کی زندگی کے آخری ایام میں ، ام المؤمنین جناب ام سلمہ ان کی ملاقات کو آتی ہیں ، احوال پرسی کرتی ہیں اور ام المصائب حضرت زہرا (س) جواب میں فرماتی ہیں : میرا حال یہ ہے کہ بابا پیغمبر اسلام (ص) کے فراق نے غم و اندوہ اور ان کے وصی پر کئے جانے والے مظالم نے الم و افسوس میں گھیر رکھاہے ، خدا کی قسم لوگوں نے ان کی حرمت کو پارہ پارہ کردیاہے اور ان کے مقام امامت و رہبری کو کتاب خدا کی تنزیل اور نبی خدا کے ذریعے کی گئی  تاویل کے خلاف ان سے چھین لیاہے ۔ خدا کی قسم اگر خلافت کی زمام جس طرح کہ خدا کے رسول (ص) نے ان کے ہاتھوں میں دی تھی ، اگر ان کے ہاتھ میں رہنے دیتے اور ان کی اطاعت و پشتپناہی کرتے تو وہ ان کی بڑی ہی نرم روی سے راہ ہدایت کی طرف رہنمائی کرتے اور فلاح و نجات کے صاف و شفاف شیریں چشمے سے ان کو سیراب کردیتے ۔ نبی اکرم (ص) کے بعد حضرت علی (ع) کو ملت اسلامیہ کی عام قیادت سے محروم کردینا اور اسلامی معاشرہ سے اس کی مادی و معنوی رفاہ و فلاح چھین لینا کتنا بڑا تاریخی ظلم ہے جو پوری عالم بشریت پر کیاگیاہے ۔ لیکن اس کو ، اس وقت صرف حضرت زہرا (س) نے سمجھا اور محسوس کیا ۔ اور جب ایک سننے والا ملا تو ام المؤمنین ام سلمہ کے سامنے اس کا اعلان کردیا۔ جی ہاں ! صرف وہ سمجھیں تھیں کہ کس ہدایت و بینہ اور ترقی و کمال کی ظرفیت سے معاشرہ کو محروم کردیا گیاہے ۔ علی ابن ابی طالب (ع) کا سراسر وجود حق تھا اور ان سے صراط مستقیم کی شعاعیں پھوٹتی تھیں ایک چشمہ حکمت تھا جو ہر قسم کی آمیزش اور نجاست سے پاک تھا اور رہروان حق کی تشنگی دور کرسکتاتھا کیونکہ وہ جو کہتے تھے سب سے پھلے خود اس پر عمل کرتے تھے ، در اصل ، رسول اسلام (ص) اپنے بعد کے تمام حالات سے باخبر تھے لہذا انہوں نے خدا کے حکم سے فاتح خیبر حضرت علی (ع) کے لئے حضرت زہرا کی مانند ہمسر نہیں بلکہ ایک محکم و استوار پشتپناہ منتخب کیاتھا ۔ اسی لئے امیرالمؤمنین (ع) کی ولایت کے حامیوں میں ، درخشاں ترین ذات ، حضرت زہرا (ع) کی ذات والا صفات تھی، جن کے مقام و منزلت کے اظہار و اعلان میں رسول اسلام (ص) نے خاص اہتمام سے کام لیا اور حق و باطل کی شناخت کے لئے حضرت زہرا (س) کو معیار و میزان قرار دے دیا ۔ اگرچہ علی ابن ابی طالب (ع) کی ولایت و امامت کے مخالفین کے مقابلے میں ، حضرت علی (ع) کے ساتھ تن تنہا حضرت زہرا کی معیت ان کی حقانیت کے ثبوت کے لئے کافی ہے ۔ لیکن دختر رسول (ص) نے اس پر قناعت نہیں کی دختر رسول (ص) نے اپنے پورے وجود اور وسائل و اختیارات کے ساتھ اس نا انصافی کے خلاف علم جہاد بلند کردیا ۔ اس سلسلے میں ، علی و فاطمہ کی مشکل یہ تھی کہ ابھی مسلمانوں کے اندر وہ بلوغ فکری پیدا نہیں ہوئی تھی کہ وہ مسئلہ ولایت کی اہمیت کو صحیح طور پر سمجھ سکیں اور نہ ہی دشمنان ولایت کی نیتوں کی بھرپور شناخت ممکن ہوسکی تھی ۔ بہت سے لوگوں کے لئے یہ بات قابل یقین نہیں تھی کہ جو افراد کل تک ہرقدم پر نبی(ص) کے ساتھ تھے انہیں اس قدر جلد مقام و منصب کی خواہش اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) سے اس طرح دور کردے گی !!

 حضرت زہرا (س) کی حکمت عملی

 ایسے میں  نبی  اکرم (ص)  کی  بیٹی  نے دو  پہلوؤں  سے  اپنی  جد و جہد شروع کی ، ایک طرف اسلامی حقائق  سے  پردہ  اٹھاکر  ” ولایت”  کے حقیقی مفہوم و مطالب سے لوگوں کو آشنا بنایا اور ہوشیار و خبردار کیا ، دوسری طرف وہ عظیم خطرات جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے دہن کھولے کھڑے تھے پوری وضاحت کے ساتھ گوشزد کئے ۔ اس راہ میں ، جناب فاطمۂ زہرا (س) نے جو اپنے مقام و مرتبے سے اچھی طرح واقف تھیں ، بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ چنانچہ بہتر طور پر موضوع کی اہمیت سمجھنے کے لئے فرض کرلیجئے تاریخ اسلام نے دختر رسول کا جو کردار اپنے دامن میں محفوظ رکھا اور دنیا کے سامنے پیش کیاہے اگر اس طرح سے آپ میدان عملی میں نہ اترتیں گھر پر ہجوم کرنے والوں سے احتجاج نہ کرتیں ، پہلو شکستہ نہ ہوتا اور سردربار ، مسجد النبی میں جاکر اپنا وہ آتشیں خطبہ نہ دئے ہوتیں اور تمام مردوں اور عورتوں پر حقائق روشن و آشکار نہ فرماتیں تو کیا صورت حال پیش آتی ؟! دراصل علی ابن ابی طالب کی حقانیت و مظلومیت ، حتی قریب ترین دوستوں پر بھی تشنۂ تشریح رہ جاتی ۔ بہت سے تاریخی حقائق پردۂ خفاء میں رہ جاتے اور بہت سے چہرے ” صحابیت ” اور ” خطائے اجتہادی ” کی مانند اصطلاحات کے اندر گم ہوگئے ہوتے ۔ معصومین علیہم السلام کے علاوہ کون تھا جو ان حقائق کی توضیح و تشریح کرتا ؟ ! سادہ لوح مورخین و تذکرہ نویس اور درباری محدثین و مفسرین اسلامی حقائق کا چہرہ ہی بدل کر رکھ دیتے ۔ رسول اسلام (ص) کے اہلبیت (ع) اور محافظین قرآن عترت رسول (ص) کے ساتھ جسارتوں کی ” تاریخی حدیں ” کیسے معین ہوتیں ؟! یہ کام ، تنہا اور تنہا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کرسکتی تھیں اور انہوں نے کیا ۔ مسئلہ کا ایک اور رخ یہ بھی ہے کہ اگر ان تاریخی لمحات میں جناب فاطمہ زہرا(س) سکوت اختیار کرلیتیں تو مخالفین ولایت کو اپنے عمل و رفتار کا جواز مل جاتا بلکہ وہ اپنی حکومت صحیح ثابت کرنے کو اور  نبی اکرم (ص) کی نسبت اپنے احترام کے اظہار کے لئے اعلی ترین سطح پر حضرت زہرا(س) کی تعظیم و تکریم کا مظاہرہ کرتے اور ہدیہ ؤ تحائف کے در سیدہ پر انبار لگادئے جاتے تمام منبروں پر ان کی تعریفیں ہوتیں جیسا کہ انہوں نے ام المومنین عائشہ کے سلسلے میں یہ سب کچھ کیاہے اور ان کے ” ام المومنیں ” ہونے سے بے پناہ فائدہ اٹھایاہے ۔ اگر آپ اس زاویہ سے دیکھیں تو کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ رسول اسلام (ص) کی بیٹی نے اسلام اور ولایت کی حفاظت کے لئے  اپنی عزت و وقار اور حرمت و  حیثیت ہر چیز کو قربان کیاہے اور حفظ دین کے لئے اپنی جان کی قربانی دے کر ” ولایت امیرالمومنین ” کی پشتپناہی کی ہے ۔

 نبی اکرم (ص) کے غم میں گریہ و بکا

 دختر رسول حضرت زہرا (س) کی دوسری حکمت عملی کہ جس کا تقریبا” سبھی مورخین نے ذکر کیاہے ، یہ تھی کہ آپ فراق پیغمبر میں بہت زیادہ گریہ کیا کرتی تھیں یہاں تک کہ  ” بکائین تاریخ ” میں آپ کا نام بھی شامل ہے وہ زہرا (س) جو بچپن میں ماں کے سایۂ شفقت سے محرومی کے بعد صبر و بردباری کا مجسمہ نظر آتی ہیں آخر باپ کی رحلت کے بعد اس بیتابی کے ساتھ نالہ و شیون کرنا کسی مصلحت سے خالی کیسے کیا جاسکتاہے ؟! یقینا” دختر رسول (ص) کا گریہ ، اپنے باپ کی امت کو ہوشیار و بیدار کرنے کی غرض سے تھا ، باپ کے فراق میں کیا جانے والا یہ گریہ ، اس سے بھی بڑی مصیبتوں کے بیان و اظہار کا ذریعہ بن گیاتھا ، باپ کی جدائی کے ضمن  میں ہی دختر رسول (ص)  امت اسلامیہ کو درپیش خطرات سے انہیں آگاہ فرماتیں ۔ شاید اسی لئے کبھی باپ کی قبر پر ، کبھی شہدائے احد کے سرہانے اور کبھی بقیع میں جاکر رویا کرتی تھیں کیونکہ یہ مسلمانوں کے اجتماعی مراکز تھے ۔ اور شاید اسی حساسیت کے تحت علی ابن ابی طالب سے شکایت کی گئی تھی کہ ” فاطمہ کو رونے سے منع کیجئے ان کے رونے سے ہمارے کاموں میں خلل پڑتاہے ” حتی وہ درخت کہ جس کے نیچے بیٹھکر آپ بقیع کے قریب رویا کرتی تھیں کٹوادیا گیا کہ یہ سلسلہ بند ہوجائے ۔

 حسنین علیہ السّلام کی سپر

 ولایت امیرالمومنین کے اثبات کی راہ میں دختر رسول (ص) نے نبی اکرم کے اصحاب و انصار کے درمیان اپنے فرزند حسن و حسین علیہم السّلام کے مخصوص مقام و منزلت سے بھی استفادہ کیا ۔ حسنین (ع) کے ساتھ نبی اکرم (ص) کی محبتوں کے مناظر لوگوں کی نگاہوں کے سامنے تھے اور انہوں نے نبی(ص) کی زبانی سناتھا کہ ” حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں ”  گھر میں بیٹھے رہیں یا میدان میں نکل آئیں ہرحال میں دونوں امام ہیں ، یہی نہیں بلکہ مباہلہ اور بیعت رضوان کی مانند اہم واقعوں میں بھی رسول اسلام (ص) نے ان کے نمایاں مقام و منزلت کا تعارف کرادیاتھا لہذا معصومۂ عالم نے کئی تاریخی موقعوں پر ان کے وجود سے استفادہ کیا اور اپنی مہم میں ان کو اپنے ساتھ لے کر گئیں ۔ واقعۂ ثقیفہ کے بعد ، مسلسل چار دن ، حضرت علی (ع) کے حق کی حمایت میں مہاجرین و انصار کے دروازوں پر حسن و حسین(ع) کے ساتھ گئیں اور انہیں امیرالمومنین کی حمایت و مدد کی دعوت دی ۔ جب علی (ع) پر ہجوم کیا گیا تو ان کی حمایت کے لئے مسجد کے دروازہ تک گئیں اور سختی سے علی کےحق کی حمایت کی اس وقت بھی حسن و حسین (ع) ماں کی انگلی پکڑے ساتھ ساتھ تھے ۔ قبر رسول (ص) اور بقیع پر گریے کے لئے جاتیں تو بھی حسنین کو ساتھ لے کر جاتی تھیں ۔ درود و سلام رسول (ص) کی اس بیٹی پر جس نے ہم کو تعلیم دی ہے کہ اسلام کی حیات اور بقا کا راز مقام ولایت کے تحفظ اور پشتپناہی میں ہی مضمر ہے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button