مقالہ جات

امامت کا آٹھوان آفتاب حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہما السلام

اshiite_imam_reza_razaیران کے شمال مشرقی علاقے خراسان میں ایک ملکوتی بارگاہ واقع ہے جوعاشقان اہل بیت پیغمبرکا ملجاء وماوی بنی ہوئی ہے وہاں ایک فرزندرسول اورامام معصوم جیسی عظیم، پاک ومقدس ہستی آرام فرما رہی ہے جورضاکے لقب سے کائنات میں مشہورہے کیونکہ ان کی رفتار وگفتار اوران کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ خداوندعالم کی رضا وخوشنودی سے سرشار تھا ۔ آج کل اس مرقد مطہراورحرم مطہرمیں ایک خاص سماں ہےنہ صرف ایران بلکہ دنیا کے گوشہ وکنار سے چاہنے کا والوں کا ایک امڈتا ہوا سیلاب ہے جومشہد مقدس میں موجود ہے اورآج  جب تیس صفرالمظفرحضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کا یوم شہادت ہے توعزاداروسوگوارآپ کے حضورآپ کی مصیبت پراشک ماتم بہا رہے ہیں ۔ ایران ودنیا کے گوشہ وکنار سے آئے ہوئے ان عزاداروں اورچاہنےوالوں کویہ معلوم ہے کہ اس ملکوتی بارگاہ میں دعاومناجات کی حیات بخش فضامیں وہ اپنی روح وجان کوکس طرح سے سیراب کرسکتے ہیں ۔ ہم بھی اس موقع پرریڈیائی لہروں کے ذریعہ اس بارگاہ منورکی طرف رخ کرکے امام غریب الغرباء کی خدمت میں سلام پیش کرتے ہیں ۔امام رضاعلیہ السلام کی حیات طیبہ کا بیشترحصہ مدینہ منورہ میں گذراجبکہ آپ کی حیات طیبہ کے صرف آخری دوسال سرزمین مرومیں جوعباسی حکومت کا دارالخلافہ تھا بسر ہوئے ۔ فرزندرسول امام رضاعلیہ السلام اپنے پدربزرگوار امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد 183 ہجری قمری میں منصب امامت پرفائزہوئے آپ کی امامت کا زمانہ بیس سال کے عرصے پرمحیط تھا۔ امام رضاعلیہ السلام نے اس دوران اپنے الہی فریضے کی بنیاد پرمعاشرے کی ہدایت ورہنمائی کی ذمہ داری بہت ہی اچھے اندازمیں ادا کی اورلوگوں کی اخلاقی و دینی تربیت میں کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کیا ۔ جیسا کہ خود امام رضاعلیہ السلام کا ارشاد ہے : امام دین کی اساس وبنیاد اوررات کی تاریکی میں چمکتا ہوا ستارہ ہے ۔امام رضاعلیہ السلام کی سیرت پرنظرڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ عقیدتی سیاسی اورسماجی امورمیں ایک بے مثال مدبر ورہنما تھے ۔ آپ کی امامت کا آخری پانچ سال عباسی خلیفہ مامون کے دورحکومت میں تھا اورآپ پرعباسی حکومت کڑی نظررکھتی تھی عباسی خلفاء اہل بیت اطہار کواپنی حکومت کے لئے سب سے بڑا خطرہ تصورکرتے تھے کیونکہ آئمہ اطہار اوراہل بیت علیھم السلام اصل دین اوراسلامی تعلیمات کی ترویج اورلوگوں کی بیداری میں بھر پورکردارادا کرتے تھے آئمہ اطہار اوراہل بیت پیغمبرعلیھم السلام ہی انصاف کے قیام اورظلم کے خلاف تحریک کے علمبردارتھے ۔ امام رضاعلیہ السلام مسلمانوں کے دلوں پرحکومت کرتے تھے ۔چونکہ آپ نواسہ رسول تھے اس لئے مسلمان آپ سے دل وجان سے محبت کرتے اورآپ کے نورانی وجود سے استفادہ کرتے تھے۔ لوگ دورونزدیک سے مدینہ آتے اورجس کا جتنا ظرف ہوتا وہ اسی اعتبار سے فیضیاب ہوکرجاتا ۔ امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں لوگوں کی بڑی تعداد میں آمد ورفت سے عباسی خلیفہ اوراس کی حکومتی مشینری پرلرزہ طاری ہوگیا تھا اوراس سے عباسی حکومت سخت پریشان ہوگئی تھی۔ اس کواپنے وجود وبقاء کے لئے خطرہ محسوس ہونےلگا تھا اسی لئے مامون نے امام رضاعلیہ السلام کومدینہ سے دوررکھنے کا فیصلہ کرلیا اوراس نے امام کومدینہ چھوڑنے پرمجبورکردیا اس طرح امام رضاعلیہ السلام مدینہ چھوڑکرمرو آنے پرمجبورہوگئے ۔امام رضاعلیہ السلام کا زمانہ اسلامی تمدن وتہذیب کے پروان چڑھنے کا دورتھا البتہ اسلامی تہذیب آپ کے اجداد امام محمد باقروامام جعفرصادق علیھماالسلام کے زمانےمیں ہی پروان چڑھنا شروع ہوگئی تھی امام رضاعلیہ السلام نے بھی اپنے دورمیں اسلامی تہذیب وثقافت کوعام کرنے میں بہت نمایاں کرداراداکیا امام رضاعلیہ السلام نے فلسفہ وکلام حدیث وتفسیراورنجوم وطب میں بہت ہی دلچسپ اورحیرت انگیزنکات پیش کئے ہیں ۔مامون کوبھی امام کی ان فضیلتوں کا بخوبی علم تھا اسی لئے وہ ایک طرف سے امام کومدینہ سے دورکرنا چاہتا تھا اوردوسری طرف اپنے پاس بلاکر خوداپنے آپ کوعلمی اعتبار سے دوسری حکومتوں کےمقابلےمیں مضبوط ظاہرکرنے کی کوشش کررہا تھا ۔مامون ایک چالاک ومکار سیاستداں تھا اس نے مرو آنے کے بعد امام رضاعلیہ السلام پرولی عہدی مسلط کی مگرآپ نے اس کوقبول کرنے کے لئے کچھ شرطیں عائدکیں ۔ مامون نے ساتھ ہی امام کونعوذباللہ خجل وشرمندہ کرنے کے لئے اپنے دورکے بڑے بڑے علماء اوردانشوروں کے ساتھ امام کے مناظرے رکھے تاکہ کہیں نہ کہیں اپنے خیال باطل میں امام کوشکست ہوجائے ۔ مختلف ادیان ومذاہب کے علماء کے ساتھ امام رضا علیہ السلام کے مناظرے تاریخ میں بہت زیادہ شہرت کے حامل ہیں مگرہرمناظرے کا اختتام امام رضاعلیہ السلام کی فتح پرہی ہوتا ۔مناظرے کے اختتام پرمختلف ادیان ومذاہب کے علماء امام کی علمی برتری اورآپ کے فضل کا اعتراف کرکے ہی جاتے اوریوں مامون کواپنی سازش میں ہربار منہ کی کھانی پڑتی۔ چنانچہ ایک مسیحی عالم جاثلیق نے امام رضاعلیہ السلام سے مناظرے کے بعد امام سے کہا کہ : عیسی مسیح کی قسم میں ہرگزیہ نہیں جانتا تھا کہ مسلم علماء میں آپ جیسا بھی کوئی ہوگا اسی طرح ایک اورمتکلم عمران صابی بھی کہتا ہے کہ میں امام رضاعلیہ السلام سے مناظرہ کرنے کے بعد مبہوت ہوگیا اورپھرمیں ان کے استدلال اورحسین طرزکلام کا مجذوب ہوکرمسلمان ہوگیا ۔اس طرح تاریخ میں ملتا ہے کہ مدینہ سے مروکی جانب امام کا سفرتاریخ اسلام کا ایک اہم واقعہ شمار ہوتا ہے اگرچہ مامون نے اپنی سازش کے تحت کے امام کومدینہ سے دورکیا تھا مگرمرومیں امام کے قیام کے دوران اسلامی علوم وثقافت کی بھرپورترویج ہوئی ۔فرزندرسول امام رضاعلیہ السلام سے عوام کی محبت وعقیدت کا اندازہ مامون کواس وقت ہوا جب آپ نمازعید کی امامت کے لئے باہرنکلے جب آپ بیت الشرف سے باہرنکلے تولوگوں کا امڈتا ہوا سیلاب آپ کے پیچھے پیچھے روانہ ہوگیا اورلوگ آپ کودیکھ کرپوری شدت کے ساتھ اشک شوق بہارہے تھے اورانتہائی جذ باتی ہورہے تھے اس دوران مامون کواطلاع دی گئی کہ اگرامام کونمازعید پڑھانے سے نہ روکا گیا تواس کی حکومت کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ اس طرح مامون کواب اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ مدینہ سے جبرا امام کومرولانے سے نہ صرف یہ کہ امام کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ عوام کے درمیان آپ کا جاذبہ ہرطرف پھیلتا جارہا تھا ۔مرومیں امام رضاعلیہ السلام کا قیام دوسال سے زیادہ تک نہیں رہا کیونکہ اب مامون کوامام کا وجود برداشت نہیں ہورہا تھا اس کواپنی حکومت خطرے میں نظرآنے لگی اس نے امام کی بڑھتی ہوئی اس مقبولیت کوروکنے کے لئے صرف ایک ہی راستہ پایا کہ وہ چراغ امامت کوگل کردے اوریوں تیس صفرالمظفر203 ہجری قمری کومامون نے فرزندرسول امام رضاعلیہ السلام کوزہردغا دے کرشہید کردیا عباسی حکمراں یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ اپنی مکارانہ چالوں سے چراغ امامت گل کرکے اپنی حکومت بچالیں گے اوراسلامی تعلیمات کومٹادیں گے مگرآج ہرطرف اسلام اوراسلامی تعلیمات کا سورج پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا ہے جواس بات کی دلیل ہے کہ نورخدا پھونکوں سے نہیں بجھایا جاسکتا

 

 

 

 

 

 

متعلقہ مضامین

Back to top button