مقالہ جات

پیغببر اسلام(ص): حسین (ع) مجھ سے ہے اور میں حسین (ع) سے ہوں

  

hussain

نبی کریم حضرت محمد مصطفی (ص) نے فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ، خدایا اس کو دوست رکھ جو حسین (ع) کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو حسین (ع) سے دشمنی رکھے۔ نبی کریم حضرت محمد مصطفی (ص) نے فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ، خدایا اس کو دوست رکھ جو حسین (ع) کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو حسین (ع) سے دشمنی رکھے۔ خواجہ اجمیری نے کہا کہ حسین اسلام ہیں حسین دین ہیں حسین دیں پناہ ہیں حسین کے بغیر دین کی شناخت و پہچان ممکن نہیں کیونکہ کربلا کے واقعہ کے بعد دین اسلام امام حسین کے نام ثبت ہوگیا ہے اب دین حسین کا ہے ، اسلام حسین کا ہے۔  


 

 

انسانی تاریخ میں ابتدا سے آج تک حق وباطل کے درمیان بہت سی جنگیں ہوئی ہیں لیکن ان تمام جنگوں میں وہ معرکہ او رواقعہ اپنی جگہ پر بے مثل ہے جو کربلا کے میدان میں رونما ہوا، یہ معرکہ اس اعتبار سے بھی بے مثال ہے کہ اس میں تلواروں پر خون کی دھاروں نے، برچھیوں پر سینوں نے اورتیروں پر گلوں نے فتح وکامیابی حاصل کی، اس طرح اس جنگ کا مظلوم آج تک محترم فاتح اورہر انصاف پسند انسان کی آنکھوں کا تارا ہے جبکہ ظالم ابد تک کے لئے شکست خوردہ اورانسانیت کی نگاہ میں قابل نفرت ہے. آئیے اس عظیم شہید کی زندگی اور عظمت کے بارے میں کچہ پڑہتے ھیں پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے نواسے سید الشہداءحضرت امام حسین (ع)  کی ولادت باسعادت ۳ شعبان المعظم سن چار ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور آپ کی پرورش سایہٴ نبوت، موضع رسالت، اور معدن علم میں ہوئی۔ غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم نہایت اس کی حسین (ع) ابتدا ہے اسماعیل آپ بھی اپنے بھائی امام حسن(ع) کے تمام بنیادی فضائل میں شریک ہیں یعنی آپ بھی امام ہدیٰ، سیدا شباب اہل الجنة میں سے ایک ہیں، جن کے لیے نبوت کی زبان اطہر نے ارشاد فرمایاالحسن والحسین سیداشباب اھل الجنۃ(حسن (ع) اور حسین (ع) جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں) آپ نے رسول اکرم (ص) کے ساتھ چھ سال تک کی زندگی گذاری، اورآپ پر وہ تمام مصیبتیں پڑیں جو وفات رسول کے بعد اہل بیت نبی پرپڑیں یہاں تک کہ آپ کے بھائی امام حسن رضی اللہ عنہ کو زہر سے شہید کردیا گیا او رآ پ نے اپنی زندگی میں اپنی والدہ گرامی، پدر بزرگوار اور اپنے بھائی کے غم کو برداشت کیا۔ امام حسین (ع)کی سرداری جنت آل محمد(ص)کی سرداری مسلمات سے ہے علمائے کرام کااس پراتفاق ہے کہ سرورکائنات نے ارشادفرمایاہے ”الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة وابوہماخیرمنہما“ حسن اورحسین جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے والدبزرگواریعنی علی بن ابی طالب ان دونوں سے بہترہیں۔ حضرت حذیفہ یمانی کابیان ہے کہ میں نے آنحضرت ص کوایک دن بہت زیادہ مسرورپاکرعرض کی مولاآج افراط شادمانی کی کیاوجہ ہے ارشادفرمایاکہ مجہے آج جبرئیل نے یہ بشارت دی ہے کہ میرے دونوں فرزندحسن وحسین جوانان بہشت کے سردارہیں اوران کے والدعلی ابن ابی طالب ان سے بھی بہترہیں (کنزالعمال ج ۷ ص ۱۰۷ اس حدیث سے اس کی بھی وضاحت ہوگئی کہ حضرت علی صرف سیدہی نہ تہے بلکہ فرزندان سیادت کے باپ تھے۔

ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے ارشادفرمایاکہ میں حسنین کودوست رکھتاہوں اورجوانہیں دوست رکہے اسے بھی قدرکی نگاہ سے دیکھتاہوں۔ ایک صحابی کابیان ہے کہ میں نے رسول کریم کواس حال میں دیکھاہے کہ وہ ایک کندھے پرامام حسن کواورایک کندھے پرامام حسین کوبٹھائے ہوئے لیے جارہے ہیں اورباری باری دونوں کامنہ چومتے جاتے ہیں ایک صحابی کابیان ہے کہ ایک دن آنحضرت نمازپڑھ رہے تہے اورحسنین آپ کی پشت پرسوارہو گئے کسی نے روکناچاہاتوحضرت نے اشارہ سے منع کردیا۔ جامع ترمذی ،نسائی اورابوداؤد نے لکھاہے کہ آنحضرت ایک دن محوخطبہ تہے کہ حسنین(ع) آگئے اورحسین(ع) کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجہے کہ زمین پرگرپڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت نے خطبہ ترک کردیااورمنبرسے اترکرانہیں آغوش میں اٹھالیااورمنبر پرتشریف لے جاکر فرمایا: ھذا حسین فعرفوہ،

امام حسين کي عظمت و شجاعت

امام حسين کے کام کي عظمت يہ تھي کہ آپ نے ظالم و جابر، خلافت رسول ۰ کے مدعي اور انحراف کے پورے ايک جہان کے دباو کو قبول نہيں کيا۔ مدينے ميں صحابہ کرام کي اچھي خاصي تعداد موجود تھي جنہوں نے واقعہ کربلا کے بعد مدينہ ميں رونما ہونے والے واقعہ حرّہ ميں مسلم ابن عقبہ کے قتل عام کے مقابلے ميں ثابت قدمي کا مظاہرہ کيا اور جنگ کي ۔ واقعہ کربلا کي عظمت کا ایک پہلو يہ ہے کہ امام حسين(ع)  ايک ايسي طاقت و قدرت کے مد مقابل سيسہ پلائي ہوئي ديوار بن گئے کہ جو تمام مادي اسباب و وسائل کي مالک تھي۔ امام حسين(ع) کے دشمن کے پاس مال و دولت تھي ، وہ قدرت و طاقت کا مالک تھا، اسلحہ سے ليس سپاہي اس کي فوج ميں شامل تھے اور ثقافتي و معاشرتي ميدانوں کو فتح کرنے والے مبلغ و مروج اورمخلص افراد کا لشکر بھي اُس کے ساتھ تھا۔ کربلا قيامت تک پوري دنيا پر محيط ہے ، کربلا صرف ميدان کربلا کے چند سو ميٹر رقبے پر پھيلي ہوئي جگہ کا نام نہيں ہے۔ بلکہ کل ارض کربلا کل یوم عاشورا نفس نفس علی علی زباں زباں حسین ہے کہاں کوئی بتا سکا کہاں کہاں حسین ہے کربلا کے بعد اب یہ فیصلہ ہو گیا جہاں جہاں یزید ہے وہاں وہاں حسین ہے

امام حسین (ع) کا کربلا میں ورودحضرت امام حسین علیہ السلام  2محرم الحرام 61 ھ بروزجمعرات  کربلا میں  وارد ہوئے۔ واعظ کاشفی اور علامہ اربلی کا بیان ہے کہ جیسے ہی امام حسین (ع) نے زمین کربلا پر قدم رکھا زمین کر بلا زرد ہو گئی اور ایک ایسا غبار اٹھا جس سے آپ کے چہرہ مبارک پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوگئے۔یہ دیکھ کر اصحاب ڈرگئے اور جنابِ اُم کلثوم رونے لگیں۔ صاحب مخزن البکا تحریر فرماتے ہیں کہ کربلا پر ورود کے فوراََ بعد جنابِ ام کلثوم نے امام حسین (ع) سے عرض کی،بھائی جان یہ کیسی زمین ہے کہ اس جگہ ہمارادل دھل رہا ہے۔ امام حسین (ع) نے فرمایا بس یہ وہی مقام ہے جہاں ہمارے بابا نے صفین کے سفر میں خواب دیکھا تھا۔یعنی یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمارا خون بہایا جائے گا اور ہمیں شہید کیا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button