اہم ترین خبریںدنیامقبوضہ فلسطین

نتن یاہو کا واشنگٹن مشن: غزہ جنگ بندی یا اقتدار کا تحفظ؟

نتن یاہو امریکہ میں جنگ بندی، ابراہیمی معاہدے اور کرپشن سے بچاؤ کے لیے سرگرم

شیعیت نیوز : 7 جولائی کو بنیامین نتن یاہو نے بن گوریان ایئرپورٹ سے واشنگٹن کے لیے پرواز بھری۔ یہ ان کا ایک اور دورۂ امریکہ ہے، جس کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد غزہ میں ممکنہ جنگ بندی، ابراہیم معاہدے کو وسعت دینا، اور سب سے بڑھ کر امریکہ کو ایران کے ساتھ جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش ہوسکتا ہے۔

اگرچہ اس وقت سعودی عرب کی جانب سے ابراہیم معاہدے میں شمولیت کا امکان کم نظر آتا ہے۔ اس کی شمولیت کے لیے یورینیم کی افزودگی کا حق، غزہ میں جنگ کا مکمل خاتمہ اور دو ریاستی حل کو تسلیم کرنے جیسے کلیدی مطالبات کا ماننا پڑے گا۔ اس کے برعکس بعض ماہرین کا خیال ہے کہ شام، لبنان یا قطر جیسے ممالک کی شمولیت کا امکان زیادہ ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نتن یاہو اس ملاقات کے دوران صرف غزہ یا ایران سے متعلق امور پر بات نہیں کریں گے بلکہ وہ اپنے چار بدعنوانی کے مقدمات بند کروانے، کابینہ سے مذہبی شدت پسند جماعتوں کے نکلنے کی صورت میں حکومت کو بچانے اور عراق میں مزاحمتی تحریکوں سے نمٹنے جیسے موضوعات بھی چھیڑ سکتے ہیں۔

دائیں بازو کے اس رہنما کی کوشش ہے کہ مرکزی ذرائع ابلاغ کے سہارے خود کو حالیہ ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ میں فتح یاب کے طور پر پیش کرے اور تل ابیب کی چند محدود اور عارضی کامیابیوں کو ایک بڑی اسٹریٹجک فتح کے طور پر ظاہر کرے۔ تاہم، ماہرین کا ماننا ہے کہ اگرچہ ٹرمپ ان کے حامی ہیں، لیکن نتن یاہو کے لیے مستقبل کا راستہ اتنا ہموار نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں : ایرانی حملے کے بعد اسرائیلی ایٹمی ری ایکٹر “ڈیمونا” کی سرگرمیاں اچانک معطل

آپریشن بشارتِ فتح کے دوران سپاہ پاسداران کی جانب سے مغربی ایشیا میں امریکی سینٹکام کے کمانڈ سینٹر اور صیہونی علاقے بئر السبع کو میزائل حملوں کا نشانہ بنانے کے چند گھنٹوں بعد ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر کے ذریعے ایران اور صیہونی حکومت کے درمیان جنگ بندی اور سیزفائر کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔

یہ کشیدگی کا منجمد ہونا درحقیقت صیہونی حکومت کے حملوں کا نتیجہ نہیں بلکہ ایران کی میزائل طاقت کا براہ راست اثر تھا، جس نے اسرائیلی دفاعی نظام کو ناکارہ بناتے ہوئے کامیابی سے انہیں عبور بھی کیا۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق، ایران کی جانب سے سجیل اور خرمشہر جیسے جدید میزائلوں کی بارش کے مقابلے میں صیہونی حکومت میں مزید برداشت کی گنجائش نہیں بچی تھی۔ جب صیہونی دفاعی نظام کے تیر ختم ہونے کے قریب تھے، تب امریکی حکومت کو مداخلت کرنی پڑی تاکہ اسرائیل کو بچایا جاسکے۔

اسی دوران صیہونی وزیراعظم اس موقع سے فائدہ اٹھا کر، محور مقاومت کے خلاف جنگ اور غزہ میں سیزفائر کو جواز بنا کر "ابراہیم معاہدے” کو وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم ان تمام اہداف سے ہٹ کر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ لیکوڈ پارٹی کے رہنما بنیامین نتن یاہو کے لیے اس پورے ڈرامائی منظرنامے کا اصل مقصد صرف ایک ہے۔ وہ اقتدار میں باقی رہنا اور کرپشن کے مقدمات سے بچنا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق، نتن یاہو کے واشنگٹن کے حالیہ دورے کا ایک اہم مقصد غزہ میں 60 دن کی جنگ بندی پر مذاکرات کرنا ہے۔ اسی تناظر میں، علاقائی ذرائع ابلاغ جیسے "الجزیرہ” نے نتن یاہو کی امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور مشرق وسطی کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے اسٹیو ویٹکاف سے ملاقات کو اسی مقصد کے تحت دیکھا ہے۔

ادھر اسرائیل کی انتہا پسند دائیں بازو کی قوتیں، جیسے ایتمار بن گویر، کھلے عام نتن یاہو پر تنقید کر رہی ہیں۔ وہ جارحانہ زبان استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کو جنگ بندی کی بجائے حماس کی مکمل تباہی کے مقصد کو پوری قوت سے آگے بڑھانا چاہیے۔ اس بات سے قطع نظر کہ آیا نتن یاہو کی حکومت میں یہ اختلافات واقعی ہیں یا محض دکھاوے کے لیے، اپوزیشن لیڈروں جیسے یائیر لاپید نے نتن یاہو کو یقین دہانی کروائی ہے کہ اگر انتہا پسند عناصر کابینہ سے علیحدہ ہو جائیں تو وہ فوراً حکومت میں شامل ہو جائیں گے تاکہ غزہ میں باقی رہ جانے والے 20 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا راستہ ہموار ہوسکے۔

بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اسرائیلی حکومت اس مرحلے پر جنگی ہتھکنڈوں جیسے بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا اور داخلی تفرقہ پیدا کرنا چاہتی ہے تاکہ غزہ کے عوام کی مزاحمت کو توڑا جاسکے اور انہیں غزہ چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے تل ابیب حماس کو ایک امن مخالف اور غیر منطقی فریق کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے، تاکہ اس پر الزام آئے کہ وہ غیرحقیقی مطالبات کے ذریعے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔

نتن یاہو کے واشنگٹن کے دورے کا ایک اور اہم ایجنڈا ابراہیمی معاہدے کو توسیع دینا ہے۔ حالیہ دنوں میں صہیونی تھنک ٹینک اور تجزیہ کار خاص طور پر شام کے مسئلے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس امکان پر بات کر رہے ہیں کہ دمشق کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ممکن ہے، کیونکہ ابومحمد الجولانی کی نو آموز حکومت امریکی حمایت کی شدید محتاج ہے اور وہ اسرائیل کی طرف سے جنوبی شام پر حملوں کے رکنے کی خواہاں بھی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جولانی کی تمام تر کوششیں صرف اپنے اقتدار کو تسلیم کروانے پر مرکوز ہیں۔

لبنان کے حوالے سے بظاہر اسرائیل، امریکہ، سعودی عرب اور لبنانی ٹیکنوکریٹ حکومت کی ہم آہنگی کے ساتھ چار اہم اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے:

  1. حزب اللہ پر اقتصادی اور اسلحہ جاتی پابندیاں لگانا اور اس کی مالی و عسکری بحالی کو روکنا

  2. حزب اللہ کی علاقائی سرگرمیوں کو ختم کرکے اسے صرف ایک مقامی گروہ میں تبدیل کرنا

  3. سرحدی دیہات کی تعمیر نو میں رکاوٹ ڈالنا اور شیعہ آبادی کو سرحدی علاقوں سے ہٹانا

  4. 2026 کے انتخابات میں حزب اللہ کو سیاسی سطح پر شکست دینا

اسرائیلی فوج کی 100 سے 150 اہلکاروں پر مشتمل عارضی چوکیوں کا جنوبی لبنان کے پانچ اسٹریٹجک مقامات پر موجود ہونا دراصل جنوبی لبنان کی جغرافیائی صورت حال بدلنے اور حزب اللہ کو سرحدی علاقوں سے دور رکھنے کی ابتدائی کوشش ہے۔ اب جبکہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کو چھ ماہ گزرچکے ہیں، امریکہ کی جانب سے دو مقاصد کو حاصل کرنے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں:

  1. حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا

  2. بیروت کو ابراہیم معاہدے میں شامل کروانا

ایسا لگتا ہے کہ لبنانی حکومت جنوبی لبنان میں صیہونی موجودگی کو جواز بنا کر ٹرمپ حکومت اور سعودی عرب کی جانب سے آنے والے مطالبات کا مثبت جواب دینے کے لیے تیار ہو رہی ہے۔ اسی تناظر میں اسرائیلی فوج کی حالیہ 48 گھنٹوں کی نقل و حرکت اور تل ابیب کا جارحانہ رویہ قابل فہم ہے۔

گزشتہ 21 مہینوں کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ جب بھی نتن یاہو یا اس کی حکومت کے اعلی حکام نے واشنگٹن کا رخ کیا، مغربی ایشیا میں کوئی بڑا واقعہ ضرور پیش آیا ہے جیسے کہ ایران کے قونصل خانے پر حملہ یا حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ کے خلاف ممکنہ کارروائیاں۔ یہ سب واشنگٹن اور تل ابیب کے گہرے اشتراک کی عکاسی کرتے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ صیہونی حکومت مشرق وسطی میں مسلسل جنگوں پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد اب ان جنگوں کو موجودہ حالات میں ختم کرنا نہیں چاہتی۔ اسی بنا پر غزہ میں جنگ بندی یا ابراہیم معاہدے کی توسیع جیسے موضوعات کو فریب کی کارروائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، تاکہ یمن، عراق، لبنان یا حتی کہ ایران کے خلاف کوئی نیا حملہ یا سازش رچائی جاسکے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button