مقالہ جات

کہیں اسرائیل ناراض نہ ہوجائے۔یاسر پیرزادہ کا کالم

 آج’ شیطان کے وکیل ‘بن کر کچھ سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہیں ۔
پہلا سوال: حماس نے اسرائیل پر راکٹوں سے حملہ کیا جس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پرخوفناک بمباری کی تو کیا یہ سمجھا جائے کہ حماس نے حملہ کرکے حماقت کی جس سے فلسطینیوں کونقصان پہنچا ؟
دوسرا سوال: مغربی میڈیا کے مطابق حماس کے حملوں میں بچے بھی شہیدہوئے ہیں تو کیا ایسے بے رحمانہ اقدامات کی دو ٹوک مذمت نہیں کی جانی چاہیے ؟
تیسرا سوال: اگر فلسطینیوں نے اسرائیل سے نمٹناہے تو اِس کیلئے ضروری ہے کہ دانشمندانہ حکمت عملی اپنائی جائے، حماس جیسے گروہ اِس دانشمندی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اُلٹا فلسطینی ’کاز‘ کو نقصان پہنچا رہے ہیں ، کیا یہ بات درست ہے ؟
اِن سوالوں کا جواب دینے سے پہلے ضروری ہے کہ اِن میں پوشیدہ مفروضوں کو سامنے لایاجائے ۔ مثلاً ہم نے فرض کرلیاہے کہ حماس کے حملے سے پہلے فلسطینی ، گو کہ اسرائیل کے زیرِ تسلط تھے اور اسرائیل اُن کے علاقوں پر قابض تھا، مگر پھر بھی اُن کی زندگیاں جیسے تیسے امن سے گزر رہی تھیں، وہ صبح اُٹھ کر اپنے کاموں پر جاتے تھے،
چار پیسےکماتے تھے،شام کواپنے بچوں کے پاس بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، لیکن حماس کے حملے کے بعدتو اُن کے ہاتھ سوائے تباہی کے کچھ نہیں آیا۔
اِس مفروضے کی دھجیاں مصری ٹی وی اینکراورسیاسی طنز نگار بسیم یوسف نے اڑا دیں،بسیم یوسف نے کہا کہ چلیے ایک ایسی دنیا کا تصور کرتے ہیں جہاں حماس نہیں ہے اور اُس دنیا کا نام مغربی کنارہ رکھ دیتے ہیں کیونکہ مغربی کنارے میں حماس کاوجود
نہیں، اِس کے باوجود اسرائیل اِس سال وہاں 172 فلسطینیوں کو مار چکا ہے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔لہٰذا یہ کہناکہ حماس کے حملے سے پہلے راوی چین ہی چین لکھتا تھایا فلسطینی کم از کم اپنے گھروں میں سکون کے ساتھ رہ رہے تھے بالکل حقائق کے منافی بات ہے
۔دوسرا مفروضہ حماس کی دہشت گردی سے جُڑا ہے،مغربی میڈیا کے اینکر فلسطین کے حامیوں کو اپنے پروگرام میں مدعو کرکے کہتے ہیں کہ کیا آپ حماس کی دو ٹوک مذمت نہیں کرتے
اور اگر نہیں کرتے تو اِس کا مطلب ہے کہ آپ کو اسرائیل کی مذمت کا بھی کوئی حق نہیں۔ یہ موازنہ بھی گمراہ کُن ہے کیونکہ اِس موازنےکی وجہ سے اسرائیلی فوج کے اقدامات کو جواز مل جاتا ہے جبکہ فلسطینیوں کا استدلال یہ ہے کہ خطے میں اگر کوئی دہشت گرد ہے تو وہ اسرائیلی فوج ہےجو فلسطین کی زمین پر قابض ہے اور یہ بات
بین الاقوامی قانون سے ثابت شدہ ہے ۔
ایسے میں جب مغربی میڈیا حماس کو فوکس کرتا ہے تو وہ دراصل اسرائیل کو ’بلینک چیک‘ دے رہا ہوتا ہے کہ اب اسے فلسطینی بستیوں پر بمباری کا پورا حق ہے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے حامیوںکو مغربی میڈیا کے کسی اینکر نے بلا کر یہ نہیں پوچھا کہ تم
لوگ اپنی فوج کی عام شہریوں پر بمباری کی مذمت کیوں نہیں کرتے، اصل میں یہ ہے وہ دہرا معیارجس کی وجہ سے حماس کی مذمت نہیں کی جاتی۔
اب کچھ بات حکمت عملی کی بھی ہوجائے۔فلسطینی کاز کے حامیوں پر یہ تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ وہ دانشمندانہ حکمت عملی اپناتے تو آج انہیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ۔
چلیے مان لیا ، اب آپ اُن کیلئے کوئی ایسی حکمت عملی بنا کر دکھائیے جس سے اسرائیلی
فوج کا قبضہ بھی ختم ہوجائے اور وہ امن اور عزت سے زندہ بھی رہ سکیں! صرف یہ کہنا کہ دنیا میں طاقت ور کا حکم چلتا ہے کوئی ایسی بات نہیں جس سے دانش جھلکتی ہو یا جس میں کوئی گہرا تجزیہ شامل ہو۔جب آپ کے سامنے ظلم ہو رہا ہو اور آپ کو اچھی
طرح علم ہو کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون تو کسی بھی دانشور کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ظالم کی کھُل کر نشاندہی کرے اور مظلوم کے حق میں آواز بلند کرے۔
اگر وہ یہ نہیں کرتا اور دلیل کے طور پر کہتا ہے کہ طاقت ور کے خلاف آواز بلند کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تو پھر وہ تاریخ کی غلط سمت میں کھڑا ہےکیونکہ وہ بالواسطہ طریقے سے ظالم کی حمایت کر رہاہے۔یہی کام آج امریکی یونیورسٹیوں کے وہ پروفیسر کر رہے ہیں جن کی نوکریاں سپریم کورٹ کے ججز کی طرح محفوظ ہیں لیکن اِس کے باوجود وہ فلسطین کی حمایت میں بولنے سے قاصر ہیں،
اِن کا لبرل ازم صرف ایران میں عورتوں کے خلاف بننے والے قوانین تک ہے ، بغل میں اسرائیل آ کر اُن کے پر جلتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہاورڈ کے جن طلبا نے فلسطین کے حق میں قرارداد پر دستخط کیے تھے اُن کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے کہ انہیں نوکریاں نہ دی جائیں ، یہی نہیں بلکہ امریکہ سے یہودی نوجوان ’جہاد‘ کی غرض سے اسرائیل بھی آرہے ہیں۔ سو اُن کا جہاد ،
جہاد ہے اور ہمارا جہاد دہشت گردی !
حکمت عملی پر واپس آتے ہیں۔
فلسطینیوں کے پاس حکمت عملی کے کیاآپشن ہیں؟
فلسطینیوں نے پُر امن جدو جہد اور بین الاقوامی قانون کی عملداری کی دہائی دے کر دیکھ لیا ہے ، دنیا اُن کی آوا ز پر کان نہیں دھرتی۔ ماضی میں پی ایل او نے مسلح جدو جہد کی ، نتیجے میں اوسلو معاہدہ ہوا، امریکہ ، اسرائیل اور فلسطینیوں نے دو ریاستوں کے قیام پر اصولی اتفاق کر لیا مگر آج تک اسرائیل نے فلسطینی ریاست کیلئے راہ ہموار نہیں کی۔
اب بتائیے کہ فلسطینی کیا کریں؟ اسرائیلی حکومت آئے دن فلسطینیوں کا قتل کرتی ہے ، اُن کی زمین پر نئی بستیاں تعمیر کرتی ہے، جب چاہے اُن کی بجلی ، پانی اور کھانا بند کر دیتی ہے، اِس کے باوجود قصور فلسطینیوں کا ہے کیونکہ دنیا کا اصول ہے جس کی
لاٹھی اُس کی بھینس، واہ!اِس اصول کے تحت کسی مزارع کو اُس وقت مزاحمت نہیں کرنی چاہیے جب علاقے کا چوہدری بندوق کے زور پراُس کی بیٹی کو اٹھا کر لے جائے
بلکہ اسے کوئی ایسی حکمت عملی بنانی چاہیے کہ چوہدری بھی ناراض نہ ہو اور اُس کی بیٹی بھی واپس آجائےچاہے یہ حکمت عملی بنانے کے دوران مزارع کی بیٹی حاملہ ہی کیوں نہ ہوجائے!
میں دنیاوی معاملات میں مذہب سے دلیل دینے کا عادی نہیں ہوں لیکن جو دینی اکابر یہ مقدمہ پیش کر رہے ہیں کہ حماس کے حملے سے فلسطینیوں کو نقصان پہنچا تو اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ دنیا کی ہر بات سود و زیاں کو ذہن میں رکھ کر نہیں کی جاتی۔
قریش مکہ نے رسول اللہ ﷺ کوہر وہ پیشکش کی
جس میں آپ ﷺ کا دنیاوی فائدہ تھا مگر آپ ﷺ نے جواب دیا کہ’’ اگر میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند بھی رکھ دو تومیں اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہوں گا۔‘‘ حماس کے حملے کے بعد بظاہر یہی
لگتا ہے کہ فلسطینیوں کا زیادہ نقصان ہو رہا ہے لیکن اگر آپ کے پاس کوئی حکمت عملی ہے تو بسم اللہ، پیش کیجیے، لیکن خیال رہے کہ اسرائیل ناراض نہ ہو، کیونکہ اگر وہ ناراض ہوا، جو کہ وہ بہت معمولی بات پر ہو جاتا ہے، تو غزہ اور مغربی کنارے کو
فاسفورس بم مار کر ملیا میٹ کر دے گا۔ اب بتائیے فلسطینی کیا کریں؟

متعلقہ مضامین

Back to top button