دنیا

یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے، جان ریٹکلف

شیعیت نیوز: امریکن نیشنل انٹیلی جنس سروس کے سابق ڈائریکٹر جان ریٹکلف نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ تہران اور ریاض کے درمیان بیجنگ میں ہونے والا معاہدہ بائیڈن حکومت کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے اور کہا کہ یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے لیے پریشان کن پیشرفت کے خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے۔

’’فاکس نیوز‘‘ نیوز چینل کے مطابق، امریکی ریپبلکن سیاست دان جان ریٹکلف نے اس نیوز نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے ریاض اور تہران کے درمیان ہونے والے معاہدے کو ایک ’’خوفناک پیش رفت‘‘ قرار دیا اور کہا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں چین اور ایران مضبوط، امریکہ اور اسرائیل کمزور اور مشرق وسطیٰ زیادہ کمزور ہے۔

اس نے، جو بائیڈن حکومت کو اس مسئلے کے لیے مورد الزام ٹھہراتے ہوئے، ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب 2 سال پیچھے جانے کا تصور کریں، ’’ابراہم امن معاہدے‘‘ پھیل رہا تھا اور مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو رہا تھا، جب کہ ایران کمزور سے کمزور تھا اور اس کا خطے میں سب سے کم اثر و رسوخ تھا۔

جان ریٹکلف نے جاری رکھا کہ سعودی عرب غالباً اگلا ملک تھا جو ابراہیمی معاہدوں میں شامل ہو گا اور ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں : بحرین کے علامہ سید الغریفی نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے خلاف خبردار کیا

اپنی تصویر کشی کے اگلے حصے میں، ٹرمپ انتظامیہ کے نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر نے بائیڈن کے دور میں ریاستہائے متحدہ کی صورتحال کو بیان کیا اور کہا کہ لیکن بائیڈن کے 2 سال کے دور صدارت کے بعد، انہوں نے سعودی عرب کو ایک طرف چھوڑ دیا اور اسے ’’نفرت انگیز‘‘ قرار دیا۔  اب سعودی ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لا رہے ہیں۔ ایک ایسا ملک جس سے وہ نفرت کرتے ہیں اور صدیوں سے لڑتے رہے ہیں۔ یہ معاہدہ امریکہ کے پہلے دشمن چین کی ثالثی سے ہوا۔

اس امریکی ریپبلکن کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کی خارجہ پالیسیوں اور چین کے خلاف ان کے مؤقف نے امریکہ کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

اس حوالے سے فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے ماہر بہنام بن طالب لو نے اس معاہدے کے حصول میں چین کی ثالثی کی اہمیت پر زور دیا اور فاکس نیوز کو بتایا کہ یہ مسئلہ گہری سیاسی پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔

امریکی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کی سابق افسر ریبیکا کوفلر نے بھی فاکس نیوز کو بتایا کہ یہ معاہدہ دنیا کے جغرافیائی سیاسی ڈھانچے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا ایک اور اشارہ ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اور ایران کے درمیان سیاسی تعلقات کی بحالی کے ساتھ ساتھ شی جن پنگ کا عوامی جمہوریہ چین کا صدر منتخب ہونا ایسے وقت میں رونما ہوتا ہے جب امریکی قانون سازوں اور ماہرین کی جانب سے چین کے بڑھتے ہوئے انتباہات پر غور کیا جا رہا ہے۔ اس ملک کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button