اہم ترین خبریںپاکستان

پیواڑ کے حالیہ تصادم کی پوری کی پوری ذمہ داری انتظامیہ خصوصاً وہاں پر موجود پولیس اہلکاروں، بالاخص وہاں پر تعینات محرر پر عائد ہوتی ہے، علامہ عابد حسینی

سکیورٹی فورسزمیں شامل شیعہ اہلکارکے قتل کے بارے میں علامہ عابد حسین الحسینی نے کہا کہ ایف سی نیز دیگر سرکاری اداروں کے اندر یہ پہلا شخص نہیں، بلکہ ایسے درجنوں افراد پراسرار طور پر قتل ہوچکے ہیں۔

شیعیت نیوز: بزرگ عالم دین اور تحریک حسینی کے سرپرست اعلیٰ علامہ سید عابدحسین الحسینی نے ایک غیرملکی خبررساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئےکہاہے کہ پیواڑ کے حالیہ تصادم کی پوری کی پوری ذمہ داری انتظامیہ خصوصاً وہاں پر موجود پولیس اہلکاروں، بالاخص وہاں پر تعینات محرر پر عائد ہوتی ہے۔ جس نے اہلیان پیواڑ کے اپنے پہاڑ سے لائی جانے والی لکڑیوں کو اسوقت تک روکے رکھا، یہاں تک کہ گیدو کے منگلان آپہنچے اور انہیں فائرنگ کا موقع دیا۔ چنانچہ اس حوالے سے منگلان سے زیادہ زیادتی وہاں پر تعینات سرکاری محرر نے کی۔ یہی نہیں بلکہ کرم میں ہونیوالے تمام تر تنازعات کا اصل سبب ہی سرکار اور انتظامیہ ہے، جو حق اور حقدار کا علم ہونے کے باوجود مسئلے کو طول دیتی ہے۔

سکیورٹی فورسزمیں شامل شیعہ اہلکارکے قتل کے بارے میں علامہ عابد حسین الحسینی نے کہا کہ ایف سی نیز دیگر سرکاری اداروں کے اندر یہ پہلا شخص نہیں، بلکہ ایسے درجنوں افراد پراسرار طور پر قتل ہوچکے ہیں۔ جس کی پوری تفصیل میرے پاس نہیں، تاہم اتنا یاد پڑتا ہے، بلکہ گذشتہ روز ایک بندے نے تذکرہ کیا، تو اس کے بقول کڑمان یوسف خیل کے عاشق علی فوج میں، پاراچنار شہر کے کیپٹن عارف حسین ہزارہ فوج کے اندر اور گذشتہ دنوں یہ ایف سی کا سپاہی آڑاولی قلعے کے اندر شہید ہوگیا۔ انہوں نے کئی دیگر نام بھی بتا دیئے، تاہم میں اس وقت بھول گیا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کا شیعہ و سنی اتحاد و یکجہتی پر مبنی آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کے بیان کا خير مقدم

انہوںنے مزید کہا کہ اس حوالے سے ایک سوال اٹھتا ہے کہ ہمارے لوگوں کو جب اداروں کے اندر امن نہیں ہے، تو باہر دہشتگردوں سے شکوہ کیسے کیا جائے، جبکہ دوسری طرف پاراچنار میں ہزاروں کی تعداد میں یہی سکیورٹی اہلکار اپنے اہل و عیال کے ساتھ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ مزدوری کی غرض سے آئے ہوئے چارسدہ، مردان، نوشہرہ اور دیر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مزدور کار یہاں خود کو سنیوں سے زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں، کبھی کسی سرکاری اہکار یا مسافر یا مہمان کو یہاں کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ وہ کیا کر رہے ہیں۔؟

یہ بھی پڑھیں: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی دو روزہ سرکاری دورے پر تہران پہنچ گئے،ایرانی ہم منصب سے ملاقات

آخری سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شیعوں کی روایات بھی اسی طرح ہیں، تاہم روایات حادثات سے متاثر ہوکر اکثر اوقات بدلتی رہتی ہیں، جبکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارا مذہب، مذہب جعفری اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ اکثر عوام ایسے حالات میں علماء کے پاس آتے ہیں اور ان سے فتویٰ مانگتے ہیں اور انتقام لینے کی اجازت طلب کرتے ہیں۔ تاہم علماء انہیں منع کرتے ہیں۔ اگر کسی دن علماء نے اجازت دیدی تو اس دن جارحین پر یہ زمین تنگ ہو جائے گی۔ خواہ وہ دہشتگرد ہوں، یا انکے سہولتکار اور خانوادے، سرکاری اہلکار ہوں یا کوئی اور قوت۔ تاہم یہ بات سب سمجھ لیں کہ ظلم ظلم ہے، جتنا بھی بڑھ جاتا ہے، آخر کار مٹ ہی جاتا ہے۔ مولا علی علیہ السلام کا قول ہے کہ حکومت کفر سے تو باقی رہ سکتی ہے، مگر ظلم سے باقی نہیں رہ سکتی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button