اہم ترین خبریںمقالہ جات

مزارِ قائد پر دھرنا۔۔۔۔۔ یہ مشکوک لوگ ہیں || نذر حافی

ہمارا پُر زور مطالبہ ہے کہ خبردار! کوئی بندہ قانون کا نام نہ لے۔ اغواکاروں کو قانون کا پابند کرنا یونہی ہے جیسے شیر کے منہ سے دانت نکال دئیے جائیں لہذاانہیں قانون کا پابند کرنا ملک و قوم سے غداری ہے۔

شیعیت نیوز: قائداعظم محمد علی جناح بابائے ملت ہیں۔ بابائے ملت کے مزار پر دھرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اولاد کی پریشانی جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ اپنے ماں باپ کے ہاں ہی پناہ لیتی ہے۔ مزار قائد کے احاطے میں چند دنوں سے کچھ شیعہ لوگوں نے دھرنا دے رکھا ہے۔ یہاں دھرنا دینے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ یہ لوگ بے گناہ ہیں۔ ویسے بھی یہ شیعہ ہیں اور شیعہ کے کفر اور قتل کے فتوے تو ہمارے ہاں کے جید علمائے کرام پہلے ہی دے چکے ہیں۔ اب اگر کہیں ا اندرونِ خانہ اُن فتووں پر خاموشی سے عمل ہو رہا ہے تو اس میں قباحت ہی کیا ہے۔امیرالمومنین حضرت ضیاالحق کا تیار کردہ مائنڈ سیٹ ایسی ہی جگہوں پر تو اپنا کام دکھاتا ہے۔

بہر حال مجھے لگتا ہے کہ ان شیعوں کے جرائم بہت بڑے ہیں اسی لئے توان کے افراد کو لاپتہ کر دیا گیاہے۔ جبری اغوا ہونے والوں پر جو بیت رہی ہے وہ اپنی جگہ لیکن ان کے لواحقین جس سولی پر لٹک رہے ہیں ، ان کے کرب کو کون بیان کر سکتا ہے۔ یہ کرب جتنا بھی زیادہ ہو اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں اب معاف کر دیا جائے۔ انہیں ہر گز معاف نہیں کیا جا سکتا، یقینا ان کے جرائم داعش، القاعدہ، طالبان ، لشکرِ جھنگوی ، سپاہِ صحابہ اور احسان اللہ احسان سے کئی گنا زیادہ بڑے ہونگےاسی لئے تو انہیں اتنی بھیانک سزا دی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہمارے نوجوانوں کا ریاستی اداروں کی جبری تحویل میں ہونا عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار ہے، اسدعباس نقوی

یہ انتہائی خطرناک لوگ ہیں، اسی لئے تو اِن کے گھروں میں گھسا گیا، اور اسلحہ تان کر انہیں اہلخانہ کے سامنے گھسیٹ کر گاڑیوں میں ڈالا گیا ۔ البتہ اس سے ان کی کوئی بے عزتی اور ہتک حرمت وغیرہ نہیں ہوئی یا چادر و چاردیواری وغیرہ کے کسی قانون پر کوئی حرف نہیں آیا چونکہ بلڈی سویلین کا ان چیزوں سے کوئی تعلق ہی نہیں۔

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ یہ انتہائی خطرناک لوگ ہیں، انہوں نے ہی تو پاکستانی فوجیوں کے گلے کاٹے ہیں، یہی تو قائداعظم کی ریزیڈنسی پر حملے کے ذمہ دار ہیں، یہی تو آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کے قاتل ہیں، یہی تو قائداعظم کو کافر اعظم اور پاکستان کو کافرستان اور آئین پاکستان کو غیر اسلامی کہتے ہیں۔

جی ہاں یہ انتہائی ملک دشمن ہیں، یہ اتنے ملک دشمن ہیں کہ احسان اللہ احسان تو اِن کے سامنے کچھ ہے ہی نہیں۔ اسی لئے احسان اللہ احسان کو تو سامنے لایا جا سکتا ہے اور اُس پر احسانات کی بارش کرتے ہوئے اسے رہا بھی کیا جا سکتا ہے لیکن ان لوگوں کو نہیں ہرگز نہیں ۔

یہ بھی پڑھیں: رمضان المبارک کے مبارک ماہ میں جبری لاپتہ افراد کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں، ڈاکٹر فاروق ستار

ہاں تو میں اربابِ اقتدار سے رحم کی اپیل نہیں کرتا، ان خطرناک لوگوں پر رحم کیسا!اِن بچوں، عورتوں ، بوڑھوں اور جوانوں کو دیکھو ! یہ کتنے خطرناک اور ملک دشمن ہیں !یہ کتنا خطرناک سوال پوچھ رہےہیں! یہ پوچھ رہے ہیں کہ ہمارے پیارے کہاں ہیں!؟ یہ انتہائی خطرناک سوال ہے، اس سوال سے ملک و قوم کی سلامتی کو شدید خطرہ ہے۔ مجھے تو اس سوال سے ہی اِن کی حب الوطنی پر شک ہونے لگتا ہے۔ یہ انتہائی مشکوک لوگ ہیں۔ یہ مشکوک لوگ اگر مزارِ قائد پر آگئے ہیں تو پھر کیا ہوا!، یہیں اسی مزار کے احاطے میں پہلے بھی کئی مشکوک داستانیں سو رہی ہیں۔ لیاقت علی خان ہوں یا محترمہ فاطمہ جناح اُن کی داستانوں میں بھی کتنے زیادہ شکوک و شبہات ہیں۔

ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وسیع تر ملکی و قومی مفاد کی خاطر ایسے سوالات پوچھنے والے بیوی بچوں کو بھی لا پتہ کر دیا جائے۔ نیز عوام کے اندر جذبہ حب الوطنی میں مزید اضافے کیلئے اغواکاروں کے اختیارات، مراعات اور تنخواہوں میں بھرپور اضافہ کیاجائے۔ ہمارا پُر زور مطالبہ ہے کہ خبردار! کوئی بندہ قانون کا نام نہ لے۔ اغواکاروں کو قانون کا پابند کرنا یونہی ہے جیسے شیر کے منہ سے دانت نکال دئیے جائیں لہذاانہیں قانون کا پابند کرنا ملک و قوم سے غداری ہے۔

اسی طرح تفتیشی اداروں کو اپڈیٹ کرنے اور پڑھا لکھا اسٹاف دینے کے بجائے پرانے اور کھوجی بابوں کی تعداد میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگ بے شک نئے بھرتی کئے جائیں لیکن سوچ اور طریقہ کار پرانا ہونا چاہیے۔ ماڈرن ٹیکنالوجی اور مہذب عملے کو ہم نے کیا کرنا ہے؟ مجرم تو ہم ویسے ہی پکڑلیتے ہیں لہذا اس اسراف کی بھی بالکل ضرورت نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: شیعہ مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لئے پاراچنار میں بھی گذشتہ 3 روز سے احتجاجی کیمپ جاری

رہی بات شور ڈالنے والوں کی تو اس کیلئے کونسی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے، اپنے کھوجی و تفتیشی بابوں کے گزشتہ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اِن شور مچانے والوں کو بھی یہیں مزارِ قائد میں ہی زندہ گاڑھ دیجئے۔بس کام کی بات یہی ہے کہ اگر ہمیں اپنے ملک کی سلامتی عزیز ہے تو پھر ہم نے اپنے اداروں کو اپڈیٹ نہیں کرنا، عوام کے سامنے اپنی غلطی نہیں ماننی، سرنڈر نہیں کرنا اور ہتھیار نہیں پھینکنے ، ہتھیار صر ف سانحہ بنگلہ دیش کی طرح دشمن کے آگے پھینکنے ہیں۔ یوں رُعب بھی جم جائے گا، اداروں کو اپڈیٹ کرنے والی فضول خرچی بھی نہیں ہوگی، اغواکاروں اور کھوجیوں کی رِٹ بھی قائم ہوجائیگی،غداروں کو سزا بھی مل جائے گی اور لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح اور قائداعظم کی بے چین روح کو بھی سکون ملے گا۔

آخر میں ہماری ایک چھوٹی سے درخواست ہے، وہ درخواست انتہائی مودبانہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ آپ ایک ہمدرد انسان ہونے کے ناطےہماری اس درخواست پر غور فرمائیں گے۔ آپ جو بھی ہیں، جس مذہب،فرقے اور صوبے سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ میری آپ سے یہ درخواست ہے کہ اپنے ضمیر کی عدالت میں یہ سوال اٹھائیے کہ یہ مسنگ پرسنز اور ان کے لواحقین مشکوک ہیں یا یہ طریقہ تفتیش اور اغوا کار مشکوک ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button