امریکہ کی پسپائی، جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے ایران کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار

شیعیت نیوز: امریکہ نے ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کو واپس لے لیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے کہا ہے کہ وہ 2015ء کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ایران کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے ۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی انتظامیہ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقوام متحدہ میں ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کئے جانے کے فیصلے کو واپس لے لیا ہے ۔
اقوام متحدہ میں امریکہ کے مستقل مندوب رچرڈ ملز نے ایک خط میں یہ اعلان کیا۔ مسٹر ملز نے جمعرات کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ارسال کئے گئے اپنے مکتو ب میں کہا کہ میں سلامتی کونسل کو اپنی حکومت کی جانب سے مطلع کرتا ہوں کہ امریکہ اپنے فیصلے کو واپس لے رہا ہے۔
امریکہ نے کہا ہے کہ وہ 2015ء کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ایران کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے جسے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 3 سال قبل ترک کردیا تھا۔
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ پیش رفت امریکی انتظامیہ میں تبدیلی کی عکاس ہے، جس میں امریکی سیکریٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے صدر جو بائیڈن کے اس موقف پر زور دیا کہ اگر تہران معاہدے کی مکمل پاسداری کرے تو واشنگٹن اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہو جائے گا جسے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کے نام سے جانا جاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں : یمنی قوم کو درپیش ہر مشکل کا ذمہ دار امریکہ ہے، یمنی سپریم پولیٹیکل کونسل
امریکی سیکریٹری اسٹیٹ نے برطانیہ، فرانس، جرمنی کے وزرائے خارجہ پر مشتمل گروپ ای 3 کے پیرس میں ہونے والے اجلاس میں ویڈیو میٹنگ کے دوران یہ خیال پیش کیا۔
چاروں اقوام کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اگر ایران جے سی پی او اے کے تحت اپنے وعدوں پر دوبارہ سختی سے عمل کرتا ہے تو امریکہ بھی یہی کرے گا اور اس سمت میں ایران کے ساتھ بات چیت میں شامل ہونے کو تیار ہے۔
یاد رہے کہ سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود رکھنے کے لیے جوہری معاہدہ کیا تھا جس میں یورپی ممالک بھی شامل تھے تاہم مئی 2018ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔
ایک امریکی عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ واشنگٹن یورپی یونین کی جانب سے ایران اور اس معاہدے کے لیے بات چیت کرنے والے 6 ممالک روس، چین، برطانیہ، جرمنی اور امریکہ کے مابین بات چیت کے دعوت نامے پر مثبت ردِعمل دے گا۔
ایک یورپی یونین عہدیدار نے اس قسم کی بات چیت کے انعقاد کا خیال پیش کیا تھا جس کے جواب میں امریکی عہدیدار نے کہا کہ ہم اس قسم کا اجلاس ہونے کی صورت میں اس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں تاہم یہ واضح نہیں کہ کیا ایسا اجلاس ہوگا اور اگر ہو گا تو کب اور کہاں ہو گا۔